پاکستان صدر ایوب خان کے زمانے میں بھی مقروض تھا لیکن تب ہر پاکستانی پر صرف 60 روپے کا قرض تھا۔ آج ہمارا ہر شہری یہاں تک کہ نوزائیدہ بچہ بھی ایک لاکھ 82 ہزار روپے سے زائد کا مقروض ہوتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ صرف 2 سالوں میں ملک کے ہر شہری پر قرض کے بوجھ میں 54901 روپے (46 فیصد) کا اضافہ ہوا ہے۔ ملک پر قرضوں کا مجموعی بوجھ 365 کھرب روپے سے بڑھ گیا ہے۔ لیگی حکومت کے دور میں قرضوں کے بوجھ میں 15 ہزار 561 ارب روپے کا اضافہ ہوا، پیپلز پارٹی کے 5 سالہ دور میں قرضوں میں 8 ہزار 200 ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ مشرف کے 9 سالہ دور میں قرضوں میں 3 ہزار 200 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ موجودہ پاکستان جولائی 2018ء سے مارچ 2021ء تک قرضوں کی ادائیگی اور معاشی ترقی کے نام پر 33 ارب ڈالر قرض لے چکی ہے جس سے شرح نمو کم ہونے اور ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کی رپورٹ کے مطابق 2024 ء تک ملک کا مجموعی اندرونی اور بیرونی قرض 45 ہزار 573 ارب روپے ہو جائے گا۔ اس وقت پاکستان آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت کئی بیرونی کمرشل بینکوں سے قرض لے چکا ہے‘ انہیں ادا کیسے کرنا ہے‘ اس کی کوئی پالیسی واضح نہیں ہے ۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ قرضہ حکمرانوں کو اپنی جیب سے ادا نہیں کرنا ہوتا بلکہ یہ پاکستانی عوام گزشتہ 73 برسوں سے ادا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ماضی میں ہمیشہ سابقہ حکومتوں کے قرض لینے کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور عوام کو یہ یقین دلاتے رہے کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد قرض لینے کی روایت ختم کریں گے لیکن افسوس کہ یہ روایت ختم نہ ہو سکی۔ حالانکہ پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے قبل مہنگائی کو کم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کا اعلان کیا تھا لیکن بظاہر
پی ٹی آئی حکومت کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوا جبکہ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام پر آئے روز کبھی بجلی بم تو کبھی پیٹرول بم گرا دیا جاتا ہے جس سے عوام موجودہ حکومت سے کافی مایوس نظر آتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے ملک کے قرضوں میں بھی کمی لانے کے عزم کا اظہار کیا تھا مگر افسوس پی ٹی آئی نے بھی حسبِ سابق اقتدار میں آنے کے بعد قرضوں کا ہی سہارا لیا۔ ایسے میں ہر پاکستانی یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ ''تبدیلی‘‘ کے نام پر عوام کو کیوں بے وقوف بنایا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے اور کیا موجودہ حکومتی ٹیم معیشت چلانے کی صلاحیت سے عاری ہے؟
آئی ایم ایف کی پاکستان سے متعلق جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پر پیرس کلب کے ممالک کا واجب الادا قرضہ 11 ارب 54 کروڑ 70لاکھ ڈالر، نان پیرس کلب ممالک کا قرضہ 21 ارب 87 کروڑ 30 لاکھ ڈالر، ملٹی لیٹرل اداروں کا قرض 33 ارب 74 کروڑ 10 لاکھ ڈالر، کمرشل قرضے کا حجم 9 ارب 63 کروڑ 80 لاکھ ڈالر، بانڈز کے ضمن میں 5 ارب 83 کروڑ 20 لاکھ ڈالر اور آئی ایم ایف کا قرضہ 7 ارب 49 کروڑ 30 لاکھ ڈالر ہے۔ چین کا واجب الادا قرضہ 18 ارب 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر، سعودی عرب 95 کروڑ 40 لاکھ ڈالر، متحدہ عرب امارات 2 ارب 2 کروڑ 80 لاکھ ڈالر جبکہ کمرشل قرضے میں چین کا قرضہ 6 ارب 73 کروڑ 50 لاکھ ڈالر اور دیگر ممالک کا قرضہ 2 ارب 90 کروڑ 30 لاکھ ڈالر ہے۔ ادھر حکومت کی حالت یہ ہے کہ 365 کھرب 37 ارب قرض کی اقساط کی ادائیگی اور سود کے لیے مزید قرض لیا جا رہا ہے جس سے قرض میں سالانہ گیارہ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتی ناقص معاشی پالیسیوں کی سزا عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ دوسری جانب ہماری برآمدات بھی مسلسل زوال پذیر ہیں اور ان کا حجم بے پناہ کوششوں کے باوجود زیادہ نہیں ہو سکا۔ تمام تر اقدامات کے باوجود ٹیکسوں کی مد میں زیادہ اضافے کی امید نہیں۔ ماضی کے تجربات، معروضی حالات اور مستقبل کے امکانات کو نگاہ میں رکھیں تو اس بات کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ پاکستان یہ قرضے ادا کر سکے۔ ہمارے سابق و موجودہ حکمران اب تک دعوے ہی کرتے رہے کہ ہم یہ قرضے ادا کر دیں گے لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ یہ پرانے قرضے ادا کرنے کے بجائے نئے قرضے لینے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ حال ہی میں عالمی سود خوروں نے قرضے کا قطرہ ایک بار پھر ہمارے خشک منہ میں ٹپکا دیا ہے۔ تحریک انصاف حکومت نے بھی کشکول توڑنے کے بجائے قرض اور امداد کے سلسلے کو جاری رکھا اور 7 ارب ڈالر کی حقیر رقم ہماری آزادی، معیشت اور مستقبل کی قیمت ٹھہرائی گئی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان نے پہلی بار 1958 ء میں آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلایا تھا جب ایک ڈالر تین روپے کا تھا۔ پاک بھارت 1965ء جنگ کے بعد جب ملکی بیرونی امداد بند ہوئی تو ڈالر 7 روپے کا ہو گیا مگر اس دوران بھی پاکستان کے مالی حالات بہتر تھے اور قرضوں کی ادائیگی ہو سکتی تھی؛ تاہم حالیہ دنوں میں پاکستان 13ویں بار بیل آوٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف کے پاس گیا، جو عالمی مالیاتی فنڈز کے تحت پاکستان کا 23واں قرضہ ہے۔ ایک بار پھر ہماری تمام اقتصادی، معاشی اور سیاسی پالیسیوں پر آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کے ذریعے استعماری قوتوں کو تسلط کا حق حاصل ہو گیا ہے؛ چنانچہ ادھر قرضے کی یہ سوغات آئی ادھر قرض دینے والے ہمارے ممالک کی جانب سے ہمارے عدالتی نظام اور آئین کا مذاق اڑاتے ہوئے عالمی سطح پر پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جانے لگا۔ اس کی واضح مثال توہین رسالت کے قانون پر یورپی یونین کی قرارداد کی منظوری ہے۔ اس ماورائے آئین و قانون اقدام سے ثابت ہو گیا کہ ہمارے حکمران بیرونی دبائو کے سامنے عاجز و بے بس ہیں۔
اب ہمارے سامنے ایک راستہ تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور امریکا کے سامنے مکمل سرنڈر کی راہ اپنا لیں، ایٹمی صلاحیت ختم کرنے پر رضا مند ہو جائیں، اپنی خارجہ پالیسی امریکا کے تابع کر لیں، کشمیر سے دستبردار ہو جائیں اور ہر معاملے میں امریکا اور اتحادیوں کا ہاتھ بٹائیں لیکن یہ سب کچھ کرکے بھی ہماری اقتصادی حالت بہتر ہو سکے گی یا قرضے معاف کر دیے جائیں گے، اس بات کی کوئی ضمانت نہیں اور یہ راستہ اختیار کرنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے عقیدے، نظریے اور آزادی سے محروم ہونا قبول ہے۔ دوسرا آبرو مندانہ آپشن یہ ہے کہ ہم قرضے ادا کرنے سے انکار کر دیں، کم ازکم اس وقت تک انکار کر دیں جب تک ادا کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس انکار کی معقول وجوہ ہیں۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ ظالمانہ قرضے لیتے وقت ہماری حکومتوں نے قوم سے نہیں پوچھا تھا۔ چاہے وہ مارشل لا کی غیر جمہوری حکومتیں ہوں یا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی جمہوری حکومتیں، عوام سے کسی نے بھی پوچھنے کی تکلیف گوارا نہیں کی لہٰذا ان جبری قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ غریب عوام پر ڈالنا آئین، قانون اور اخلاق کے کسی قرینے سے جائز نہیں۔ ان قرضوں کے حصول، اجرا اور استعمال کی ساری منصوبہ بندی بھی قرض دینے والے ممالک کرتے رہے ہیں‘ ان کی دیدہ و دانستہ غلط پلاننگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتنے بھاری قرضوں کے باوجود ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ سوائے ایوب دور کے جب تربیلا اور منگلا ڈیم وغیرہ تعمیر ہوئے۔ کوئی چھوٹا بینک بھی غیر معینہ یا ناقص منصوبے کے لیے قرض نہیں دیتا‘ پھر آئی ایم ایف اور عالمی بینکوں کی جانب سے کیوں قرضے دیے جا رہے ہیں؟ دراصل یہ رقم قرض دینے والوں کے ایما پر لوٹ لی گئی اور لوٹ مار کا یہ مال انہی بینکوں میں واپس چلا گیا جہاں سے آیا تھا۔ اب لوٹ کے مال کے پیچھے لوٹنے والے بھی وہاں جا پہنچے‘ لہٰذا قانون، اخلاق اور عقل و منطق کے کسی اصول کے تحت پاکستان کے عوام پر یہ بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ بد انتظامی کی ذمہ داری سے قرض دینے والے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ قرض دینے والے بینک اور ممالک اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان قرضوں کا ثمر عوام کو نہیں ملتا لیکن چونکہ قرض لینے والے ان کے سیاسی اور معاشی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہیں‘ اس لیے وہ کسی اصول اور ضابطے کے بغیر بھاری رقوم جاری کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ (جاری)