افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلاکے مضمرات کو کنٹرول کرنے کی خاطرامریکی اشرافیہ پھر ایک قسم کے کنفیوژن کا سہارا لے رہی ہے۔کم از کم دو ریٹائرڈ امریکی جنرلز نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ واشنگٹن افغان جنگ کی بساط نہیں لپیٹے گا بلکہ وہاں سے صرف فوجیں نکالے گاکیونکہ افغانستان سے اب بھی امریکہ کے دفاعی مفادات وابستہ ہیں‘تاہم طویل قیام کے باعث مقامی آبادی چونکہ غیر ملکی فورسز کی موجودگی کو گوارا نہیں کرتی اس لئے فوجیں نکالنے کے باوجود یہاں کے میدان جنگ سے تعلق قائم رکھا جائے گا۔
براؤن یونیورسٹی کے جنگ نامہ کے مطابق اگرچہ امریکہ11 ستمبر2021ء تک یہاں سے نکل جائے گا لیکن وہ پھر بھی افغانستان کے قریب رہے گا اور امریکی فورسز افغانستان بھر میں ٹارگٹڈ آپریشن کے لیے ایئرفورس‘ڈرون اور لانگ رینج ہتھیاروں کا استعمال کریں گی۔اس مقصد کے لیے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں قائم امریکہ کے فضائی اور بحری اڈوں کو بروئے کار لایا جائے گا۔جنگ نامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ کے پاس عراق میں 2500 زمینی فوجیوں کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے اڈوں میں ہزاروں سپاہی موجود ہیں۔تاہم اس سب کے باوجود امریکی انخلا پر پڑوسی ممالک خاص طور پر روس‘چین اور پاکستان کو یہ تحفظات ہیں کہ افغان تنازع کا سیاسی حل تلاش کئے بغیر یہاں سے عالمی طاقتوں کی روانگی خطے کو غیر مستحکم کر سکتی ہے لیکن ان سارے اعتراضات کو خاطر میں لائے بغیر امریکی مقتدرہ نے''فاتحانہ‘‘پسپائی جاری رکھی ہوئی ہے‘البتہ پاکستان سے اتنا کہا گیا ہے کہ وہ امریکہ کی طرح ٹی ٹی پی سے بات چیت کرے یا پھر ایسے سرکش گروہوں سے خود نمٹے۔عام خیال یہی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی بالادستی اور سول وار‘دونوں صورتوں میں اس طویل جنگ کے مضمرات کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیاگیا‘اگر یہ خیال درست ہے تو پھر ہمارے لئے افغانستان میں طالبان حکومت کے مابعد مسائل کا سامنا کرنا زیادہ بہتر چوائس ہو گی۔امر واقعہ یہ ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے نکلنے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو طالبان نہایت تیزی سے پُرکر رہے ہیں‘قندھار میں کئی مہینوں کی شدید لڑائی کے بعد طالبان نے دوسرے بڑے آبی ذخیرہ پر قبضہ کرلیا‘دہلہ ڈیم امریکیوں نے بنایا تھاجس سے قندھار کے سات اضلاع کو آبپاشی کے لیے پانی کی فراہمی کی جائے گی۔ادھر جنوب مشرقی صوبہ غزنی میں طالبان نے ہفتے کے روز ایک اہم ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے کے بعد درجنوں افغان فوجیوں کو گرفتار اور متعدد کو ہلاک کردیا۔تازہ ترین حملہ اس روز کیا گیا جس روز امریکہ اور نیٹوفورسز 20 سالہ جنگ کے بعد اپنے فوجیوں اور ان کی فیملیز سمیت افغانستان چھوڑ کر گئے۔صوبائی کونسل کے دو سینئر ارکان نے میڈیاکو بتایا کہ افغان فوج نے حملے سے قبل اپنی فورسز کو صوبائی دارالحکومت غزنی کے ہوائی اڈے پر تعینات کیا لیکن چندگھنٹوں پہ محیط جھڑپوں کے بعد طالبان نے کم از کم 17 فوجیوں کو ہلاک کرکے ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا۔افغان آرمی چیف جنرل محمد یاسین ضیا نے غزنی کی دفاعی تنصیبات پر طالبان کے قبضے کی تصدیق کر دی۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ طالبان نے غزنی میں 25 فوجیوں کو زندہ گرفتار کرنے کے علاوہ متعددکو ہلاک کرکے بھاری اور ہلکے ہتھیاروں کے بڑے ذخیرہ پر بھی قبضہ کر لیا۔واقفانِ حال کے مطابق افغانستان میں عوامی سطح پر طالبان کی حمایت تیزی سے بڑھ رہی ہے؛چنانچہ یہ امر بعیداز قیاس نہیں کہ بہت جلد طالبان افغانستان کے اقتدار اعلیٰ پہ متمکن ہو جائیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا غیر مسلم ورلڈ طالبان کی امارات اسلامی کے اس تصور کو قبول کر لے گاجس کے خلاف وہ برسرپیکار چلے آ رہے ہیں۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ روس‘چین اور بھارت سمیت مغربی ممالک امارات اسلامی کو تسلیم کریں گے نہ طالبان اپنے اس موقف سے دستبردار ہوں گے اس لئے یہ تنازع اب ایسی نئی صلیبی جنگوں کا محرک بنے گا جو عالمی منظرنامہ پہ چھائی التباسات کی دھند کو ختم کرکے پوری مسلم دنیاکو مغرب کے فلسفۂ سیاست کے خلاف صف آراء کر دے گا۔اس حقیقت سے اغماض ممکن نہیں کہ امریکہ نے افغانستان پہ مسلط کی گئی طویل اور بے مقصد جنگ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کی تلافی کے تقاضوں سے بچنے کی خاطر طالبان سے دوحہ امن معاہدہ کیا لیکن پھر بھی دنیا کی واحد سپر پاوراس ذمہ داری سے نجات نہیں پا سکے گی۔امریکی جارحیت کے نتیجے میں شہید ہونے والے لاکھوں افغان واشنگٹن سے زرتلافی کے علاوہ معافی کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔خود امریکی اداروں کے جاری کردہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق نائن الیون کے ردعمل میں امریکہ کی طرف سے افغانستان پر براہ راست حملوں کے نتیجہ میں 241000 افغان شہید ہوئے۔اس تباہ کن جنگ کے باعث لاکھوں شہری بھوک ‘بیماریوں اور نقل مکانی کے دوران جانیں گنوا بیٹھے۔جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں 71344 معصوم شہری بھی شامل ہیں جن میں زیادہ تر پاکستان سے جڑی افغانستان کی لمبی اور غیر محفوظ سرحد کے دونوں اطراف آباد تھے۔افغانستان میں کم از کم 47245 اورپاکستان میں 24099 عام شہری مرگ ناگہانی کا شکار ہوئے۔ افغانستان سے ملحقہ پاکستان کی 2670کلومیٹر سرحدی پٹی میں لاتعداد جھڑپوں اور امریکی ڈرون حملوں نے اس خطے کو آگ و خون کے جہنم میں تبدل کر دیا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق افغان فوج اور پولیس کے 66000 اہلکار مارے گئے۔آئی سی آر ڈاٹ آرگنائزیشن کے ذریعے کرائے گئے سروے کے مطابق امریکہ اور نیٹو فوجیوں کے 3586تابوت گھروں کو لائے گئے‘اسی سروے میں مارے جانے والے طالبان جنگجوؤں کی تعداد 84191 بتائی گئی۔افغانستان بچوں کے لیے آج بھی دنیا کاخطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے‘صرف پچھلی ایک دہائی میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (UNMA) نے کم از کم 7792 بچوں کی ہلاکت اور 18662کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ان میں سے اکثر بچے سڑک کنارے نصب بموں یا ہوائی حملوں میں جسمانی اعضا کھو بیٹھے۔اس جنگ کی سب سے بھاری قیمت عورتوں نے چکائی‘افغان جنگ کے نتیجے میں خواتین کی 3000 سے زیادہ اموات ہوئیں‘صرف 2010ء سے 2021ء تک 7000 سے زیادہ عورتیں زخمی ہوئیں۔گزشتہ دہائی افغان خواتین کے لیے کچھ زیادہ ہلاکت خیزثابت ہوئی جس میں عورتوں کی 390 اموات ریکارڈ کی گئیں۔جنگ کی وجہ سے افغانستان کی کم از کم 38 ملین آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی‘لاکھوں لوگ پڑوسی ملک پاکستان اور ایران کے علاوہ دیگر ممالک کو ہجرت کر گئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس عظیم ہجرت کے علاوہ چار لاکھ افراد نے داخلی طور پہ نقل مکانی کی کلفتیں برداشت کیں۔ 2001 ء میں طالبان گورنمنٹ کے خاتمہ کے بعد ملک میں تعلیم ‘صحت اور خواتین کے حقوق میں معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا لیکن اس کے باوجود افغانستان اب بھی یمن کے بعد دنیا کا دوسرا بدحال ملک ہے جہاں زیادہ تر لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پہ مجبورہیں۔ تعلیم کے بارے یونیسف کی 2019ء کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغانستان میں جو 3.7 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں ان میں 60 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔فروری 2020ء میں امریکہ اور طالبان کے مابین طے پانے والے انخلا کے معاہدہ کے باوجود شہریوں پر حملے بڑھتے جا رہے ہیں‘اس سال کے پہلے چار مہینوں میں نہتے سویلین پر 245 حملے ہوئے‘ تقریباً ہر ایک دن میں دو سے زیادہ حملے ریکارڈ کئے جاتے ہیں۔
پچھلی چار دہائیوں پہ محیط دو بڑی جنگوں اور وہ داخلی خلفشار جس نے افغانستان کو تباہ کردیا اس کا محرک افغانستان کے سیکولر قوم پرست رہنما بنے۔ 1979ء میں روسی جارحیت کے نتیجے میں افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے والے سوویت نواز قوم پرست رہنماؤں نے 42 سال قبل جس بے مقصد جنگ کی بنیاد رکھی تھی وہی اگلی دو دہائیوں کے دوران سرد جنگ کا آخری مرحلہ ثابت ہوئی۔80 ء اور90ء کی دہائی میں افغان مجاہدین نے سوویت فوج کے خلاف گوریلا جنگ لڑی جس کی حمایت امریکہ اور یورپی ممالک نے کی تھی۔1989ء میں سوویت یونین نے فوجی دستبرداری کے ذریعے افغانستان کو خانہ جنگی کی آگ میں چھوڑ دیا۔ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ سوویت فوج کے انخلا کے صرف 12 سال بعد پھرانہی قوم پرست رہنماؤں نے افغانستان پر امریکی جارحیت کا اسی طرح استقبال کیا جیسے 1979ء میں انہوں نے سوویت آرمی کو سرخ نعروں سے خوش آمدید کہا تھا۔صدر جارج ڈبلیو بش کی قیادت میں امریکہ نے نائن الیون کے اٹھارہ دن بعد 7 اکتوبر 2001ء کو اجڑے ہوئے افغانستان پر دوسری بڑی جنگ مسلط کر دی۔امریکہ نے طالبان حکومت پر الزام عائد کیاکہ اس نے نائن الیون حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی ہے۔اب قریباً 20 سال بعد امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے طالبان کی امارات اسلامی کے ساتھ امن معاہدہ کر کے 11 ستمبر تک ملک چھوڑنے کا وعدہ کر لیا۔اس بیس سالہ جنگ کے دوران 50 نیٹو اور دیگر شراکت دار ممالک نے افغان مشن میں امریکہ کے ساتھ بھرپور فوجی تعاون کیا‘2011ء میں جب دوسری افغان وار اپنے عروج پر تھی تو یہاں تقربیاً ایک لاکھ چالیس ہزارامریکی اور اتحادی فوجی موجود تھے لیکن آج افغانستان میں دنیا کے 36 ممالک کے قریب دس ہزارفوجی تعینات ہیں۔امریکی سینٹرل کمانڈ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ان کے 22562 کنٹریکٹرز موجود ہیں‘یہ اہلکار نقل و حمل‘تعمیر ‘ ترجمہ اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں خدمات سر انجام دیتے ہیں‘انہی کنٹریکٹرز میں تقریباً آٹھ فیصد(1813) مسلح نجی سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔2001ء میں جب طالبان کو اقتدار سے ہٹایا گیاتب سے ملک پر قابو پانے کی تمام تر کوشش ناکام ہوتی گئیں۔ لانگ وار جرنل کے2021ء کے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی مضبوط ترین امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی افغانستان میں طالبان پھر فعال ہوگئے ہیں۔