تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     13-05-2021

بِناں مرشداں راہ نہ ہتھ آوے

محبت کے ہزار رنگ ہیں اور فکرمندی ان رنگوں میں سے ایک رنگ ہے۔ ہماری فکر وہی کرتے ہیں جو ہم سے محبت کرتے ہیں، وگرنہ کسی کو کیا پڑی ہے کہ ہماری فکر میں گھلتا پھرے۔ جب میں پاکستان سے امریکہ روانہ ہونے لگا تو جس دوست نے بھی سنا‘ فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ جانے سے منع کیا اور کہا: یار! وہاں امریکہ میں کورونا کے حالات بہت خراب ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ کورونا کے کیسز امریکہ میں سامنے آرہے ہیں، اور سب سے زیادہ اموات بھی۔ میرے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے ایک دو بہت ہی فرینک دوستوں نے تو یہ تک کہہ دیاکہ پردیس میں جاکر مرنا کوئی مناسب حرکت نہیں۔ ملک خالد نے پہلے پیار سے سمجھایا، پھر کہنے لگا: بھلا یہ مناسب لگے گاکہ بیٹی کے خرچے پر تمہاری میت پاکستان لائی جائے؟ میں نے بھی جواباً ہنس کر کہا کہ میری جیب میں کم از کم اتنے پیسے ضرور ہیں کہ ایک میت کو کارگو کے ذریعے پاکستان لایا جا سکے؛ تاہم سب نے کھلے الفاظ میں یا دبے لفظوں میں سہی، امریکہ جانے سے منع ضرور کیا۔
اب دوسرا معاملہ آن پڑا ہے۔ امریکہ والے دوست کہتے ہیں کہ تم پاکستان ابھی واپس نہ جائو‘ وہاں کورونا کے حالات خراب ہیں بلکہ بہت ہی خراب ہیں‘ اوپر سے کوئی بندہ ایس او پیز کا خیال نہیں رکھ رہا‘ نہ کسی جگہ چھ فٹ کا فاصلہ رکھنے کا کوئی دھیان کر رہا ہے اور نہ فیس ماسک پہننے کا ہی کوئی خاص تکلف کررہا ہے۔ جونہی لاک ڈائون کھلے گا لوگ اس طرح بازاروں میں نکلیں گے جیسے برسوں کی قید تنہائی سے نکلنے والا کوئی شخص کھلی فضا میں گھومنے کیلئے مرا جا رہا ہو۔ سارے لاک ڈائون کے دوران احتیاطی تدابیر کے باعث ہونے والے دس دن کے فوائد ایک دن کے اندر اندر ملیامیٹ ہوجائیں گے، جب تم واپس پہنچوگے تو لاک ڈائون کھلے دو تین روز ہوئے ہوں گے‘ بے احتیاطیاں، لاپروائیاں اور خلاف ورزیاں عروج پر ہوں گی، تم اپنی طرف سے پوری احتیاط کے باوجود اس سارے ہنگامے میں بھلا خاک احتیاط کر سکوگے؟ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ ابھی کچھ روزاور ٹھہر جائو اور حالات ٹھیک ہونے پر واپس جانا۔
لندن سے ملک خالد کا فون آیا تو وہ بھی یہی کہنے لگا کہ تم نے ماننا تو نہیں اور اپنی کرنی ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ ابھی تھوڑے دن اور امریکہ میں ٹھہر جائواور حالات تھوڑے بہتر ہوں تو واپس آئو۔ میں نے ہنس کر کہا: ملک خالد! ایک ماہ پہلے تم مجھے امریکہ آنے سے روک رہے تھے اب واپس پاکستان جانے سے منع کررہے ہو‘ تم تو بالکل بے پیندے کا لوٹا ہو۔ وہ کہنے لگا: جو مرضی کہہ لو، مگر میں پہلے بھی تم کو مناسب مشورہ دے رہا تھا اور اب بھی تمہارے فائدے کی بات کررہا ہوں۔ میں نے کہا: ملک خالد! پاکستان میں جوں جوں دن گزرتے جا رہے ہیں احتیاطی تدابیراور ایس اوپیز کا اتنا ہی زیادہ دھڑن تختہ ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے دل میں کورونا کا جوتھوڑا بہت خوف تھا وہ ہر گزرتے دن کم ہوتا جارہا ہے۔ ہم لوگ ''موت کو ماسی‘‘ کہنے والے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر تم پڑھے لکھے لوگوں کا شماریاتی حساب کتاب پر مشتمل لیکچر سنو توتم کہوگے کہ کورونا ورونا سب کچھ فراڈ ہے‘ اور اگر فراڈ نہیں بھی تو اس کی شرح اموات آج بھی پاکستان میں دل کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر، ہیپاٹائٹس سی، نمونیا اوردیگر کئی امراض کے باعث روزانہ مرنے والوں سے کہیں کم ہے‘ لیکن شور سارا کورونا کا مچا رکھا ہے‘ حتیٰ کہ اگر عمران خان صاحب اس بارے میں دوبارہ تقریر فرمائیں اور پہلے کی مانند اگر پاکستان میں کورونا کی روک تھام میں اپنی کامیابیوں اور کارکردگی کا ذکرکریں تووہ آپ کو بتائیں گے کہ اب بھی پاکستان میں کورونا کے باعث مرنے والوں کی تعداد ایک سو دس پندرہ کے درمیان ہے حالانکہ امریکہ میں مرنے والوں کی تعداد کو سامنے رکھیں تو پاکستان میں روزانہ مرنے والوں کی تعداد چار سو تینتیس ہونی چاہیے تھی۔ اس حساب سے دیکھیں تو پاکستان میں حالات امریکہ سے اب بھی بہتر ہیں۔ ویسے بھی آخر امریکہ میں کب تک رہا جا سکتا ہے۔ آخر کو ملتان ملتان ہے اور اب دل اپنے شہر ناپرساں یعنی ملتان کیلئے اوب گیا ہے۔
ملتان والے دوستوں نے پوچھاکہ موسم کیسا ہے؟ میں نے بتایا کہ کل سے بارش ہورہی ہے۔ لِونگ روم میں ہیٹر چلا رکھا ہے اور باہر جاتے ہوئے جیکٹ پہننا پڑتی ہے۔ یہاں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت، آج سولہ ڈگری سینٹی گریڈ اورکم سے کم دو ڈگری ہوگا۔ دو دن قبل زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت تیرہ اور کم سے کم صفر درجہ سینٹی گریڈ تھا۔ شوکت یہ درجہ حرارت سن کر کہنے لگا: بھائی جان! میرا مشورہ امریکہ پڑے رہو‘ یہاں خاصی گرمی ہوگئی ہے۔ میں نے کہا یہ گرمی ملتان میں تو ستمبر کے آخر تک چلے گی تو تمہارا خیال ہے کہ میں یہاں اگلے چار ماہ پڑا رہوں؟ وہ ہنس کر کہنے لگا:، کیا حرج ہے؟ آپ اس دوران یہاں اپنی پسندیدہ کافی ''ٹِم ہارٹنز‘‘ میں کام شروع کر دیں‘ پیسے بھی ملیں گے اور کافی پینے کا ٹھرک بھی مفت میں پورا ہو جائے گا۔ پھر ہنس کر کہنے لگا: میں مذاق کر رہا تھا‘ آپ جلدی آ جائیں، دل آپ کے بغیر اداس ہے۔ میں نے کہا: بس دس بارہ روز کی بات ہے پھر میں ہوں گا، آپ لوگ ہوں گے اور ملتان ہوگا۔
ملتان بیٹے سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگا: آپ کو پاکستان واپس آکر کبھی بھی موسم کی شکایت کرتے نہیں سنا حالانکہ آپ کو گرمی بہت لگتی ہے اور آپ کا حال بھی گرمی میں بہت خراب رہتا ہے۔ میں نے کہا: میں یہ بات تمہیں شاید سمجھا نہ پائوں، مگر ادھر کی گرمی مجھے یہاں کے موسم سے سوگنا زیادہ قابل قبول ہے۔ وہ پوچھنے لگا: کوئی ایسی چیزہے جسے آپ پاکستان آکر مس کرتے ہوں؟ پھر خود ہی کہنے لگا: سیفان، ضوریز اور کومل باجی کو چھوڑ کر پوچھ رہا ہوں۔ میں نے کہا: ہاں! یہاں کی ایک چیز میں بہت مس کرتا ہوں اور وہ ہے سبزہ۔ یہاں کسی نے ''بلین ٹری‘‘ منصوبہ نہیں بنایا ہوگا، لیکن درختوں کا کوئی شمار قطار نہیں۔ تقریباً ہرخالی جگہ پر درخت ہیں۔ ایسے گھنے اور تیرکی طرح سیدھے کہ دیکھ کردل خوش ہوجاتا ہے۔ بعض جگہوں پرتو گمان ہوتا ہے کہ شاید ہم کسی Rainforest میں پھر رہے ہیں۔ میں اور برادر بزرگ اعجاز احمد کارلٹن (جارجیا) سے چروکی (نارتھ کیرولائنا) اور وہاں سے گیٹلنبرگ (ٹینیسی) بذریعہ سڑک گئے تو زمین سبزے اور درختوں سے بھری پڑی تھی۔ دو پرتوں کی اونچائی والے درخت، بعض جگہوں پر رین فاریسٹ کی مانند تین پر تیں، بہار پورے زوروں پرتھی اور سبزہ بھی بقول منیر نیازی ''سبزہ نو رستہ‘‘ تھا
سبزہ نو رستہ کی خوشبو تھی ساحل پر منیرؔ
بادلوں کا رنگ چھتری کی طرح سر پر کھلا
امریکہ، یورپ اور برطانیہ وغیرہ کو دیکھنے سے پہلے گمان تھاکہ ان علاقوں میں بھلا ہمارے جیسا سبزہ کہاں ہوگا؟ لیکن دیکھ کر اندازہ ہواکہ بے شک موسم کا بھی اس میں بہت ہاتھ ہے، لیکن روئیدگی کی قدرتی مدد کے علاوہ یہاں درختوں کو لگانے اور اس کی حفاظت نے سارا ماحول انسان دوست بنا دیا ہے۔ ادھر ہمارے ہاں درختوں کے بارے کسی قسم کے علم سے ناآشنا بیوروکریٹس نے اسلام آباد میں کھجور کے درختوں سے خود توکروڑوں کما لیے مگر ایک درخت بھی نہیں چلا۔ موٹروے کے کنارے سفیدے کے بے کار اور ماحول دشمن درخت لگا کرالٹا کام خراب کر دیا۔ دنیا میں لوگ اربن جنگل یعنی Miyawaki Jungle کی ٹیکنالوجی استعمال کر کے دس سال میں سو سال جیسے جنگل کا ماحول حاصل کررہے ہیں‘ مگر ہمارے ہاں کتنے لوگوں نے اس تکنیک کا نام سنا ہے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے فیصلے بھی ہارٹی کلچر کے ماہرین نہیں بلکہ بزعم خود ہر فن مولا ہماری بیوروکریسی کرتی ہے جسے یہ علم نہیں کہ بیر کا سر کس طرف ہوتا ہے؟
بِناں مرشداں راہ نہ ہتھ آوے ؍ دودھاں باجھ نہ رِجھدی کھیر میاں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved