تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     13-05-2021

ایم ایل ون منصوبے کا قرض اور سی پیک

میں پچھلے کئی کالموں میں ذکر کرتا آیا ہوں کہ پاکستان میں جس رفتار سے قرض بڑھ رہا ہے‘ آنے والے دن خوشی کی کوئی خبر لاتے دکھائی نہیں دیتے۔ اوّل تو اب ہمیں کوئی قرض دے نہیں رہا ‘اور جن دوست ممالک سے ہمیں سب سے زیادہ امید تھی‘ انہوں نے بھی حساب کتاب رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ چین ایم ایل ون کے لیے چھ ارب ڈالر قرض دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ پہلے یہ پروجیکٹ تقریباً نو ارب ڈالر کا تھا۔ چین نے اسے کم کر کے تقریباً چھ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کر دیا۔ اب اس کے لیے رقم ادائیگی میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔ چین کا موقف ہے کہ پہلے ہی قرضوں کا حجم پارلیمنٹ کی طے کردہ حد سے بڑھ چکا ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کے قرضے کی قسطیں بھی ادا کرنی ہیں۔ اس نے مزید قرض لینے پربھی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے بھی مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے۔ میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ پاکستان نے ورلڈ بینک سے 1500 ملین ڈالرز قرض کی درخواست دے رکھی ہے جو ابھی تک منظور نہیں ہوئی۔ ورلڈ بینک نے دس مئی تک سخت شرائط پوری کرنے کے فیصلے سے متعلق آگاہ کرنے کا کہا تھا جو ابھی تک کی معلومات کے مطابق پوری نہیں کی گئی ہیں۔ یہ قرض بجٹ خسارہ پورا کرنے کی مد میں مانگا گیا تھا۔ اس تمام صورتحال کے پیش نظر چین نے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر جہانزیب خان نے بتایا کہ بیجنگ نے یہ سوال اٹھایا کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے مزید قرض لینے پر اعتراض ہے‘ جس پر انہیں بتایا گیا کہ ملک چلانے کے لیے قرض لینے پر حد مقرر کی گئی ہے لیکن کسی پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے قرض لینے پر آئی ایم ایف کو اعتراض نہیں ہے؛ تاہم ابھی تک یہ دلیل چینیوں کو منانے کے لیے ناکافی رہی ہے۔
ایگزیکٹو کمیٹی آف نیشنل اکنامک کونسل نے پچھلے سال اگست میں ایم ایل ون پروجیکٹ کو تین حصوں میں منظور کیا تھا لیکن بیجنگ نے 30 مارچ کو ہونے والی میٹنگ میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان اور چین کے مابین ہونے والی خط و کتابت سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چین نے جی 20 ممالک کی جانب سے مزید قرض لینے پر لگائی گئی پابندیوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ پاکستان میں قرض‘ شرح نمو کے ستاسی اعشاریہ دو فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ تین سال پہلے ن لیگ کے دورِ حکومت میں یہ شرح بہتر اعشاریہ پانچ فیصد تھی۔ آج ملک کی کُل آمدن کا 60 فیصد سود اور قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان نے جی 20 ممالک سے تین اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کا عارضی قرض ریلیف حاصل کیا ہوا ہے جو جولائی 2020 سے دسمبر 2021 تک ہے۔ چین نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ عارضی ریلیف لینے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی قرض واپس کرنے کی پالیسی مؤثر نہیں ہے اور پاکستان کے معاشی حالات اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ اسے چھوٹے قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے بھی ریلیف مانگنا پڑ رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دسمبر میں ادائیگیوں کا وقت آئے گا تو اس وقت ڈالرز کہاں سے آئیں گے۔ کیا پاکستان برآمدات سے اتنا زرمبادلہ کما لے گا کہ جی 20 ممالک کا قرض اتار سکے یا پھر دوبارہ ایک نیا قرض لینے کی راہ ہموار کی جائے گی؟ اگر نئے قرض لے کر ہی پرانے قرض اتارنے ہیں تو پھر نئے پروجیکٹس لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ ملک تو ان کے بغیر بھی چل رہا ہے۔ اگر فرض کر لیں کہ ایم ایل ون بن بھی جاتی ہے تو تقریباً آٹھ ارب ڈالر کے اس پروجیکٹ سے آمدن کتنی ہو گی؟ کیا یہ اپنی انویسٹمنٹ سے زیادہ ریٹرن حاصل کر پائے گا؟ یا پھر یہ بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے عوام کے کندھوں پر ایک اور بوجھ لادنے کا منصوبہ ہے۔ پاکستانی حکام چین کو یقین دلا رہے ہیں کہ کاغذات کے مطابق‘ پاکستان کے پاس قرض اتارنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ اس کے علاوہ یہ منصوبہ آمدن کے نئے راستے کھولے گا جس سے ریلویز کو فائدہ ہو گا۔
ایم ایل ون کراچی سے پشاور تک 1872 کلو میٹر ریلوے ٹریک کی اَپ گریڈیشن کا منصوبہ ہے۔ یہ سی پیک کے تحت تقریباً سب سے بڑا منصوبہ ہے لیکن مسلسل تین سال سے التوا کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق‘ جس ملک میں آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر قرض لینے کے لیے اتنی مشکلات کا سامنا کرنے پڑے، بجلی کے ریٹس دو گنا سے زیادہ بڑھ جائیں اور مہنگائی ڈبل ڈیجٹ کو عبور کر جائے وہاں تقریباً آٹھ ارب ڈالر صرف ریلوے لائن کی اپ گریڈیشن کے لیے قرض لینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ماں، باپ، بیوی اور بچے گھر میں بھوک سے مر رہے ہوں اور بیٹا قرض لے کر نئی گاڑی خرید لائے اور اس عمل کو اپنی کامیابی قرار دیتا رہے۔ شیخ رشید صاحب جب ریلویز کے وزیر تھے تو ایم ایل ون کے قرض کے لیے بڑی بھاگ دوڑ کرتے دکھائی دیتے تھے بلکہ بعض مقامات پر یہ بھی کہتے رہے کہ میری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے ایم ایل ون کی تکمیل! لیکن چین کی طرف سے سرد مہری اور منصوبے کے لیے قرض نہ ملنے نے شاید انہیں بھی مایوس کر دیا اور ریلویز میں مزید چارم نظر نہیں آ رہا تھا اسی لیے ناکامی کا منہ دیکھنے سے پہلے ہی ممکنہ طور پر وزارت کا قلمدان تبدیل کروا لیا۔ خیر یہ ایک سیاسی تجزیہ ہے لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ فی الحال چین اس منصوبے کے لیے ڈالرز میں قرض دینے پر کسی صورت رضامند نہیں ہے۔ اگر پاکستان نے دوبارہ بیجنگ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ممکن ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور جی 20 ممالک کے قرض یاد کرانے کے بعد وہ چین سے لیے گئے قرض بھی یاد کرا دیں جس کی بنا پر پاکستان کے ڈالر ذخائر بہتر حالت میں ہیں۔
میری تحقیق کے مطابق پچھلے ڈیڑھ سال سے کافی آپشنز زیر غور آئے لیکن کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکا۔ ایک آپشن ڈالرز کے بجائے چینی کرنسی میں قرض دینے کا بھی ہے۔ بعض مقامات پر چین نے چھ ارب یوآن دینے کی بات کی لیکن پاکستان اسے ڈالرز میں لینے کے لیے زور لگا رہا ہے۔ اس کے علاوہ چین پانچ سال کا گریس پیریڈ اور بیس سال قرض کی مدت متعین کر رہا ہے جبکہ پاکستان کا مطالبہ ہے کہ گریس پیریڈ دس سال اور قرض کی ادائیگی کا وقت پچیس سال رکھا جائے۔ چینی سفیر نونگ رونگ نے بھی پیر کو وفاقی وزیر اسد عمر سے ملاقات کی ہے جس میں سی پیک منصوبوں کی تکمیل اور جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی کی میٹنگ کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔ ذرائع کے مطابق چین جے سی سی کی میٹنگ اس وقت تک نہیں کرنا چاہتا جب تک سی پیک کے تمام منصوبوں سے متعلق معاملات طے نہ پا جائیں اور یہ مکمل طور پر اپنے ٹریک پر واپس نہ آ جائے۔
ایم ایل ون منصوبہ کب مکمل ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن آج کا وقت یہ بتا رہا ہے کہ ہمارے دوست ممالک بھی اب ہمیں قرض دینے سے کترا رہے ہیں۔ جن پر ہمیں سب سے زیادہ تکیہ تھا‘ وہی پتے اب ہوا دینے لگے ہیں۔ یہ وقت کچھ سیکھنے اور سنبھلنے کا ہے۔ پاکستان کو اپنی آمدن بڑھانا ہو گی اور قرض پر انحصار کم سے کم کرنا ہو گا وگرنہ آنے والے دنوں میں ہم اپنے دوست بھی کھو بیٹھیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved