مہنگائی کی طرح حکمرانوں کی بے حسی بھی ریکارڈ توڑ گئی: شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مہنگائی کی طرح حکمرانوں کی بے حسی بھی تمام ریکارڈ توڑ گئی‘‘ جبکہ مجھے باہر بھجوانے کے معاملے پر ان کی حِس خاصی بلکہ ضرورت سے زیادہ تیز ہو گئی ہے جبکہ میں بھائی صاحب کی وطن واپسی کا ضامن تھا اور انہیں واپس لانے کے لیے ہی میں جا رہا تھا، اور اسی طرح اگر میں بھی واپس نہ آتا تو مجھے لانے کے لیے مریم بی بی کو وہاں جانا پڑتا جبکہ مجھے یقین ہے کہ اس کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جاتیں اور ہمیں واپس لانے کا سارا بوجھ حمزہ شہباز کے ناتواں کندھوں پر جا پڑتا اور اس طرح حکومت ہماری واپسی کے سارے راستے خود ہی بند کر دیتی۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی ٹکٹ ہولڈرز سے خطاب کر رہے تھے۔
سندھ لوٹا جا رہا، بلاول چین کی بانسری بجا رہا ہے: فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''سندھ لوٹا جا رہا، بلاول چین کی بانسری بجا رہا ہے‘‘ اگرچہ ملک کے باقی حصوں میں بھی لوٹ مار کا بازار گرم ہے لیکن ہم کم از کم چین کی بانسری نہیں بجا رہے بلکہ بے چینی سے کروٹیں بدل رہے ہیں جبکہ لوٹنا اور چین کی بانسری بجانا دو علیحدہ علیحدہ کام ہیں اور ایک وقت میں ایک ہی کام کیا جا سکتا ہے اور اوور ورک کی وجہ سے آدمی کی صحت پر بھی بُرا اثر پڑ سکتا ہے جبکہ سیاستدانوں کو ملکی صحت کے ساتھ ساتھ اپنی صحت پر بھی اتنی ہی توجہ دینی چاہیے جبکہ سیانوں نے کہہ رکھا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
وزیراعظم پوری دنیا میں کشکول اٹھائے گھوم رہے ہیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم پوری دنیا میں کشکول اٹھائے گھوم رہے ہیں‘‘ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر سعودی عرب مدد نہ کرتا تو ملک دیوالیہ ہو جاتا حالانکہ دیوالیہ ہونے میں اس طور زیادہ فائدہ تھا کہ اس صورت میں سارے قرضے ختم ہو جاتے اور دنیا بھر کے ملک انسانی ہمدردی کی بنا پر زیادہ مدد اور تعاون سے کام لیتے، اوپر سے وہ سعودی عرب میں پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا بھی وعدہ لے آئے ہیں جو سراسر زیادتی اور جرائم کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے جبکہ یہاں منی لانڈرنگ جیسے معمولی جرائم پر شریف آدمیوں کو اندر کیا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔
بلاول کی کامیاب دورۂ سعودی عرب پر تنقید
سمجھ سے بالاتر ہے: فیاض الحسن چوہان
وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''بلاول کی کامیاب دورۂ سعودی عرب پر تنقید سمجھ سے بالاتر ہے‘‘ اگرچہ اور بھی کئی چیزیں ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں جن میں پی ڈی ایم کی ناکامی سرفہرست ہے، کیونکہ کمزور حکومت کو گرانے میں ناکامی سے زیادہ ناقابلِ فہم چیز اور کوئی نہیں ہو سکتی اس لیے اگر کامیابی مطلوب ہے تو انہیں اپنی حکمت عملی پر غور کر کے کوئی مؤثر لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے کیونکہ حکومت اِدھر گرنے کو تیار ہوتی ہے اور اُدھر کوئی نہ کوئی جماعت اس سے الگ ہو جاتی ہے اور اس میں باقاعدہ پھوٹ پڑ جاتی ہے اور حکومت کے دم میں دم آ جاتا ہے اور وہ مطمئن ہو کر اپنا وہی کام شروع کر دیتی ہے جس کا سر پیر خود اس کی بھی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمر ِ رواں
یہ ہمارے دیرینہ کرم فرما ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی سوانح حیات ہے اور اتنی ہی دلچسپ اور قابلِ مطالعہ ہے جتنی کہ ایک سوانح عمری ہو سکتی ہے۔ انتساب سید مودودیؒ، ابا جی مولانا گلزار احمد مظاہریؒ، اماں جی مرحومہ اور تمام موجود و مرحوم عزیز و اقارب، احباب اور رفقا کے نام ہے۔ خیر مقدم کے عنوان سے دیباچہ سینیٹر سراج الحق نے تحریر کیا ہے جبکہ بیرونِ سرورق سینیٹر سراج الحق، حافظ محمد ادریس اور ناشر علامہ عبدالستار عاصم کی توصیفی آراء درج ہیں جبکہ اندرون سرورق امیر العظیم قیم جماعت اسلامی پاکستان کی رائے درج ہے۔ سرورق مصنف کی تصویر سے مزین ہے۔ اس کتاب میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ایک عمدہ خود نوشت میں ہونا چاہیے۔ زبان سلیس اور رواں ہے۔ موصوف کے ساتھ قاضی حسین احمد مرحوم کے زمانے میں چند ملاقاتیں رہیں، وہ مجھ پر خصوصی شفقت فرماتے تھے جسے میں اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا ہوں۔
اور‘ اب آخر میں فیصل ہاشمی کے مجموعۂ کلام ''ماخذ‘‘ میں سے یہ نظم:
راتوں کی دلدل سے نکل کر
راتوں کی دلدل سے نکل کر/ نا موجود زمانے کی/ بوجھل تشنگیوں کی بابت/ آوازوں کا شور سمندر/ چاروں جانب پھیل گیا ہے/ جس کی تہ میں/ اندیشوں میں جکڑی ہوئی/ لاکھوں، کروڑوں زندگیوں کے/ گمنامی میں دھڑکتے دل ہیں/ جن کی بقا کی فکر میں/ جگمگ کرتی روشنیوں کے/ پار پرے سے/ مٹی کا بے روح بدن اور بے ہمت/ امیدیں لے کر/ سانسیں پھونک رہا ہے کوئی/ کیسا عجب وہ کایا پلٹ ہے/ جس نے ابد کی شب تک خود کو/ زندہ رکھنے کی خاطر یہ/ جتن کیا ہے!/ لیکن اس تہ داری میں، اور/ بیداری میں عمروں کی/ جب نیند کا رس گھل جاتا ہے/ پھر پتھریلی تاریکی میں/ اک در کھلتا ہے، خدشوں والا/ جس کے بھیتر سناٹے میں/ آوازوں کا شور سمندر/ جاگی ہوئی سب راتوں کی پاتال/ کے مخفی راز تو کیا/ سب ساتھ بہا کر لے جاتا ہے!
آج کا مقطع
اب تو میں خود بھی تیار ہوں جانے کو‘ ظفرؔ
آخرِ عمر کا یہ عشق جدھر لے جائے