تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     17-05-2021

ایک اہم قومی ایشو … چند تجاویز

والدین شکوہ کرتے ہیں کہ آج کل کے بچوں کو کچھ سمجھانا ایک مشکل کام ہے مگر سچ پوچھیے تو مشکل ترین کام آج کل کی حکومتوں کو سمجھنا سمجھانا ہے۔ اس اپنی حکومت ہی کو دیکھیے۔ ابتدا میں تو اس کی پالیسیاں درست تھیں اور اقدامات حوصلہ افزا! بزدار صاحب کو وزیر اعلیٰ تعینات کر کے دلوں کو مسخر کر لیا گیا۔ افرادی قوت کے بہترین استعمال Right person for the right job کی یہ ایسی مثال تھی کہ بین الاقوامی سطح پر اس کی تحسین کی گئی۔ کابینہ میں جب ایک ڈاکٹر صاحب کو بیوروکریسی میں اصلاحات کے لیے چنا گیا تو اس انتخاب کو بھی ملک کے اندر اور باہر بہت سراہا گیا۔ وجہ ظاہر تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے گزشتہ حکومتوں میں بھی یہی ذمہ داری نبھائی تھی‘ مگر کام اس قدر اطمینان سے کرتے ہیں اور تفصیل سے کہ کسی حکومت میں بھی اصلاحات کی پٹاری سے برآمد کچھ نہیں ہوتا کہ حکومت بدل جاتی ہے۔ اس حکومت میں یہی کام انہوں نے پھر الف سے شروع کیا۔ تین برس ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ بہت ہی تاریخی قسم کی اصلاحات لے کر آئیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ پانچ سال اس کام کے لیے کم پڑیں۔ امید واثق ہے کہ حسبِ معمول‘ اگلی حکومت میں‘ جس کی بھی ہوئی‘ یہی کام ایک بار پھر الف ہی سے شروع کریں گے۔ انہی کے لیے تو شاعر نے کہا تھا؎
شبِ وصال بہت کم ہے‘ آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جدائی کا
باقی پالیسیاں بھی ابتدا میں تسلی بخش تھیں۔ جب جناب عمر ایوب‘ جناب سومرو‘ جناب خسرو بختیار‘ جناب شیخ رشید‘ جناب فروغ نسیم‘ جناب اعظم سواتی‘ محترمہ زبیدہ جلال اور محترمہ فہمیدہ مرزا کو مختلف قلمدان سونپے گئے تو تبدیلی کا وعدہ پورا ہوتا نظر آیا اور عوام نے خدا کا شکر ادا کیا کہ آخر کوئی ایسی لیڈرشپ بھی آ ہی گئی جس نے آزمودہ گھِسے پٹے چہروں سے نجات دلائی اور تازہ خون حکومت کی رگوں میں دوڑایا۔ ابتدائی ایام کے بعد بھی پالیسیاں قابلِ ستائش رہیں۔ مختصر کابینہ‘ کروڑوں ملازمتوں اور لاکھوں گھروں کے جو وعدے کیے گئے تھے وہ وفا کیے گئے۔ شکرانے میں لوگوں نے نوافل ادا کیے۔
مگر اب نہ جانے کیا ہوا ہے۔ شاید حکومت کو حاسدوں کی نظر لگ گئی ہے۔ وہ جو پالیسیوں میں توازن تھا‘ رفتہ رفتہ غائب ہونے لگا ہے۔ ترجیحات عجیب سی ہو نے لگی ہیں۔ جو امور توجہ طلب ہیں‘ پسِ پشت ڈالے جا رہے ہیں۔ غیر ضروری کاموں کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ شہباز شریف کے معاملے ہی کو لے لیجیے‘ جس ترجیح اور فل ٹائم توجہ کا یہ مسئلہ مستحق تھا‘ اس سے محروم ہے۔ بجا کہ سعودی عرب سے آتے ہی جناب وزیر اعظم نے اس مسئلے کے حوالے سے فوراً اجلاس طلب کیا مگر تاخیر تو ہو چکی تھی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ غیر ملکی دورے کو فی الفور مختصر کر کے‘ وزیر اعظم واپس پہنچتے یا بیرون ملک ہی اس موضوع پر میٹنگ بلاتے۔ میزبان ملک میں بیٹھ کر اس موضوع پر پریس کانفرنس کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ وہاں کی حکومت اور عوام کو بھی معلوم ہو جاتا کہ پاکستانی لیڈرشپ کسی صورت بھی اہم امور کو معرضِ التوا میں نہیں ڈالتی۔
خدا کا شکر ہے کہ گیارہ مئی کو ٹیلی ویژن پر عوام کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے شہباز شریف کے مسئلے کو ایک بار پھر اجاگر کیا۔ آپ نے واضح طور پر ایک بار پھر بتایا کہ ''شریف خاندان کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ اور یہ کہ ''میں این آر او نہیں دوں گا‘‘ اور یہ کہ ''شہباز شریف ملک سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ وزیر اعظم کی اس فکر اور دل سوزی کی اور جہدِ مسلسل کی قدر کرنی چاہیے۔ وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اس اہم قومی مسئلے پر توجہ مرکوز کریں مگر کیا یہ کافی ہے؟ نہیں! ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک اس مسئلے کو Institutionalise نہیں کریں گے یعنی اس کے لیے ادارے نہیں بنائیں گے‘ تب تک یہ مسئلہ پوری طرح اجاگر ہو گا نہ حل ہو سکے گا۔ سب سے پہلے وفاق کی سطح پر ہمیں ایک ہمہ وقتی وزارت اس کام کے لیے بنانا ہو گی‘ اس کا نام ''وزارت برائے امورِ شریفاں‘‘ رکھا جا سکتا ہے۔ یہ وزارت صوبوں میں بھی ہو گی۔ کم از کم کے پی میں اور پنجاب و بلوچستان میں تو یہ کام فوری طور پر کیا جا سکتا ہے۔ رہی سندھ کی حکومت تو اسے قائل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہ وفاقی اور صوبائی وزارتیں اپنی پوری توجہ اس امر پر مرکوز رکھیں گی کہ شہباز شریف کو باہر جانے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں وفاقی وزیر اطلاعات نے 'حکومت پاکستان‘ کے لوگو میں تبدیلی سے متعلق تجویز دے کر نئی بحث کا آغاز کیا ہے اور کہا ہے کہ لوگو میں چائے اور پٹ سن کی تصویر ہٹا کر سائنس‘ ٹیکنالوجی اور تعلیم کے آئیکون رکھے جائیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ لوگو میں دو باتیں ضرور لکھی جانی چاہئیں۔ ایک ''نہیں چھوڑیں گے‘‘ اور دوسری ''این آر او نہیں دیں گے‘‘۔ اس سے ہماری ترجیحات قومی سطح پر زیادہ اصرار اور تاکید کے ساتھ متشکل ہو سکیں گی۔ اگر سو روپے کے نوٹ پر بھی لکھ دیا جائے کہ ''شریف فیملی کا تعاقب کرتے رہیں گے‘‘ تو یہ عزم ہر شہری تک پہنچ سکے گا۔ یوں عوام اور حکومت ایک پیج پر ہو جائیں گے۔ ملک کے اطراف و اکناف میں ہر شاہراہ پر بڑے بڑے بینر لگانے ہوں گے جن پر یہ جملے درج ہوں گے:
نہیں چھوڑیں گے!
شہباز شریف کو باہر نہیں جانے دیں گے!
این آر او نہیں دیں گے!
ان بینرز کا فائدہ یہ ہو گا کہ وزیر اعظم کو اپنی ہر تقریر اور ہر بیان میں یہ باتیں دہرانا نہیں پڑیں گی کیونکہ دہرا دہرا کر وہ بھی نڈھال ہو چکے اور عوام کے بھی کان پک چکے!
ان داخلی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہمیں خارجی پہلوؤں کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے تو ایک ہائی لیول وفد تشکیل دینا چاہیے جو دوسرے ملکوں میں جا کر وضاحت کرے کہ ہم شہباز شریف کو بیرون ملک کیوں نہیں جانے دے رہے۔ وفد کی قیادت خود وزیر اعظم کریں یا صدرِ مملکت! یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شہباز شریف ایک بہت ہوشیار سیاست دان ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ کسی غیر معروف ملک کے ذریعے باہر جانے کی کوشش کریں گے۔ اگرچہ برازیل‘ چلی‘ زیمبیا اور سینی گال کی سرحدیں ہمارے ملک سے نہیں ملتیں پھر بھی ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام ملکوں کو اس حوالے سے خبردار کرنا ہو گا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے سفارت خانے اس حوالے سے اپنے فرائض درست طور پر نہیں سرانجام دے رہے۔ ہر سفیر اپنے میزبان ملک کی حکومت سے یہ عہد نامہ حاصل کرے کہ وہ شہباز شریف کے بیرون ملک جانے کی مخالفت کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ قرار دے گا۔ جو ملک اس ضمن میں تعاون نہ کرے ہمیں اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے ہوں گے۔ عزت کے ساتھ جینے کے لیے کچھ تو کرنا پڑے گا!
کم از کم ایک بار یہ ایشو ہمیں اقوام متحدہ کی سطح پر بھی اٹھانا ہو گا۔ اقوام متحدہ میں ہمارا مستقل مندوب شاید سو رہا ہے۔ لازم ہے کہ یو این او کا سیکرٹری جنرل ہمارے وزیر اعظم کو دعوتِ خطاب دے تا کہ وزیر اعظم دنیا بھر کو بتا سکیں کہ پاکستان شہباز شریف کو باہر کیوں نہیں جانے دے رہا۔ اس سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو گا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved