تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     16-05-2021

علاقائی تعلقات کا نیا بندوبست

''تیسری عالمی جنگ‘‘ جاری ہے ۔ اب تک اس میں نصف ملین سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ صدی کی خوفناک ترین جنگ ایک نادیدہ‘ شکلیں بدلنے اور ہر جگہ پہنچ جانے والے دشمن‘ کورونا وائرس کے خلاف لڑی جارہی ہے ۔ سرحدیں اسے روک نہیں سکتیں‘ ضوابط کو یہ خاطر میں نہیں لاتا‘ پرائیویسی کو یہ پامال کرتے ہوئے جسم پر حملہ آور ہوتا اور ذہن کو مفلوج کردیتا ہے ۔ اس کے سامنے تمام اقوام کی فوجیں بے بس دکھائی دیتی ہیں ۔ ذرا تصور کریں‘ کینیڈ اسے لے کر آسٹریلیا اور پاکستان تک‘ وائرس کے خلاف افواج کو میدان میں اتارنا پڑا۔ جب بھی ایسا لگتا ہے کہ اب اس پر قابو پانا ممکن ہوچکا ‘ یہ پینترا بدل کر مزید شدت سے حملہ آور ہوتاہے ۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں نے دنیا کو تقسیم کردیا تھا لیکن موجودہ جنگ نے دنیا کو متحدکردیا ہے ۔ یہ جنگ کسی جارح ملک کے خلاف نہیں جو کسی پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ ایسے وائر س کے خلاف ہے جو انسانی نسل کو تباہ کرنے کے درپے ہے ۔ امیر ‘ غریب‘ چھوٹے ‘ بڑے ‘ سفید ‘ سیاہ ‘ ہر قسم کے انسان اس کے حملوں کی زد میں ہیں۔ اس سے نمٹنے کا واحد طریقہ متحد رہتے ہوئے حکمت عملی بنانااور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دنیا کا ہر شخص اس مشترکہ دشمن کو شکست دینے کیلئے تیار ہو۔
راسخ شدہ پرانی عادتیں مشکل سے ہی جاتی ہیں ۔ '' تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘کی بنیاد پر وجود میں آئی اور طاقتور اور کمزورکے درمیانی بٹی ہوئی یہ دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی کوشش میں ہے ۔ ممکن ہے کہ کچھ ممالک پہلے ویکسین حاصل کرنے کی دوڑ جیت لیں لیکن ایک اور حملہ آور لہر کے سامنے جنگ ہار بھی سکتے ہیں ۔ ایک سال سے یہ وائرس معاشی قوتوں کو تباہ کرنے کی جنگ جیت رہا ہے ۔ایک طرف تحقیق اور ترقی کی صلاحیت کمزور کردی تو دوسری طرف دنیا کے بہترین نظام صحت کی سکت کیلئے پہاڑ جیسا چیلنج کھڑا کردیا ۔اس کے باوجود آپ اپنے ہمسایوں سے لے کر دوردراز کے ممالک کی طرف دیکھیں ۔ افغانستان آج بھی بم حملوں کی زد میں ہے ۔ انڈیا نے لداخ پر چین کے ساتھ سرحدی جھڑپیں کیں۔ یہ پاکستان کے خلاف جھوٹا فلیگ آپریشن کرنے کا منصوبہ بھی بنائے بیٹھا ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ سعودی عرب اور یمن کی کشمکش کی وجہ سے سلگ رہا ہے ۔ امریکا نے ابھی تک روس پر انتخابات میں مداخلت کی وجہ سے پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں ۔ اس وقت جب وائرس کے خلاف جنگ کا کمر توڑ دبائو بڑھتا جارہا تھا ‘ امید کی ایک کرن نمودار ہوئی ۔ دنیا کے دو اہم خطوں میں تعلقات کے باب میں مثبت تبدیلی دکھائی دینے لگی ۔
1۔ مشرق ِوسطیٰ میں نیا بندوبست: مشرق ِوسطیٰ کی روایتی دھڑے بندی میں ایک طرف دوبڑی طاقتیں ‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں جن کا فطری جھکائو امریکی مفادات کی طرف ہے۔ دوسری طرف قطر او ر ایران ہیں ۔ بہت سے عالمی امور پر مشرق ِوسطیٰ دھڑے بندی کی اس لکیر سے بٹا ہوا ہے ۔ علاقائی بالادستی قائم کرنے کی کوشش میں انہیں روس کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ سعودی عرب خود کوخطے میں لیڈر سمجھتا ہے ۔ ایران اسے چیلنج کرتا ہے ۔اس دھڑے بندی نے مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے ۔ اس تقسیم کی وجہ سے عالمی امور پر اُن کی سکت اور آواز کمزور اور بے وقعت ہوئی ۔اب آپ اس کی وجہ کووڈ قرار دے لیں یا سوچ کی تبدیلی ‘ ناممکن ممکن ہوچکا ۔سعودی عرب کی عملی طور پر قیادت کرنے والے پرنس محمد بن سلمان نے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف ایرانیوں نے بھی مثبت جواب دیا ہے ۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے سعودی ولی عہد پر جمال خاشقجی کو قتل کرنے کا حکم دینے کا الزام ہے ۔ ممکن ہے کہ ایسا نہ ہواور سعودی عرب ایران کے ساتھ باہمی تعلقات واقعی بہتر بنانا چاہتا ہو۔ جو بھی وجہ ہو‘ اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
2۔ جنوبی ایشیا کی ترتیب نو: دوسری اہم ترتیب نو پاک بھارت تعلقات میں دیکھنے میں آرہی ہے ۔ طرفین کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے سرحد کے آر پار فائرنگ روکنے پر اتفاق کیا ۔ اس طرح لائن آف کنٹرول پر فائر بند ی ہوگئی ۔ اس کے بعد جب پاکستانی وزیر اعظم کو کورونا ہوا تو اُ ن کے بھارتی ہم منصب نے اُن کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے خیر سگالی کا جواب دیتے ہوئے کووڈ کی شدید لہر کا سامنا کرنے والے بھارت کو مدد کی پیش کش کی ۔ کچھ افواہیں ہیں کہ متحدہ عرب امارات ثالثی کی پیش کش کررہا ہے۔ جو بھی صورتحال ہو‘ اگر دونوں ممالک ایک دوسرے سے خاص طور پر تنازعات پر بات چیت شروع کردیں تو یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہوگی ۔
پاکستان کے پاس ان دونوں خطوں کے علاوہ عالمی امور میں کردارادا کرنے کا موقع ہے ۔ کسی لابی کے ساتھ جڑے رہنے اور صرف اس کی حمایت حاصل کرنے کا تصور آنے والے دنوں کو دیکھتے ہوئے حماقت ہوگا۔ لچکدار تعلقات کے ساتھ پاکستان کو خود کو ایسے مقام پر رکھنے کی ضرورت ہے جس کے پاس تمام متعلقہ فریقوں کو پیش کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ موجود ہو۔ اس مقصد کیلئے پاکستان کو دستیاب امکانات سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے :
1۔ مذہبی سفارت کاری:پچھلے دنوں وزیر اعظم پاکستان سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے ۔ اُنہوں نے اوآئی سی ممالک کے سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے اسلامو فوبیا پر مشترکہ موقف اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ۔ اُنہیں اسلامی دنیا کے اتحاد کو اپنا خصوصی موضوع بنایا ۔ اسلامی دنیا کا اتحاد ضروری ہے ۔ سعودیوں کا مفاہمتی لہجہ امکانات کی ایک کھڑکی کھول رہا ہے ۔ اگر ممکن ہو تو وزیر اعظم سعودی ولی عہد سے درخواست کریں کہ تمام او آئی سی اراکین کو اسلامو فوبیا اور مذہبی جذبات کے احترام کے ایک نکتے پر مل کر کھڑے ہونا چاہیے ۔ اس موضوع کو تحریک دینے کیلئے وزیر اعظم پاکستان دوسرے ممالک کوہم آواز بنانے اور ایک جامع حکمت عملی بنانے کی پیش کش کرسکتے ہیں ۔
2۔ صحت کی سفارت کاری: وزیر اعظم نے پہلے ہی بھارت کو کورونا بحران سے نمٹنے میں مدد کی پیش کش کی ہے ۔ وہ جنوبی ایشیا کے مشترکہ اجلاس میں صحت کے بحران کے موقع پر علاقائی سپورٹ سسٹم قائم کرنے کی تجویز پیش کرسکتے ہیں ۔ اس فورم پر بہترین طریق کار کا تبادلہ ‘ لاجسٹک سپورٹ اور مدد کی پیش کش کی جاسکتی ہے ۔
3۔ مغرب کے ساتھ رابطوں کی بحالی : واشنگٹن میں نئی قیادت کے آنے سے بہتر مفاہمت پیدا کرنے کیلئے نئی حرکیات درکار ہیں ۔ اب جبکہ امریکا افغانستان سے انخلا کررہا ہے تو ممکن ہے کہ امریکا سوچ رہا ہوکہ اب پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں ۔ یہاں لابنگ کرنے کی ضرورت ہوگی کہ امریکا کیلئے پرامن انخلاکتنااہم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ثالث اور سہولت کار کا کردار رابطے بحال کرنے کی کلید ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح یورپ کو بھی کئی امور پر اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔ لابنگ کی جائے کہ پاکستان کا علاقے میں کردار افغانستان میں قیام امن ‘ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سہولت کاری اوربھارتی جارحیت کار خ موڑنے کا ہے ۔
موجودہ عالمی وباسے سیکھا جانے والا سبق یہ ہے کہ کوئی ''ایک ‘‘ یہ کام نہیں کرسکتا۔ ہر کسی کو اس کھیل میں اپنا کردارادا کرنا ہے ‘ تب ہی انسانیت کی جیت ہوگی ۔ امریکا نے ثابت کیا کہ اس کا طرزِ عمل پہلے سے بہت مختلف ہے ۔ اس نے عالمی ادارۂ صحت سے درخواست کی ہے کہ ویکسین پر اجارہ ختم کردی جائے تاکہ تمام ممالک انہیں مقامی طور پر تیار کرکے وائرس کا پھیلائو روک سکیں ۔ اسی طرح ممالک کو رقابت بھلا کر عالمی دشمن کے خلاف صف بندی کرنے کی ضرورت ہے ۔ سفارت کاری وہ فن ہے جس کے ذریعے دشمنوں کو جنگ کے بغیر زیر کرلیا جاتاہے ۔ اپنے دروازے‘ بلکہ دل اور دماغ کھولنے کا اس سے بہتر وقت اور کیا ہوسکتا ہے؟ صرف اسی طرح تمام بنی نوع انسان مل کر اس صدی کی عالمی جنگ کا خاتمہ کرسکتے ہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved