تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     11-05-2021

Paris Commune

جن قارئین نے اقبال کے دوسرے مجموعہ کلام'' بالِ جبریل ‘‘کی نظم ساقی نامہ پڑھی ہے وہ اس شعر سے بخوبی واقف ہوں گے جس میں اقبال نے ہمالہ کے چشمے اُبلنے اور اہلِ چین کے سنبھلنے کا ذکر کیا ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ اُنہیں سنبھلنے میں ڈیڑھ سو برس لگ گئے۔ یہ تو اقبال کی نظر تھی جس نے کوہ ہمالہ کے پار اُبلتے ہوئے چشمے اُس وقت دیکھ لئے جب خود اہلِ چین بھی ایک بڑی انقلابی تبدیلی کے آغاز سے ناواقف تھے۔ ان چشموں کے پانی کو اُس تند و تیز برفیلی ندی میں تبدیل ہونے میں 150 کے لگ بھگ سال لگ گئے جو (بقول اقبال) اپنا راستہ رو کنے والی پتھریلی سلوں کو چیر کر آگے بڑھ جاتی ہے ‘ جب تک کہ وہ کسی چھو ٹے دریا اور چھوٹا دریا کسی بڑے دریا اور بڑا دریا کسی سمندر کا حصہ نہیں بن جاتا۔
چین کا پہلا انقلاب1911 ء میں آیا تھا جب بادشاہت کا تختہ اُلٹ کر غیر شاہی حکومت (Republic) قائم کی گئی۔ دوسرا انقلاب 1969 ء میں آیا جب مائوزے تنگ کی قیادت میں چین کی کیمونسٹ پارٹی کو اشتراکی نظام پر مبنی سیاسی بندوبست کو سارے چین پر مسلط کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ تیسرا انقلاب سیاسی یا فوجی نہیں بلکہ ثقافتی تھا جو دس برس (1966-76ء) تک جاری رہا۔اپنے بیانیہ کو آگے بڑھانے سے پہلے میں آپ کو وہ واقعہ سنانا چاہتا ہوں جو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں اُس وقت کے وزیراعظم چواین لائی کے گھر کے مہمان خانہ میں پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی میں رونما ہوا۔ مہمان امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر تھا۔ میزبا ن نے مہمان کیلئے ایک گلاس میں مشروب ڈالا تو اُس نے نوش کرنے سے پہلے میزبان سے پوچھا کہ آپ کی 1789ء میں بپاہونے والے انقلابِ فرانس کے بارے میں کیا رائے ہے؟ اس سے کون سے اثرات مرتب ہوئے؟ انسانی تاریخ کے تالاب میں اتنا بڑا پتھر گرنے سے کون کون سی لہریں اُٹھیں؟ سوال سُن کر چواین لائی نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سوچ میں پڑ گئے۔ کچھ دیر بعد کھولیں تو مسکرائے اور کہا : ابھی تو دو سوبرس بھی نہیں ہوئے۔ آپ کے سوال کا جواب قبل از وقت گا۔
کورونا وائرس کی وبا کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ لکھائی پڑھائی کیلئے اتنا وقت مل گیا جس کا میں نے زندگی بھر خواب دیکھا تھا۔ کالم نگار نے ایک اور کتاب مرتب کرلی اور دوسری لکھنا شروع کر دی مگر نقصان یہ ہوا کہ نصف صدی پر پھیلے ہوئے معمول کے مطابق ہر سال پاکستان اور فرانس جانا ممکن نہ رہا۔ پاکستان جاتا تو سیالکوٹ کے ایک کاشتکار کا پوتا سب سے پہلے کسانوں اور پھر سابق استاد ہونے کی وجہ سے اساتذہ کے مظاہرے اور ایک سرکاری افسر کا بیٹا ہونے کے ناتے کم آمدنی والے سرکاری ملازمین اور ہسپتالوں میں زندگی کے پہلے اٹھارہ برس گزارنے کے حوالے سے لیڈی ہیلتھ ورکروں کے مظاہروں میں شریک ہوتا۔ کورونا وائرس نے پیرس میں نہ ختم ہونے والے مظاہروں کی ہر ی بھری فصل اُجاڑ کر رکھ دی۔ گزری ہوئی نصف صدی میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ میں پیرس جائوں اور وہاں کوئی بڑا مظاہرہ نہ ہو رہا ہو۔ لگتا ہے انقلابِ فرانس کی جو لہریں 1789 ء میں بلند ہوئیں وہ اب بھی زندہ و تابندہ ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف تعصب کے اندھیرے میں مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والے خار زاروں میں پھول کی پتیاں بن کر آسمان سے برستی ہیں۔ 15 مارچ سے لے کر 26 مئی1871ء تک چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ پیرس میں انقلابی حکومت ایک ماہ دس دن قائم رہی۔ انسانی تاریخ میں یہ ایک روشن سنگ میل ہے۔ خوشی قسمتی سے ان دنوں جو خاتون پیرس کی میئر ہے وہ سوشلسٹ نظریات رکھتی ہے۔ اُس نے حساب جوڑ کر اعلان کیاکہ پیرس کمیون کی تاریخ میں عمر150 برس ہو چکی ہے کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ یادگاری جشن منایا جائے؟ جشن بھی وہ جو تین ماہ جاری رہے گا۔ براہِ کرم آپ دعا مانگئے کہ جشن ختم ہونے سے پہلے کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے نافذ کردہ پابندی ختم ہو جائے اور میں اس جشن میں شریک ہو سکوں۔ آپ چاہے کالم نگار کو نظر انداز کر دیں مگر پیرس کی میئر کیلئے آپ کے دلوں میں نیک خواہشات کے پھول ضرور کھلیں۔ میں مذکورہ بالا جشن کے انعقاد کی خبر پڑھ کر اتنا خوش ہوا کہ میں نے اُنہیں شکریہ کا خط لکھا ۔ پیرس شہر کی کونسل میں دائیں بازو کے عوام دشمنوں اور رجعت پسنداراکین نے بڑا سخت احتجاج کیا ہے اور غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک پرُ تشدد واقعہ کی یاد منانا ہر گز مناسب نہیں‘ مگر اس جشن کی تقریبات زور و شعور سے جاری ہیں۔
اب ہم چلتے ہیں پیرس کمیون کی طرف جو پیداوار تھا فرانس کی فوجوں کا ایک جرمن ریاست (Prussia) سے برُی طرح شکست کھا جانے کا۔ پیرس کے لوگوں نے اپنی ناراضی یوں ظاہر کی کہ اُنہوں نے Montmartre Hillکے مقام پر اپنی شکست خوردہ فوج پر حملہ کر کے کئی افسروں کو قتل کر دیا۔ پیرس کا انتظام چلانے والے سرکاری افسروں کو معزول کر کے اُن کی جگہ عوامی نمائندوں کی خالصتاً جمہوری حکومت قائم کر دی۔ جو دس ہفتے تک برسر اقتدار رہی۔ فرانس کے بادشاہ (پیرس کے مضافات میں Versaillesمحلات میں رہنے والے) کی قوتِ فیصلہ اتنی کمزور تھی کہ اُس کو یہ بغاوت کچلنے کیلئے ضروری احکامات جاری کرنے میں کئی ہفتے لگ گئے۔ پرُ امن مذاکرات کا ان دنوں رواج نہ تھا۔ (بدقسمتی سے پاکستان میں ان دنوں بھی نہیں)۔وزیرتو بہت سے تھے مگر باتدبیر ایک بھی نہ تھا۔ کمیون (عوامی نمائندوں کی حکومت) کے ارکان کی تعداد 92 تھی جنہوں نے قومی اسمبلی اور بادشاہ کی نامزد عبوری حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی خود مختاری کا پرچم بلند کیا تھا۔ ان کا اشتراکیت سے کوئی واسطہ نہ تھا وہ محنت کش اور متوسط طبقہ کے اتحادیوں پر مشتمل قوس قزح تھی۔ وہ ذلت آمیز شرائط پر Prusia سے صلح کرنے کے خلاف تھے۔ اُدھر جرمن فوج بڑھتے بڑھتے پیرس کے قریبی پہاڑوں پر خیمہ زن ہو چکی تھی۔ فرانس کے بادشاہ نے اس دبائو کے پیش نظر حکم دیا کہ پیرس شہر سے تمام توپوں کو ہٹا دیا جائے تاکہ شہری مدافعت کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ فرانس پر یہ برُا وقت بھی آیا کہ غیر ملکی حملہ آوروں سے شکست کھا جانے والی فوج نے اپنے دارالحکومت میں آزادی پسند شہریوں پر کئی ہفتے روزانہ بمباری کی او ر بالآخر وہ عوامی مزاحمت کو پاش پاش کرنے میں کامیاب رہی۔ پیرس کے شہری بڑی بہادری سے اپنی سڑکوں اور گلیوں میں لڑے اور آخری شہری کے ہلاک ہو کر زمین پرگرِ جانے تک لڑتے رہے۔بغاوت کے خاتمے سے پہلے باغیوں نے پکڑے ہوئے سب سے بڑے روحانی پیشوا (Archbishop of Paris ) کو قتل کر دیا۔ آپ کو شاید اعتبار نہ آئے مگر یقین جانئے کہ فرانس کی فوج نے پیرس کے 20 ہزار سے زائد لوگوں کو اس خانہ جنگی میںہلاک کر کے فتح حاصل کی۔ پیرس کے کوچہ وبازار میں انسانی خون کے دھبے تو کئی برساتوں کے بعد دھل گئے ہوں گے مگر اس قتلِ عام نے فرانس کے عوام پر حکمران طبقے کے خلاف نفرت اور شدید احتجاج کے جو نقوش مرتب کئے وہ انمٹ ہیں۔ دوسرا اور غالباً زیادہ بڑا نقصان یہ ہوا کہ فرانس ظالم و مظلوم کے دو متحارب طبقات میں بٹ گیا۔ ڈیڑھ سو برس گزر گئے مگر یہ تقسیم ختم ہونے کی بجائے اور گہری ہوگئی ہے۔ ماضی قریب میں زرد رنگ کی جرسی پہن کر مظاہرے کرنے والے لاکھوں افراد نے اسی باغیانہ رسم کو پھر تازہ کیا۔ اب آپ اتفاق کریں گے 1789ء کے انقلاب فرانس کے بارے میں جناب چو این لائی نے جو فرمایا تھاوہ سو فیصدی درست تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved