حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذروں کو نسبت ہوئی تو وہ سورج، چاند اور ستارے بن کر چمکے۔ آپﷺ کا وجودِ مسعود انسانیت کے لیے سراپا خیر و برکت تھا۔ آپﷺ نے ایک تاریک ماحول میں اخلاق و کردار کے موتی چمکائے، جہالت زدہ معاشرے میں علم کی شمعیں روشن کیں۔ ظلم و ستم کی مسموم فضائوں کو عدل و انصاف کی خوشبو سے معطر کر دیا۔ فتنے، فساد، بغض اور کینے کے زہریلے اثرات کو محبت و اخوت، ہمدردی و خیر خواہی اور صلح و آشتی کے تریاق سے زائل کر دیا۔ کبر و نخوت کے بتوں کو توڑ کر انسانیت کے درمیان مصنوعی اونچ نیچ کی فصیلیں منہدم کر دیں۔ تمام انسان شرفِ انسانیت سے بہر ہ ور اور عزت و احترام کے مستحق قرار پائے۔
آپﷺ کی ولادت کا باسعادت لمحہ تاریخِ انسانی کا حاصل قرار پایا اور تاریخ کا رخ پھیر دینے کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ سردارِ قریش عبدالمطلب کا خوبصورت، ہونہار اور نوجوان بیٹا عبداللہ عنفوانِ شباب میں موت کی وادی میں اتر ا تو پورا مکہ سوگوار ہو گیا تھا۔ ہر شخص نے یہ صدمہ محسوس کیا۔ مرحوم کے تمام بہن بھائی اس جوان مرگ پر غمزدہ اور نڈھال تھے۔ بوڑھے باپ کی کمر خمیدہ ہو گئی تھی مگر بوڑھے سردار کے دل میں اس موسمِ خزاں میں ایک نرم و گداز کونپل کی تصویر سمائی ہوئی تھی۔ کونپل جو اپنی مثال آپ ہو گی، کونپل جو آنے والی بہارِ جاں فزا کا مژدہ سنا رہی تھی۔ اس کی نظر اپنے جوان بیٹے کی بیوہ کے چہرے پر جم گئی۔ پھر اس نے شفقت پدری سے تر آنکھوں کے ساتھ اپنی بہو کو تسلی اور حوصلہ دیا کہ رب کعبہ اسے بے یار و مدد گار نہیں چھوڑے گا۔ اسے وہ عزت ملے گی جو کبھی کسی کو نہ ملی ہو گی۔
غمزدہ آمنہ کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے مگر اپنے پدر نسبتی کے میٹھے اور دل نشین بول نے اسے ایک عجیب اطمینان سے سر شار کر دیا۔ آخر وہ لمحہ آن پہنچا جس کا عزیز و اقارب کو بھی انتظار تھا اور جس کے لیے تاریخ بھی صدیوں سے چشم براہ تھی۔ جب بطحا میں یہ چاند چمکا تو سارا عالم جگمگانے لگا۔ اس لمحے کا سب سے عجیب اور حیران کن واقعہ یہ ہے کہ عبدالمطلب کے بیٹے شیبہ (ابولہب) کو صبح ہی صبح اس کی کنیز ثویبہ نے آ کر خوشخبری سنائی کہ اس کے مرحوم بھائی عبداللہ کے ہاں چاند سا بیٹا پیدا ہوا ہے۔ (اس کا تلفظ ثُوَیْبَہ ہے بر وَزن زُبَیدہ و عُبیدہ، نہ کہ ثوبیہ بر وَزن لوبیہ و تولیہ۔ ہمارے ہاں یہ اسمِ علم غلط تلفظ کے ساتھ رائج ہے یعنی ثوبیہ۔ اس کی تصحیح ضروری ہے) اس چچا کے لیے دیگر تمام ارکان خاندان کی طرح بھتیجے کی ولادت اتنی مسرت و فرحت کا باعث تھی کہ اس نے کنیز کو یہ خوشخبری سنانے کے انعام میں آزادی عطا کر دی۔ اس کے گھر میں جشن منایا گیا اور رات کو خوب چراغا ں ہوا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس شب ابولہب کے گھر گھی کے چراغ جلے تھے۔ سند کے واقعات نے بتا دیا کہ چراغ جلا کر مطمئن ہو جانا کامیابی کا راستہ نہیں، کامیابی مکمل اطاعت و اتباعِ رسولﷺ میں مضمر ہے۔
اب ایک نیا منظر دیکھیے۔ یہ چالیس پینتالیس سال بعد کا منظر نامہ ہے۔ عبداللہ کا بیٹا، آمنہ کا چاند عرب کا درِّیتیم اب جوا نِ رعنا ہے۔ اس کے سر پہ تاجِ نبوت ہے اور اس کا رشتہ عرش والے سے مسلسل قائم ہے۔ آج اس کی مشفق ماں اور رحیم و شفیق دادا تو دنیا میں موجود نہیں۔ وہ مدت ہوئی اسے چھوڑ کر عالمِ جاودانی کو کوچ کر گئے تھے۔ آج اس کی والدہ کے خواب تعبیر کا روپ دھار چکے ہیں اور اس کے دادا کی سوچوں اور تصورات نے حقیقت کا جامہ پہن لیاہے۔ مولانا الطاف حسین حالی کے الفاظ میں آج اس کی صدا میں بجلی کا کڑکا ہے، باطل کے خس و خاشاک کو خاکستر کر دینے کے لیے اور اس کا پیغام صوتِ ہادی ہے، عالمِ انسانیت اور خود حرم کی تعمیر نو کے لیے! آج وہ عکاظ کے بازار میں کھڑا لوگوں کو ایک اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ ساتھ ہی ایک شخص اس محبوبِ خدا پر خاک اور کنکریاں پھینک رہا ہے۔ زبان سے اول فول بھی بکتا جاتاہے اور لوگوں سے کہتاہے '' لوگو! اس کی بات نہ سننا یہ ساحر و مجنون ہے‘‘۔
یہ وہی ابولہب ہے جس نے ولادتِ باسعادت کے روز چراغاں کیا تھا اور اپنی لونڈی کو اس خوشی میں آزاد کر دیا تھا۔ اس نے اپنے مقدر کا خود فیصلہ کیا ہے اور فیصلہ کیسا ہے؟ کون نہیں جانتا۔ رہی وہ لونڈی جسے اس مبارک لمحے آزاد کر دیا گیا تھا تو وہ بڑی خوش نصیب تھی۔ اس نے جس زبان سے اپنے مشرک آقا کو مہرِ تاباںﷺکی ولادت کا مژدہ سنایا تھا اسی زبان سے ماہِ عرﷺب کو لوریاں بھی دیں اور پھر سب سے عظیم بات یہ کہ اسی زبان سے وہ کلمہ بھی پڑھا جو نجات کی دلیل ہے اور جسے سن کر اس کا سابق آقا سیخ پا ہو جایا کرتا تھا۔ ایک وہ مقدر ہے اور ایک یہ نصیب ہے! ایک بدبختی کی انتہا اور ایک خوش نصیبی کی معراج! قرآن میں رب کریم نے فرما دیا: اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ نہ چاہے، یقینا اللہ بڑا علیم و حکیم ے۔ اپنی رحمت میں جس کو چاہتا ہے داخل کر لیتا ہے اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (سورہ الدھر: 30 تا 31)
حضرت ثُوَیْبَہؓ وہ صحابیہ ہیں جنہوں نے کئی عظیم ہستیوں کو اپنا دودھ پلایا۔ آنحضورﷺ نے ولادت کے بعد چند دن تک ان کا دودھ پیا۔ یوں وہ آپﷺ کی رضاعی ماں قرار پائیں۔ آنحضورﷺ کے رضاعی بھائیوں میں جن صحابہ کے نام ملتے ہیں ان میں حضرت ابوسلمہؓ بن عبدالاسد، حضرت حمزہؓ اور حضرت عبداللہؓ بن جحش کے اسمائے گرامی حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں منقول ہیں۔ آپﷺ کے یہ سب رضاعی بھائی حضرت ثویبہؓ کا دودھ پینے کی وجہ سے آپﷺ سے یہ نسبت رکھتے تھے۔ ان سب نے حضرت ثویبہؓ کے مختلف بچوں کے ساتھ دودھ پیا تھا۔
خونی و نسبی رشتے کے لحاظ سے ابو سلمہؓ اور عبداللہؓ بن جحش آپﷺ کے پھوپھی زاد تھے جو آنحضورﷺ کی دو مختلف پھوپھیوں کے بیٹے تھے جبکہ حضرت حمزہؓ آپﷺ کے چچا تھے۔ نبی پاکﷺ نے حضرت ثویبہؓ کے جس بیٹے کے ساتھ دودھ پیا تھا ان کا نام مسروحؓ بیان ہوا ہے۔ وہ بھی صحابی تھے اور آنحضورﷺکی زندگی ہی میں مدینہ منورہ میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ آنحضورﷺ نے ان کا جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں ان کو دفن کیا گیا۔ اس موقع پر اپنے رضاعی بھائی کی جدائی سے غمزدہ ہو گئے تھے۔
تاریخ میں آنحضورﷺ کا اپنی رضاعی ماں حضرت حلیمہؓ سعدیہ کے ساتھ حسنِ سلوک بیان ہوا ہے۔ حضرت ثویبہؓ چونکہ مکہ اور مدینہ میں آپﷺ کے ساتھ رہیں اس لیے ان کے ساتھ آپﷺ کا خدمت ومدارات کا معاملہ زیادہ وسیع تھا۔ تاریخ میں آتاہے کہ آپﷺ اپنی رضاعی ماں کے لیے کپڑے خرید کر بھیجا کرتے تھے۔ وقتاً فوقتاً کھانے پینے کی چیزیں اور نقدی و تحائف بھی پیش خدمت کرتے رہتے تھے اور جب بھی مدینہ سے باہر جانے لگتے یا سفر سے پلٹتے تو اکثر ان کے ہاں تشریف لے جاتے تھے۔ آپﷺ کا یہ عمل ماں کے مقامِ بلند کو عملاً واضح کرنے کی اعلیٰ مثال ہے۔
تاریخ واقعی اپنے اندر بڑی عبرت کا سامان رکھتی ہے۔ ولادتِ باسعادت پر چراغاں کرنا لیکن حکم سامنے آ جائے تو اتباع سے انکار کر دینا! کسی کا یہی مقدر بن جاتا ہے جس کے لیے تباہی کی وعید آئی ہے۔ ولادت پر خوشی کا اظہار، پھر کلمہ حق سن کر لبیک کہنا اور اتباع کی راہ اپنا لینا بھی کچھ خوش نصیبوں کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ یہ مقدر انسان کو آسمانِ ہدایت کے چمکتے ہوئے ستارے کی مثال بنا دیتا ہے۔ ثویبہؓ خوش قسمت ہیں کہ لمحۂ اول سے سعادت نصیب بنیں اور آخر تک اس راہ پر گامزن رہ کر رفعتِ شان کی منزلیں طے کرتی رہیں۔ حضرت ثویبہؓ آنحضورﷺ کی صحابیات کے درمیان آپﷺ کی رضاعی ماں ہونے کی وجہ سے بہت احترام کی نظر سے دیکھی جاتی تھیں۔
آج یہ امت بھی عجیب دو رنگی اور مخمصے کا شکار ہے۔ ختمی مرتبتﷺ سے عقیدت و محبت کے دعوے خوش آئند و بجا مگر عمل کی دنیا میں ہم تہی دامن ہیں۔ جب اور جہاں اتباعِ رسولﷺ کا مرحلہ آئے، مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ کتنی خوب صورت اور حکمت سے مالا مال بات کہہ گئے ؎
بمصطفیٰﷺ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است
اے اہلِ اسلام! آئیں عہد کریں کہ راہِ مصطفیﷺ پہ چلیں گے، بو لہبی شعار کی ہر قسم کو ترک کریں گے اور نبیﷺ کے عشق کا دم بھرنے کے بعد نبیﷺ کے باغیوں سے دوستی نہ گانٹھیں گے۔
''بحق دل بند و راہِ مصطفیﷺ رو‘‘