تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     16-05-2021

کیا فلسطینی بھی وجود رکھتے ہیں؟

غزہ کے نہتے اور محصور شہریوں پر اسرائیل کی فضائی بمباری اور ٹینکوں، توپوں کے ذریعے گولہ باری جاری ہے۔ اسرائیل کی طرف سے ظلم کا سلسلہ نیا ہے نہ مسلم دنیا کی بھیانک خاموشی کوئی انوکھی بات ہے۔ عالمی طاقتوں کی طرف سے اس جارحیت اور ظلم کو اسرائیل کا حقِ دفاع قرار دینا بھی اچنبھے کی بات نہیں‘ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں ہو کیا رہا ہے۔ کیا جن لوگوں پر بمباری کی جا رہی ہے وہ دہشتگرد ہیں؟ کیا وہ اسرائیل کے لیے واقعی خطرہ ہیں؟ اسرائیل کی بقا کو ان سے کس طرح کے خطرات لاحق ہیں کہ تل ابیب کو ہر طرح کی کارروائی کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے؟
کون لوگ اس کارروائی میں مر رہے ہیں، زندگی بھر کی معذوری کا شکار ہو رہے ہیں، کبھی ذہن سے محو نہ ہونے والے اس بھیانک خواب سے گزر رہے ہیں؟ اس کا جواب ہمیں 'ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی ایک یورپی ڈاکٹر کی غزہ کے ہسپتال میں ایک دن کی ڈیوٹی کے احوال سے ہو سکتا ہے۔ اس ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ 10 مئی کو جب اسرائیلی فورسز نے حملہ کرکے سینکڑوں فلسطینیوں کو زخمی کیا تو ان کی تنظیم نے فلسطین کی ہلال احمر سوسائٹی کے ساتھ مل کر طبی مدد کا کام شروع کیا۔ ان کا کام ٹراما سنٹر میں تھا۔ پہلی مریض جو اس ڈاکٹر کے پاس لائی گئی محض 12 سال کی ایک بچی تھی۔ اس کی ران پر زخم تھا۔ ڈاکٹر نے جس قدر نرمی سے ممکن ہو سکتا تھا اس کی جیز اتار کر اس کا زخم دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ بچی درد سے کراہ رہی تھی اور جینز اتارنے کا عمل بھی اس کے لیے ایک عذاب سے کم نہ تھا۔ جینز ہٹائی گئی تو اس کی ران پر ایک بالغ انسان کی ہتھیلی جتنا بڑا نیل پڑا تھا۔ اسے ربڑ چڑھی سٹیل کی گولی لگی تھی۔ گولی اس وقت ماری گئی جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ گھر کے قریب پیدل کہیں جا رہی تھی۔ اب وہ بچی چل نہیں پا رہی تھی اور ڈاکٹر کو گمان ہوا کہ اس کی ٹانگ فریکچر ہو چکی ہے۔ اسے فوری پر نزدیکی ہسپتال کے ایکسرے ڈیپارٹمنٹ منتقل کرنا پڑا۔ دوسرا مریض ایک 14 سالہ بچہ تھا۔ اسے بھی ربڑ چڑھی سٹیل کی گولی ماری گئی تھی جو اس کے چہرے پر آنکھ سے صرف ایک سینٹی میٹر دور لگی تھی۔ اس بچے کی آنکھ کا بچ جانا اس کی خوش قسمتی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ 14 سال کا ہی ایک اور بچہ اس سنٹر میں لایا گیا جس کی ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی۔
اس یورپین ڈاکٹر کے الفاظ ہیں کہ ''ان بچوں پر گولیاں چلانے والوں نے کیا ایک لمحے کے لیے بھی سوچا ہو گا کہ اس کم عمری میں ایک آنکھ کھو دینے کا کیا مطلب ہے اور ان کی زندگی کس قدر متاثر ہوگی‘‘۔ مغرب کی اذان ہوئی تو طبی عملے نے کچھ لمحوں کا وقفہ کرکے روزہ افطار کیا اور یہی چند لمحات تھے جو اس دن انہیں فرصت کے میسر آئے تھے۔ افطار کے دوران ہی ایمبولینسز کے سائرن گونجے اور صرف 10 منٹ میں 15 زخمی ٹراما سنٹر لائے گئے۔ طبی عملے نے افطار چھوڑ کر زخمیوں کا معائنہ کیا‘ ان کی فوری ضرورت کے مطابق امداد دی اور جنہیں ہسپتال داخل کرایا جانا ضروری تھا‘ انہیں ہسپتال ریفر کردیا گیا۔ اس بار جو زخمی لائے گئے وہ بمباری سے زخمی تھے اور ان کی حالت زیادہ خراب تھی۔ ان زخمیوں میں زیادہ تر بچے، بوڑھے اور خواتین تھیں۔
اسی دوران چند اور زخمی لائے گئے جن کا معائنہ کرتے ہوئے خاتون ڈاکٹر کو شدید سڑاند محسوس ہوئی۔ ڈاکٹر ایسے حالات کو خوب پہچانتی تھی۔ اسے علم ہو گیاکہ اسرائیلی فورسز نے 'سکنک واٹر‘ کا استعمال کیا ہے۔ سکنک واٹر شدید بدبودار مادہ ہے جو اسرائیلی فورسز 2008ء سے فلسطینی مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔ یہ ایجاد بھی اسرائیل کی ہے۔ بظاہر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ مادہ خمیر، بیکنگ پاؤڈر اور پانی کو ملا کر تیار کیا جاتا ہے اور اس کا کوئی طبی نقصان نہیں تاہم ڈاکٹروں کو شک ہے کہ یہ کیمیکل مواد ہے اور اس قدر بدبودار ہے کہ کئی دن تک انسانی جسم سے اس کی بو نہیں جاتی اور اس بو کی وجہ سے شدید قے ہوتی ہے۔ ایک زخمی خاتون کے جسم سے بھی سکنک واٹر کی سڑاند آ رہی تھی اور وہ اس سڑاند کی وجہ سے بار بار قے کر رہی تھی۔ اس خاتون کو بھی سٹیل کی گولیاں لگی تھیں۔ اس کا کولہا اور کہنی‘ دونوں زخمی تھے۔ واٹر کینن کے ساتھ اس کے چہرے اور جسم پر سکنک واٹر کی بوچھاڑ کی گئی تھی۔ اس کا حجاب اس بدبودار پانی سے بھیگا ہوا تھا۔ یہ خاتون زخموں سے زیادہ اپنی عزت نفس مجروح کئے جانے پر دکھی تھی۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس منظر کے ساتھ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ ایک وجہ تو بدبودار پانی کی سڑاند تھی اور دوسری وجہ اس خاتون کی بے بسی تھی جو ڈاکٹر کی آنکھوں میں نمی کا سبب بن گئی۔
ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ پھر کچھ وقت کے لیے ایمبولینسوں کی آمد بند ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ اسرائیلی فورسز ایمبولینسز کو بھی مقبوضہ بیت المقدس میں داخلے سے روک رہی ہیں۔ زخمی تڑپ رہے ہیں لیکن ٹراما سنٹر یا ہسپتال نہیں پہنچ پا رہے۔ جو بھی وجہ رہی ہو، شکر خدا کا کہ کچھ تعطل کے بعد ایمبولینسز کو آنے کی اجازت مل گئی اور ایک بار پھر درد سے کراہتے زخمیوں کا نیا قافلہ پہنچ گیا۔
یہ تو تھی مقبوضہ بیت المقدس کے ایک ٹراما سنٹر میں ڈاکٹر کی ایک شفٹ کی روداد، اب رخ کرتے ہیں امریکی کانگریس کا جہاں فلسطین نژاد رکن راشدہ طلیب اور ان کی افریقی نژاد ساتھی الہان عمر نے اسرائیلی ظلم پر آواز بلند کی۔ راشدہ طلیب نے کانگریس سے جذباتی خطاب میں امریکی صدر، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور دونوں ایوانوں کے لیڈروں کے اسرائیل کے حق میں بیان کی دھجیاں اڑا دیں۔ راشدہ طلیب نے کہا کہ ان رہنماؤں کے بیانات پڑھیں تو یوں لگے گا فلسطینی وجود ہی نہیں رکھتے، میں آپ کے سامنے ایک یاددہانی کے طور پر کھڑی ہوں کہ ہم فلسطینی بھی وجود رکھتے ہیں، ہم بھی مائیں، بیٹیاں اور پوتیاں ہیں، امریکی رہنماؤں کے بیانات میں فلسطینی خاندانوں پر حملے کا کوئی ذکر نہیں جنہیں بے گھر کیا جا رہا ہے۔ ان بچوں کا کوئی ذکر نہیں جنہیں قتل اور زخمی کیا جا رہا ہے، مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھتے فلسطینیوں کو مسلسل ہراساں کرنے کی مہم کا کوئی ذکر نہیں، نمازوں کے دوران مسجد اقصیٰ کے مسلسل محاصرے، اس کے اندر اور باہر تشدد، آنسو گیس، دھویں کا کوئی ذکر نہیں۔
یورپی خاتون ڈاکٹر اور امریکی رکن کانگریس راشدہ طلیب‘ دونوں نے اپنا فرض ادا کردیا۔ دنیا کو بتادیا کہ ظالم کون ہے اور ان کا ساتھ دینے والے کون ہیں، لیکن کیا ہمارا بھی کوئی فرض ہے؟ کیا ہم نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے بحیثیت قوم اور مسلم ملک کچھ کیا ہے؟ کیا مسلم ممالک کی تنظیم کوئی کردار ادا کر رہی ہے؟ ابھی کل کی بات ہے جب کچھ عرب ریاستوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا تو پاکستان میں بھی بہت سے لوگوں کو مروڑ اٹھا تھا، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے پاکستان کے کئی معاشی اور سفارتی مسائل ختم ہونے کی دلیلیں دی جاتی تھیں۔ کہا جاتا تھا کیا ہم مسلم امہ کے اکیلے ٹھیکیدار ہیں، ٹھیکے داری تو کسی نے کیا کرنی ہے کیا فلسطینیوں پر ظلم رکوانے کے لیے کوئی مؤثر آواز بھی بلند ہوئی؟ سوشل میڈیا پر بیانات پوسٹ کرنے سے ذمہ داریاں پوری نہیں ہوتیں۔ اسرائیل کے وجود کو فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر تسلیم کرنے کی باتیں کرنے والے بتائیں گے کہ فلسطینی ان کے نزدیک وجود بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ یورپی خاتون ڈاکٹر کی انسانی خدمت کی ایک دن کی روداد پڑھنے اور راشدہ طلیب کی دہائی سننے کے بعد بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی دلیلیں دینے والے اب کیا کہیں گے؟؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved