تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     13-05-2021

ملک کا سیاسی منظرنامہ

معزز عدالت نے شمعونہ قیصرانی سابق ممبر صوبائی اسمبلی حلقہ 240 کی نااہلیت کے فیصلہ پر آئین کے آرٹیکل 62 (1) ایف پر فیصلہ دیا تھا کہ کاغذاتِ نامزدگی میں حقائق کو پوشیدہ رکھنے کے بارے میں کئی زاویے دیکھنا ہوتے ہیں۔ فیصلے میں قرار دیا گیا کہ امیدوار کی جانب سے پیش کی گئی وضاحت فیصلہ کن عنصر ہے کہ آیا کسی اثاثے کا انکشاف نہ کرنا مستقل نااہلی کے لیے کافی ہے یا نہیں اور یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ عدم انکشاف میں بے ایمانی کا عنصر شامل ہے یا نہیں۔ جناب جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی جانب سے دیے گئے فیصلے میں قرار دیا گیا کہ یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ کاغذاتِ نامزدگی کے فارم میں حقائق پوشیدہ رکھنے کی بنا پر یا غلط ڈیکلریشن قانون ساز یا انتخابی امیدوار کو مستقل طور پر نااہل کرنے کے لیے کافی نہیں ہو گا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ کاغذاتِ نامزدگی میں حقائق پوشیدہ یا غلط ڈیکلریشن کے پیچھے مقصد اور ارادے کو دیکھنا ضروری ہے اور یہ کہ منتخب امیدوار تب ہی نااہل ہو گا جب اس نے بے ایمانی سے اثاثے حاصل کیے ہوں یا اور کچھ فوائد حاصل کرنے کے لیے انہیں پوشیدہ رکھا ہو۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر حقائق پوشیدہ رکھنے یا غلط ڈیکلریشن ایسی بات سامنے آتی ہے اور اس سے کسی امیدوار کو غیر قانونی فائدہ ہوتا ہے تو پھر اس کی بطور امیدوار اہلیت ختم ہو جائے گی۔
اس فیصلے کی روشنی میں نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تا حیات نااہلی کے فیصلوں پر نظر ثانی کے لیے عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ از خود نوٹس لے سکتا ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 62(1) ایف کی تشریح کرنے کے کئی زاویے ہیں جس کی طرف فیصلے میں ذکر کیا گیا ہے۔ نواز شریف کے وکلا آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اسی فیصلہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکیں گے اور اسی نوعیت کی اپیل جہانگیر ترین بھی دائر کر سکتے ہیں۔ نواز شریف چونکہ مجرم اور مفرور قرار دیے جا چکے ہیں‘ ممکن ہے حقائق چھپانے میں ان کی بد نیتی شامل ہو‘ تاہم جہانگیر ترین کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ بقول جہانگیر ترین انہوں نے سٹیٹ بینک کی وساطت سے رقوم لندن بھجوائی تھیں اور محض کاغذات نامزدگی میں نا دانستہ طور پر حقائق لکھے جانے سے رہ گئے تھے۔ نواز شریف کی نااہلیت کے ساتھ ساتھ انہیں آئین کے آرٹیکل 63 (1) ایچ کے تحت بھی سزا سنائی جا چکی ہے۔ آئینی ماہرین نے کبھی اس قانونی سقم کی طرف توجہ نہیں دی کہ آئین کے آرٹیکل 63 (1) میں درج ہے کہ کسی رکنِ اسمبلی کی نااہلیت کا معاملہ اس شق کے تحت سپیکر یا چیئرمین سینیٹ کو ریفرنس کی صورت میں بھجوایا جاتا ہے اور سپیکر یا چیئرمین سینیٹ کے صوابدیدی اختیارات کے تحت ہی معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوایا جاتا ہے یا سپیکر یا چیئرمین سینیٹ اپنے چیمبر میں ایسے ریفرنس کو خارج کر سکتے ہیں اور آئین کے مطابق سپیکر یا چیئرمین سینیٹ کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
شمعونہ قیصرانی کے فیصلے پر ریمارکس نے نااہلیت کی تشریح کے لئے دروازے کھول دیے ہیں۔ میری رائے میں کسی امیدوار کے کاغذاتِ نامزدگی کی منظوری‘ منتخب ہونے اور حلف اٹھانے کے مراحل کے بعد اس کی نااہلیت کا کیس اٹھانا آئین کے آرٹیکل 225 کے برعکس ہے۔ اسی طرح میری رائے میں 2015ء میں الیکشن میں دھاندلیوں کے بارے میں جوڈیشل کمیشن کی کارروائی بھی آئین کے آرٹیکل 225 کے خلاف تھی۔ ملک کے ممتاز آئینی ماہرین نے الیکشن کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کو چیلنج نہیں کیا تھا اور اس سلسلے میں ملک کے ممتاز آئینی ماہر غلام محی الدین نے اعلیٰ عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنے موقف کو جامع انداز میں پیش کرنے کے لئے ریفرنس بھی تیار کر لیا تھا لیکن اس وقت زمینی حقائق ایسے تھے کہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔
اب کچھ بات الیکشن کی ہو جائے۔ کراچی کے ضمنی انتخاب میں کم ٹرن آئوٹ سے عوام کا انتخابی عمل سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے جو تشویش ناک ہے۔ جس طرح انتخابی نتائج کو مسترد کیا جا رہا ہے وہ بھی قابلِ غور معاملہ ہے۔ ڈسکہ میں تو پراسرار طور پر غائب ہونے والے پریذائیڈنگ افسران نے گہری دھند کا بہانہ بنایا تھا‘ مگر کراچی شہر اور بلدیہ ٹاؤن کے حلقے میں نتائج گیارہ گھنٹے کے بعد آنا اور فارم 45 پر پریذائیڈنگ افسران کا دستخط نہ کرنا باعثِ تشویش ہے۔ حلقہ 249 کے پریذائیڈنگ افسران محکمہ تعلیم کے ملازم تھے اور سندھ حکومت نے ممکن ہے ان پر بالواسطہ دباؤ ڈالا ہو تاکہ من پسند نتائج حاصل کئے جا سکیں۔ حلقہ 249 میں الیکشن کمیشن کے حکم کے تحت الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 95 کے تحت ووٹوں کی از سرِ نو گنتی کروائی گئی جس پر مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف‘ متحدہ قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی نے بلا وجہ بائیکاٹ کیا‘ جو نا مناسب تھا۔ الیکشن کمیشن دوبارہ گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد حتمی نتیجہ جاری کرنے کا مجاز ہے‘ اس کے باوجود اگر کسی جماعت کا اعتراض برقرار رہتا ہے تو پھر الیکشن کمیشن متنازع امور کے حل کے لئے معاملہ الیکشن ٹربیونل میں ریفر کرنے کا قانونی اختیار رکھتا ہے۔ الیکشن کمیشن آرڈر جاری کر دے گا کہ متاثرہ فریق الیکشن ٹربیونل سے رجوع کریں جو اپنے اختیار کے تحت مکمل تحقیقات کرانے کا قانونی حق رکھتا ہے۔ اس صورت میں تحقیقات کا عمل تیز کرنا ہو گا کیونکہ سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ ہونے میں اگر دو سال لگ گئے تو اتنے عرصے میں عام انتخابات کا شیڈول جاری ہو جائے گا۔
الیکشن کی بات ہوئی ہے تو اسی حوالے سے الیکٹرانک مشینوں کے استعمال کی باتیں بھی سننے میں آ رہی ہیں۔ صدر مملکت اور وزیراعظم الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کیلئے پُرعزم ہیں مگر یہ پہلو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہئے کہ ہمارے ملک میں شرح خواندگی کم ہے‘ بالخصوص دیہی علاقوں میں اس کا استعمال قابلِ عمل نظر نہیں آتا کیونکہ دور افتادہ علاقوں میں بجلی کے تسلسل میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ شہری علاقوں میں ہی اس سسٹم کو اپنایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں سافٹ ویئر کی رازداری اور شفافیت کے بارے میں سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن 2018ء میں ایک سیاسی جماعت نے پرائیویٹ طور پر انتخابی فہرستوں سے ڈیٹا حاصل کر کے اس کو سافٹ ویئر میں منتقل کر دیاتھا اور ان کے نمائندے ہر پولنگ سٹیشن پر موجود تھے جو ووٹر کی شناخت اپنے پرائیویٹ سافٹ ویئر کے ذریعے کرتے تھے۔ اس عمل میں شفافیت کا عنصر شامل تھا‘ لیکن پرائیویٹ طور پر حساس ڈیٹا تک رسائی ہونا باعثِ تشویش ہے۔ اس پارٹی کو سافٹ ویئر اور کمپیوٹر سسٹم پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ میرے خیال میں اگر پارلیمانی کمیٹی الیکشن 2018ء کی جانچ پڑتال میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ نہ کرتی تو آر ٹی ایس کے فلاپ ہونے کا سبب بھی سامنے آ سکتا تھا۔
ملک میں سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ نواز شریف اور ان کے ہم نوا جس نہج پر جا رہے ہیں اس سے مقتدر حلقے باخبر ہیں‘ اس کے باوجود اقتدار کی راہداریوں میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ کچھ قوتوں کی نظر میں نواز شریف اینٹی سٹیٹ نہیں ہیں وہ دراصل فیصلوں کے ناقد ہیں۔ دوسری جانب شہباز شریف لندن جانے کے لیے پَر تول رہے ہیں اور مقتدر حلقے اگرچہ حکومت کے خلاف نہیں ہیں لیکن اگر حکومت مخالف کوئی تحریک چل پڑتی ہے تو اس کو بچانے کی پالیسی سے گریز کریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے خاص حکمت عملی کے تحت اب بیوروکریسی کے خلاف مہم چلا کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی راہ نکالی ہے۔ اگر حکومت بجٹ منظور کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر الیکشن اکتوبر 2023ء میں ہی ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved