تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     12-05-2021

حبیب جالب: ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم …(4)

''سرِ مقتل‘‘ جالب کی انقلابی شاعری کی کتاب تھی جس نے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا تھا لیکن جو عام لوگوں کے لیے حبس کے موسم میں تازہ ہوا کا جھونکا تھی۔ ایک مہینے میں اس کے چار ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئے۔ جالب کی یہ ''باغیانہ‘‘ شاعری حکومت کے لیے قطعی قابلِ قبول نہ تھی۔ اسی لیے ''سرِ مقتل‘‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی جس کے مطابق اس کتاب کو بیچنا، خریدنا اور قبضے میں رکھنا جرم قرار دیا گیا تھا۔ ''سرِ مقتل‘‘ کی بیشتر نظمیں میں نے زبانی یاد کر لی تھیں۔ کتاب پر پابندی کا فیصلہ حبیب جالب کا حوصلہ پست نہ کر سکا بلکہ ان کی آواز اور توانا ہوگئی۔ اس موقع پر حبیب جالب نے اپنا مشہور قطعہ لکھا تھا:
مرے ہاتھ میں قلم ہے مرے ذہن میں اُجالا
مجھے کیا ڈرا سکے گاکوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکرِ امن عالم تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا
جمہوریت کا ساتھ دینے والا ہر فرد جالب کیلئے محترم اور آمریت کا ہر پشت پناہ اس کیلئے قابلِ نفرت تھا۔ اس زمانے میں ایوب خان کے وزیرِ اطلاعات عبدالوحید خان نے شاہ سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے مادرِ ملت کے خلاف بیان دیا۔ جالب‘ جو مادرِ ملت کے جلسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا اور فاطمہ جناح کے قافلے کا سپاہی تھا‘ نے عبدالوحیدکو آڑے ہاتھوں لیا:
مس فاطمہ جناح کی باتیں بھی ہیں غلط
منطق ملاحظہ ہو یہ عبدالوحید کی
اس بے ادب نے مادرِ ملت کی شان میں
گستاخ ہو کے اپنی ہی مٹی پلید کی
اب جالب کی آشفتہ سری کو آمریت کی رات سحر کرنے کا خواب مل گیا تھا۔ اب وہ براہِ راست حکومت اور اس سے جڑے ہوئے لوگوں کو اپنی تنقید کے نشانے پر رکھ رہا تھا۔ انہی دنوں کا ایک واقعہ ہے کہ ایک غیرملکی سربراہِ مملکت کے دورے کے موقع پر اداکارہ نیلو کو بُلایا گیا اور اس کے انکار پر اسے جبری طور پر وہاں لے جایا گیا۔ اس پر جالب نے اپنی مشہور نظم لکھی:
تو کہ ناواقف آدابِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
تجھ کو انکار کی جرأت جو ہوئی تو کیونکر
سایۂ شاہ میں اسی طرح جیا جاتا ہے
آخرکار زبردست عوامی دباؤ کے باعث ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال لیا۔ جالب کو یوں لگاکہ وہ ایک بار پھر سے سفر کے پہلے سنگِ میل پر آکھڑا ہوا ہے۔ ایوب خان کے دور میں مری کے مشاعرے کو ایک مدت گزر چکی تھی لیکن جبر کی رات ابھی باقی تھی۔ اتفاق دیکھیے کہ سالوں کے الٹ پھیر کے بعد ایک بار پھر مری میں ہی مشاعرہ تھا۔ اس بار حبیب جالب نے نظم کے بجائے غزل سنائی۔ اس کا مطلع سناتے ہوئے انہوں نے دیوار پر لگی حاکمِ وقت کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہی یہ شعر پڑھا:
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
یہ جالب کا ہی حوصلہ تھاکہ اس نے جبر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ آخر یحییٰ خان کا دورِ ابتلا بھی گزر گیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے عنانِ اقتدار سنبھالی۔ وہی بھٹو جو جالب کی دوستی کا دم بھرتا تھا اور جس کے شانے سے شانہ ملاکر جالب نے صدر ایوب کے اقتدار کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ جالب نے اس سے پہلے ہی نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ بھٹو نے جالب کو پیپلزپارٹی میں شمولیت کی دعوت دی لیکن جالب نے انکار کر دیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب بھٹو کے دور میں جالب کو جیل جانا پڑا۔ بھٹو کے دور میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس کی گونج ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ ہوا یوں کہ غیرملکی مہمانوں کیلئے ایک تقریب لاڑکانہ میں ہورہی تھی‘ وہاں اداکارہ ممتاز کو زبردستی شرکت پر مجبور کیا گیا۔ جس پر جالب نے ایک نظم لکھی:
قصرِ شاہی سے یہ حکم صادر ہوا/لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو
اپنے ہونٹوں کی خوشبو لٹانے چلو/ گیت گانے چلو، ورنہ تھانے چلو
جالب نے لاہور سے الیکشن میں حصہ بھی لیا لیکن الیکشن کیلئے سرمایہ چاہیے جو اس کے پاس نہیں تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیاکہ بھٹو اور جالب میں اختلافات کی خلیج حائل ہوگئی۔ اب بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک میں جالب بھی شریک تھا۔ بھٹو کا عہد اس وقت اچانک ختم ہو گیا جب ملک میں ضیاالحق کے مارشل لا کا آغاز ہوا۔ جالب جب بھی سوچتا ایک رات کا اختتام ہو رہا ہے وہیں سے ایک نئی شب کا آغاز ہو جاتا۔ جالب نے پہلے ادوار بھی دیکھے تھے لیکن یہ دور ان سب ادوار سے کڑا تھا۔ انہیں دنوں کراچی پریس کلب میں جالب کو بلایا گیا جہاں اس نے وہ نظم ترنم سے پڑھی جس نے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کردیا۔
ظلمت کو ضیا‘ صرصر کو صبا‘ بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر‘ دیوار کو در‘ کرگس کو ہما کیا لکھنا
یہ نظم جنوں پیشہ جالب کا اپنے وقت کے حکمران کو براہ راست چیلنج تھا۔ جالب کو اس دور میں بھی جیل جانا پڑا۔ یہی زمانہ تھا جب حدود آرڈیننس کا اعلان کیا گیا‘ جس پر عورتوں اور سول سوسائٹی نے احتجاج کا اعلان کیا۔ عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ انہوں نے حبیب جالب سے درخواست کی کہ وہ بھی اس احتجاج میں آئیں۔ جالب صاحب نے عاصمہ جہانگیر سے وعدہ کرلیا کہ وہ ضرور اس مظاہرہ میں آئیں گے۔ مال روڈ پر مظاہرہ شروع ہوا تو پولیس نے اس مظاہرے پر لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ جالب صاحب کو بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے کے حوالے سے جالب صاحب نے ایک نظم لکھی جو مزاحمت کے راستے کی صعوبتوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کا مطلع ملاحظہ کریں:
بڑے بنے تھے جالب صاحب پِٹے سڑک کے بیچ
گولی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ
اب حبیب جالب کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا تھا۔ پولیس ان کی گرفتاری کے لیے جگہ جگہ چھاپے مار رہی تھی۔ پھر ایک دن پولیس جالب کی تلاش میں عاصمہ جہانگیر کے والد ملک جیلانی صاحب کے گھر پہنچ گئی۔ انہیں خبر ملی تھی کہ جالب یہاں موجود ہیں۔ پولیس کو صدر دروازے پر روکنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ زبردستی گھرمیں داخل ہوگئی۔ جالب صاحب اس روز جیلانی صاحب کے گھر میں ہی تھے لیکن وہ جیل سے باہر رہ کر عملی جدوجہد کرنا چاہتے تھے۔ پولیس اب گھر میں داخل ہوچکی تھی۔ انہوں نے سب کمروں کو الٹ پلٹ دیا تھا۔ وہاں ان کا مطلوبہ ملزم نہیں تھا۔ اچانک ان میں سے ایک نے درشت لہجے میں پوچھا گھر کے سرونٹ کوارٹر کس طرف ہیں؟ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved