تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     13-05-2021

عید مبارک !

عید آئی تم نہ آئے کیا مزہ ہے عید کا
عید ہی تو نام ہے اک دوسرے کی دید کا
دو سال پہلے تک عید کے حوالے سے ایسے شعر اور باتیں دیوانے کا خواب لگتی تھیں۔ دل مانتا تھا نہ دماغ‘ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ عید آئے اور دبے پاؤں گزر جائے۔ کوئی آپ سے ملنے آئے اور نہ آپ کسی کے گھر جائیں۔ کوئی دل جلا اگر ایسی بے پَر کی چھوڑتا بھی تھا تو کتنا معیوب لگتا تھا، مگر اب... اب تو میل ملاقات کسی اور زمانے کی داستان لگتی ہے۔ عید ہو یا شبِ برات، خوشی ہو یا غمی، لوگ ایک دوسرے سے ملنے سے کتراتے ہیں۔ کیا کریں اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ کورونا وائرس نے صرف انسان کو انسان سے دور نہیں کیا بلکہ روایات کو بھی خزاں رسیدہ کر دیا ہے۔ ساری رسمیں خوشی کے آنگن میں کھڑے پیڑوں سے جھڑ کر زمیں بوس ہو چکی ہیں۔ کون جانے زخموں سے چور کرنے والا یہ قاتل موسم کب تمام ہو اور کب عید‘ عید لگے اورکب شبِ برأت شبِ برأت محسوس ہو۔
کورونا وائرس کے نشتر اپنی جگہ مگر ایک سوال بار بار ذہن میں ابھر رہا ہے‘ کیا صرف کورونا ہی عید کی خوشیوں کو کھا گیا یا پھر ہم پہلے ہی عید کو ماضی کے قصے کہانیوں میں رکھ کر بھول چکے تھے؟ میرا جذباتی تاثر یہ ہے کہ کورونا تو ایک بہانہ ہے‘ ہم پہلے ہی عید کے رنگوں پر حسبِ ضرورت سیاہی چھڑک چکے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب وہ عید کہاں جس سے گزری صدیوں کا انسان لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ جلال الدین اکبر عید کے روز آگرہ کی گلیوں اور بازاروں میں نکلتا تو لوگ موسیقی سے اس کا استقبال کرتے۔ تان سین نے مذہبی اور ثقافتی تہواروں کے لیے دھنیں تیار کر رکھی تھیں جنہیں اکبر بڑے چاؤ سے سنا کرتا تھا۔ ایک دھن عید کی بھی تھی، عید آتی تو سارا آگرہ اور فتح پور سیکری جھوم اٹھتا تھا۔ غالبؔ ویسے تو ہر طرح کی سماجی اور مذہبی بندشوں سے آزاد تھے مگر عید والے دن نیا جوڑ ا ضرور زیبِ تن کرتے۔ ان کی بیگم صاحبہ اس سوٹ کا اہتمام یاد سے کرتیں۔ ایک دفعہ گلی کے بچوں کو عید دے کر بولے: جاؤ اور آم خرید کر کھاؤ۔ کچھ اور کھایا تو اگلی بار عیدی نہیں دوں گا۔ گرمیوں میں عید آتی تو غالب دن میں تین‘ چار بار صرف آم کھاتے، کیونکہ ان کی بیگم صاحبہ عید والے دن کسی اور شے سے راحت قلب پہنچانے کی سخت مخالف تھیں۔ علامہ اقبال بھی عید کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ نماز کے بعد دوستوں اور فیملی کے ہو رہتے۔ کھانا شوق سے بنواتے اور خاص دوستوں کی محفل کرتے۔ ایک بار انہیں عید کے دنوں میں کسی ضروری کام سے شہر سے باہر جانا پڑ گیا تو بہت بوجھل دل کے ساتھ گئے۔ رومی من کا غبار لفظوں میں پرونے کے عادی تھے۔ ان کا دل عید کے دنوں میں اداسی کا پھل نہیں چکھتا تھا مگر جب ان کی آنکھیں مرشد شمس تبریز سے لڑ گئیں تو عید ہر بار ان پر کہرام ڈھاتی تھی۔
زروی تست عیدِ آثار مارا
بیا ای عید و عیدی آر مارا
تو جانِ عید و از روی تو جانا
ہزاران عید در اسرار مارا
(تیرے چہرے سے ہم پر عید کے اثرات ہیں۔اے عید، آجا اور ہمارے لیے عید ی لا۔تو عید کی جان ہے اور اے جان تیرے چہرے کی وجہ سے ہزاروں عید ہمارے لیے پوشیدہ ہیں )
میرادل اپنے بچپن کی عید کو یاد کرنے میں محو تھا اور بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ میرا تعلق اسّی کی دہائی کی اُس نسل سے ہے جس نے عید کے دونوں رنگ دیکھے ہیں۔ وہ عید بھی میرے حافظے کا حصہ ہے جس میں ہر سو خوشیاں، محبت اور اپنائیت ہوا کرتی تھی۔ عیدی آج کے دور سے تھوڑی کم ملتی تھی مگر اس میں دینے والے کی چاہت چار گنا زیادہ ہوتی تھی۔ لوگ عیدی دینے کو باعثِ خوشی سمجھتے تھے‘ بوجھ نہیں۔ بچہ اپنا ہوتا یا پرایا‘ عید ی سب کو دی جاتی تھی۔ لوگ عید کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ بچے، بوڑھے اور نوجوان عید کو اپنوں کی دید کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ لڑکیاں رات بھر مہندی لگاتیں اور مائیں صبح کے لیے میٹھا تیار کرتیں۔ کتنا بھلا زمانہ تھا‘ دشمن بھی اگر سامنے سے آ جاتا تو مسکرا کر عید ضرور ملتا۔ کتنی ہی دشمنیاں عید کی وساطت سے گہری دوستیوں میں تبدیل ہو جاتی تھیں مگر اب تو عیدکا چلن ہی بدل گیا ہے۔ گاؤں ہو یا شہر، اب سب کی ایک جیسی عید ہوتی ہے۔ اپنا گھر، اپنے بچے اور اپنی عید۔ ساتھ والے گھر میں کون ہے اور کیسے عید منا رہا ہے‘ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ ہمسائے کو جا کر عید مبارک کہنا تو کجا‘ لوگ نظر بچا کر گزر جاتے ہیں تاکہ عید نہ ملنی پڑ جائے۔ برادری اور قریبی رشتہ داروں کو بھی فون پر ہی عید مبارک کا پیغام بھیج کر مطمئن کردیا جاتا ہے۔ عید کارڈ تقسیم کیے جاتے ہیں نہ مٹھائی بانٹی جاتی ہے۔ دوستوں کی محفلیں ہوتی ہیں نہ عزیز و اقارب کی دعوتیں۔ آج کے ترقی یافتہ زمانے میں دن بھر سونے کا نام عید ہے، رسموں اور روایات کو نہ ماننے کا نام عید ہے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں‘ اب عید ایسی ہی ہے اور کون جانے آگے چل کر اتنا تردد بھی کوئی کرتا ہے یا نہیں۔
عید دنیا کا سب سے قدیم تہوار ہے۔ عید آدم علیہ السلام نے بھی منائی تھی اور آج کا انسان بھی عید سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ عید کسی ایک اُمت، مذہب یا قوم کا خاصہ نہیں ہے بلکہ یہ تو عشق کے تکمیل کی کہانی ہے۔ جس قوم نے بھی عشقِ حقیقی کی چادر اوڑھی، عید اُسے تحفے میں ضرور ملی۔ جس روز حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تھی اسی دن پہلی بار عید منائی گئی تھی۔ جس روز حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آتشِ نمرود گلزار ہوئی تھی‘ اسی دن آپؑ کی قوم عید کا تہوار مناتی تھی۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی‘ وہی دن آپؑ کی قوم کے لیے عید کا دن کہلایا تھا۔ مسلمانوں کو بھی تحفے میں دو عیدیں ملیں۔ چودہ سو سال سے دنیا بھر کے مسلمان اس دن ایک دوسرے سے محبت کا اظہارکرتے ہیں۔ دو مسلمانوں میں قہقہوں اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور گلے ملنے کی رسم پوری کی جاتی ہے۔ قمر بدایونی کا یہ شعر تو ضرب المثل ہی بن گیا۔
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
اس بار کی عید بھی انوکھی ہے۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس نے کہرام مچا رکھا ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے جنگ ہونے والی ہے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے کا ڈائیلاگ یاد آ رہا ہے ''اگر ملک پر جنگ مسلط ہو تو آنسوؤں اور مسکراہٹوں میں فاصلے کم ہو جاتے ہیں مگر یہ فرق صرف اہلِ نظر ہی دیکھ سکتے ہیں‘‘۔ یہ پاکستانی جو آج بھی عید دھوم دھام سے مناتے ہیں‘ وہ عید ضرور منائیں مگر خدارا! یہ مت بھولیں کہ یہ آخری عید ہرگز نہیں ہے۔ زندگی ہے تو عید کی بہاریں آتی رہیں گی اور اگر تھوڑی سی لاپروائی سے کورونا کا شکار ہو گئے تو پھر کیسی عید اور کون سی خوشیاں۔ اب حالات یہ ہیں کہ کورونا وائرس نے آنسوؤں اور مسکراہٹوں میں فاصلے صرف کم نہیں بلکہ ختم کر دیے ہیں۔ ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ آج کے دن دوستوں اور رشتہ داروں کو فون کریں‘ اور قہقہے لگائیں، کوئی دل کے زیادہ قریب ہو تو وڈیو کال کر لیں مگر گھر پر رہیں اور اپنی فیملی کو وقت دیں۔ زندگی نے اپنا پرانا روپ بدل لیا ہے، اب زندگی ایک دوسرے سے دور رہنے سے ہی مسکراتی ہے۔ دور رہیں محفوظ رہیں۔ میر ی طرف سے عید مبارک!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved