اسرائیل کو تسلیم کرنے والے مسلم ممالک
کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں: فضل الرحمن
پی ڈی ایم اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اسرائیل کو تسلیم کرنے والے مسلم ممالک کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں‘‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ فی زمانہ آنکھیں کھلنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے ورنہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اور قدم قدم پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ اب تک ہماری اپنی آنکھیں بھی کھل جانی چاہئیں تھیں بلکہ ہمارے پیچھے چلنے والوں کی بھی کھل جانی چاہئے تھیں، لیکن نہ تو ہم ٹس سے مس ہو رہے ہیں نہ ہماری پیروی میں خاک اڑانے والے، اس لیے سوائے صبر و شکر کے کوئی چارہ نہیں ہے۔ ا ٓپ اگلے روز القدس پر اسرائیلی حملے پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کر رہے تھے۔
کورونا کا خطرہ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے: اسد عمر
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ''کورونا کا خطرہ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے‘‘ لیکن ہم اس پر کوئی کان ہی نہیں دھر رہے حالانکہ ہمیں دروازے کھول کر دیکھنا تو چاہیے کہ کون آیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے اور اس طرح کی لاپروائی مہمان نوازی کے اصولوں کے خلاف ہے حالانکہ ہم ایک مہمان نواز قوم کے طور پر مشہور ہیں، اگرچہ مشہور تو ہم بہت سی دیگر وجوہات کی بنا پر بھی ہیں البتہ ان کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہے اور ذکر کرنے کی کوئی ایسی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ساری دنیا ان سے اچھی طرح سے واقف ہے اور اسی وجہ سے کافی حیران و پریشان بھی ہے۔ آپ اگلے روز ٹویٹر پر ایک بیان جاری کررہے تھے۔
شہباز شریف کو ایئر پورٹ پر روکنا ظاہر
کرتا ہے سلیکٹڈ کتنا خوفزدہ ہے: مریم نواز
سابق وزیراعظم کی صاحبزادی اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کو ایئر پورٹ پر روکنا ظاہر کرتا ہے سلیکٹڈ کتنا خوفزدہ ہے‘‘ حالانکہ حکومتی پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ مجھے اور چچا جان کو جلد از جلد باہر بھیج دے اور چین کی بانسری بجائے کیونکہ پیچھے میدان بالکل صاف اور ہموار ہوگا اور ہم سب لندن میں بیٹھ کر شور و غل مچاتے رہیں گے، اور اس کرشمے کا انتظار کریں گے جس کے تحت سارے مقدمات ختم ، فیصلے کالعدم اور پابندیاں ختم ہو جائیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اپنی جان چھڑانے سے کوئی غرض نہیں ہے اور اس دلدل میں پھنسے رہنا چاہتی ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو اس کی مرضی ، آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
شہباز اندھیرے میں کیوں بھاگنا چاہتے ہیں: فرخ حبیب
وزیراعظم کے مشیر فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف اندھیرے میں کیوں بھاگنا چاہتے ہیں‘‘ جبکہ اندھیرے میں بھاگنا خواہ مخواہ کسی جسمانی چوٹ کو دعوت دینا ہے جبکہ ان کی عمر کا تقاضا تو یہ ہے کہ انہیں دن کی روشنی میں بھی نہیں بھاگنا چاہیے کیونکہ بھاگتا تو آدمی اس وقت ہے جب کوئی اس کے پیچھے بھاگ رہا ہو، مثلاً پولیس کے آگے لگ کر بھاگنے کی تو سمجھ آتی ہے، اگر کچھ مقدمات ان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں تو وہ چیونٹی کی رفتار سے بھاگ رہے ہیں اس لیے اگر انہیں بھاگنا ہی ہے تو اپنے ساتھ دو چار مددگار لے کر بھاگیں تا کہ وہ انہیں گرنے سے بچا سکیں، آگے ان کی اپنی مرضی۔ آپ اگلے روز لاہور میں دیگر رہنمائوں کے ہمراہ ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
شہباز کو دہشت گردوں کی فہرست میں ڈالا گیا: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کو دہشت گردوں کی فہرست میں ڈالا گیا‘‘ حالانکہ منی لانڈرنگ صرف مالی بدمعاملگی ہے اور اصل دہشت گردی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے حکومت اصلی اور نقلی میں جو فرق ہوتا ہے‘ اس کا ہمیشہ لحاظ رکھنا چاہیے کیونکہ جو قومیں ان دونوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھتیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتیں، اور تیز رفتار ترقی تو ہرگز نہیں کر سکتیں ، جس کا ڈول ہمارے قائد نے ڈالا تھا اور جو اب تک یادگار چلا آ رہا ہے، اگرچہ یادگار تو ان کی اور بہت ساری باتیں اور اقدامات بھی تھے جن کی بنا پر وہ لندن میں بیٹھ کر قوم کی رہنمائی کر رہے ہیں اور شہباز شریف ان کا ساتھ دینے کے لیے مائلِ پرواز ہیں
آپ اگلے روز شہباز شریف کو ایئر پورٹ پر روکے جانے پر اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔
اور‘ اب افتخار عارف کے تازہ مجموعۂ کلام باغِ گلِ سرخ میں سے یہ غزل:
جمالِ حرف سے روشن ہیں کاخ و کُو کیا کیا
بپا ہیں جشن سر شہرِ آرزو کیا کیا
اِدھر اُدھر کے اشاروں سے پیچ پڑتے ہیں
وضاحتوں سے الجھتی ہے گفتگو کیا کیا
گلو گرفتہ و لب بستہ شہر کے در و بام
سکوتِ شام میں کرتے ہیں ہائے و ہُو کیا کیا
جھلس گئے سخنِ گرم کی تمازت سے
تری گلی کے خوش آواز و خوش گلو کیا کیا
لحاظِ عہدِ وفا تھا، پلٹ کے دیکھا نہیں
پکارتے رہے دلّی و لکھنؤ کیا کیا
یہی غزل کہ جو معتوب ہو چکی ہے بہت
اسی غزل نے کیا ہم کو سرخرو کیا کیا
نظر ہو دیکھنے والی تو دیکھ لیتی ہے
زمینِ سنگ میں امکانِ رنگ و بُو کیا کیا
سمندر آتے ہی کیسی ہوئی ہے نرم خرام
چٹانیں چیر کے آئی تھی آبجو کیا کیا
آج کا مطلع
لوگوں کو آخر اُن کی اپنی راہوں پر ڈال دیا
یوں تصویرِ سخن سے میں نے اپنا آپ نکال دیا