تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     12-05-2021

شاندار کارکردگی

وزیر اعظم نے بجا فرمایا ہے کہ بیرون ملک پاکستانی ہمارے سفارت خانوں کی توجہ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ پچھلے سال یعنی 2020ء میں پاکستان کو تمام دنیا سے بھیجی گئی ترسیلات زر تقریباً 24 ارب ڈالر تھیں، جن میں سے 16 ارب ڈالر خلیجی ممالک سے آئے تھے۔ سعودی عرب میں پاکستانیوں کی تعداد بیس لاکھ سے متجاوز ہے جبکہ عرب امارات میں یہ تعداد پندرہ لاکھ کے قریب ہے۔ ہماری فارن کرنسی کی ٹوٹل ترسیلات میں نصف حصہ ان دو ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کا ہے۔
پاکستان کے بیرون ملک 85 سفارت خانے ہیں۔ ان میں سے دو کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ میری تقریباً آدھی سروس مڈل ایسٹ کی ہے، قاہرہ میں ایک سال عربی سیکھی اور پھر شام، اردن، سعودی عرب اور سلطنتِ عمان میں کئی سال گزارے۔ ان تمام ممالک میں سے سب سے لمبا عرصہ یعنی ساڑھے سات سال سعودی عرب میں گزرے۔ وہاں متعین سفرا کی یہ خواہش رہی کہ میری پوسٹنگ سعودی عرب میں ہی رہے اور بڑی وجہ میری عربی دانی تھی‘ تو اپنے تجربے کی بنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ مڈل ایسٹ میں سفیر وہ کامیاب رہتے ہیں جو وہاں کی ثقافتی روایات کو جانتے ہوں۔ زبان شناس ہوں اور ورکنگ ماحول سے واقف ہوں۔ جنرل ضیاالحق کہا کرتے تھے کہ سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانہ میرے لیے دنیا میں سب سے اہم ہے۔ ہماری روایت رہی ہے کہ جب بھی کوئی کیریئر ڈپلومیٹ سعودی عرب بطور سفیر جاتا ہے تو وہ عمومی طور پر منجھا ہوا اور تجربہ کار ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1997ء میں جب جناب خالد محمود ریاض میں سفیر تعینات ہوئے تو وہ عراق، چین اور ایران میں سفیر رہ چکے تھے۔ جنوری 2019ء میں جب راجہ علی اعجاز کا ریاض میں بطور سفیر تقرر ہوا تو مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ اس سے پہلے وہ کہیں سفیر نہیں رہے تھے۔
میں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ ہماری فارن سروس ایک قابل ستائش ادارہ ہے۔ غالباً 1982 کی بات ہے جنرل ضیاالحق نے نیشنل ڈیفنس کالج راولپنڈی میں شرکا سے خطاب کیا اور واشگاف لفظوں میں کہا کہ پہلے میرا خیال کچھ اور تھا لیکن اب مجھے یقین ہے کہ ہماری فرسٹ ڈیفنس لائن دراصل فارن سروس ہے کیونکہ اس سروس کے افسروں نے افغانستان کے بارے میں پوری دنیا سے سیاسی سپورٹ حاصل کی ہے۔
آپ کو یہ پڑھ کر خوش گوار حیرت ہو گی کہ چند انڈین سفارت کاروں نے بھی پاکستانی سفارت کاروں کی ماضی میں کھلے دل سے تعریف کی ہے۔ مانی شنکر ایار انڈیا کے مشہور ڈپلومیٹ ہیں‘ کراچی میں انڈیا کے قونصل جنرل بھی رہے، لمبے سفارتی کیریئر کے بعد انڈین پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہے، کانگریس پارٹی سے منسلک ہیں۔ مانی شنکر نے اپنی کتاب Pakistan Papers میں کئی پاکستانی سفارت کاروں کی خوب تعریف کی ہے۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار بھارت کے مشہور سفارت کار شیام سرن اکثر کیا کرتے تھے۔ جب میں برما میں سفیر تھا تو شیام سرن بھی وہاں تعینات تھے۔
فارن سیکرٹری سفارتی سروس کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے۔ میں نے خود آغا شاہی مرحوم سے لیکر موجودہ فارن سیکرٹری سہیل محمود صاحب تک سب کو دن رات کام میں ایک کرتے دیکھا ہے۔ آغا شاہی صاحب کے مشوروں پر عمل کیا جاتا تو شاید افغانستان میں ہمیں وہ مسئلے درپیش نہ ہوتے جو آج ہیں۔ پاکستان سفارت کاروں میاں قدرالدین، سر بلند خان، شفقت کاکا خیل، ملک اظہر الٰہی، قاضی شوکت فرید، مسز کہکشاں اظہر کے علاوہ کئی پاکستانی سفارت کار اقوام متحدہ کو اتنے پسند آئے کہ وہ وہاں جا کر پھر واپس نہیں آئے۔ ہمارے سابق سفارت کار نجم الدین شیخ، اشرف جہانگیر قاضی، ظفر ہلالی، ریاض کھوکھر، شاہد ملک، جاوید حسین، شمشاد احمد خان، عالم بروہی، آصف ایزدی، آصف درانی، نجم الثاقب اور عاقل ندیم اخباروں میں لکھتے ہیں یا ٹی وی چینلز پر بین الاقوامی امور پر اپنا تبصرہ دیتے ہیں تو انہیں غور سے پڑھا بھی جاتا ہے اور توجہ سے سنا بھی جاتا ہے۔ آج کل انڈیا کے بارے میں سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کی کتاب بڑی مقبول ہے۔ اسی طرح سابق سفیر جناب کرامت اللہ غوری کی روزگارِ سفیر اور بارِ آشنائی شوق سے پڑھی گئیں۔ اس کے علاوہ نذر عباس مرحوم، سید ابرار حسین اور عارف کمال جید کتابیں لکھ چکے ہیں۔ افغانستان کے بارے میں سابق فارن سیکرٹری ریاض محمد خان کی کتاب معتبر سند ہے۔
اور اب آتے ہیں موجودہ سفارت کاروں کی جانب۔ ذوالقرنین چھینہ نے اقوام متحدہ میں کشمیر سے متعلق انڈین مظالم کا بڑے سلیقے سے پردہ چاک کیا تھا۔ ان کی تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی اور پچھلے ایک سال سے دبئی میں ہمارے قونصل جنرل احمد امجد علی کی شاندار کارکردگی کو خوب سراہا جا رہا ہے۔ ہمارے اس سفارت کار کی شاندار پرفارمنس کو انڈین بھی رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پچھلے سال جب کورونا کی وبا پھیلی تو لاکھوں پاکستانی، انڈین اور بنگلہ دیشی ورکر خلیجی ممالک میں اپنے جابز کھو بیٹھے۔ جب تنخواہیں ملنا بند ہوئیں تو ہزاروں پاکستانی ورکرز کے مالی حالات بھی دگرگوں ہو گئے۔ ہمارے قونصل جنرل نے جس طرح دن رات ایک کر کے پاکستانیوں کی مدد کی وہ قابل فخر ہے۔ پچھلے سال کورونا کی وجہ سے پروازیں بہت کم ہو گئیں۔ ہزاروں غصے میں بھرے پاکستانی قونصل جنرل کے آفس کے باہر جمع ہونے لگے۔ احمد امجد علی نے عمارت سے باہر آ کر کئی مرتبہ مجمعے سے خطاب کیا اور بڑے تحمل اور سلیقے سے سمجھایا کہ راشن اور رہائش کے سلسلے میں تمام مستحق پاکستانیوں کی مدد کی جائے گی‘ پاکستان واپس بھیجنے کا بندوبست بھی ہو گا۔ احمد امجد علی کی ایک تقریر یو ٹیوب پر موجود ہے۔ اس سفارت کار نے کمال فراست اور بردباری سے پاکستانیوں کو حوصلہ دیا، ان کی ڈھارس بندھائی۔
دبئی میں پچھلے سال چار ماہ میں سوا لاکھ پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے رجسٹریشن کی گئی۔ ان میں سے نصف یعنی 62,751 کو قونصل خانہ نے خود پاکستان بھجوایا۔ سات سو اسی پاکستانی قیدیوں کو جیلوں سے رہائی دلوائی گئی۔ انیس ہزار پاکستانی فیملیز کو راشن دیا گیا۔ 700 انتہائی غریب ہم وطنوں کی مالی امداد کی گئی۔ سات سو پچاس مستحق طالب علموں کی فیس دی گئی۔ کمیونٹی کو ساتھ ملا کر 28 کروڑ روپے کے ہوائی جہاز کے ٹکٹ مستحقین کو دیئے گئے۔ دبئی میں ہماری سابق سفیر مسز رعنا رحیم رہائش پذیر ہیں۔ وہ بھی فلاحی کاموں میں پیش پیش رہیں حالانکہ ان کا قطعاً فرض نہیں بنتا تھا۔ جب یہ سارا کام دبئی میں پاکستان کے سفارت کار کر رہے تھے تو انڈین کمیونٹی کا حال خاصا غیر منظم تھا۔ ورکرز کی حالت تو بہت پتلی تھی اور وہ پاکستانی قونصلیٹ کی مثالیں دیتے تھے۔
یورپ میں دو افسروں نے پچھلے ایک سال میں شاندار کام کیا ہے۔ بارسلونا سپین میں قونصل جنرل عمران علی نے دن رات ایک کر دیا۔ خود کورونا کا شکار ہوئے مگر ہمت نہیں ہاری، عمران علی اور ان کے افسر ہمہ وقت پاکستانیوں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ تمام پاکستانی کسی بھی وقت فون پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ میلان اٹلی میں قونصل جنرل منظور چودھری کی کارکردگی قابل ستائش ہے۔ اٹالین حکومت اور پاکستانیوں سے ان کے روابط اور ہمہ وقت تعاون قابل تقلید ہیں۔ لاس اینجلس امریکہ میں ڈپٹی قونصل جنرل شعیب سرور کا کام بہت نمایاں ہے، وہ ہر وقت پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ احمد امجد علی دبئی میں شاندار خدمات کے بعد جلد سفیر بن رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved