تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     17-05-2021

’کئی چاند تھے سرِ آسماں…‘

اس بار بھی وہی ہوا... 'کئی چاند تھے سرِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے‘۔
جب ہرکوئی چاند چڑھانے کو لگا ہو تو یہی ہوتا ہے۔ پھرسرِ آسماں کئی چاند چمک اٹھتے ہیں۔ اہلِ مذہب کا چاند اپنا ہے اور اہلِ سائنس کا اپنا۔ پوپلزئی صاحب کا اپنا ہے اور رویتِ ہلال کمیٹی کا اپنا۔ حکومت کا اپنا اورعلما کا اپنا۔ آسمان نہ ہوا، گزرگاہِ ہلال ہو گیا جہاں کئی چاند حسبِ خواہش طلوع ہوتے اور پلٹ جاتے ہیں۔ جس قوم کا چاند ایک نہ ہو، اس میں وحدتِ فکرکہاں ہوگی؟ دعویٰ یہ ہے کہ یہ سب کچھ قومی یک جہتی کیلئے کیاجا رہا ہے۔ کیا قوم کے بزعمِ خویش معماروں کوچاند چڑھانے کے سوا، قومی یکجہتی کاکوئی دوسرا نسخہ نہیں سوجھا؟
سنجیدہ سوالات دو ہی ہیں جو ہر سال اٹھتے اورزیرِ بحث آتے ہیں۔ نتیجہ مگر وہی ڈھاک کے تین پات۔ وہی مشق ہرسال کی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کوئی حکومت انتشار نہیں چاہتی مگرہر حکومت کیلئے اس سے گریزمحال ہے۔ فواد چوہدری صاحب بااختیار وزیر ہیں۔ رویتِ ہلال کمیٹی کی تشکیلِ نو کی جا چکی‘ اس کے باوصف نتیجہ وہی ہے۔
یہ دو سوال، تذکیر کیلئے درج ذیل ہیں:
1۔ اگر ریاست کی طرف سے کسی امرکا فیصلہ کردیا جائے تو عام شہری کی ذمہ داری کیا ہے؟
2۔ رویت ہلال مذہب کا مسئلہ ہے یا علمِ فلکیات کا؟
اگر حکومت یاریاست کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کردے توعام آدمی کے پاس صرف ایک راستہ ہے: اطاعت۔ اگرکسی کے نزدیک وہ فیصلہ درست نہیں ہے تواسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس پراعلانیہ تنقید کرے یا عدالت میں جائے‘ وہ مگراُسے ماننے کا پابند ہے۔ ریاستی نظم اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے۔ مسلمانوں کیلئے ان کے دین کا حکم بھی یہی ہے کہ صاحبانِ امر کی اطاعت کریں۔ اس میں البتہ ایک استثنا ہے۔ اگرریاست کوئی ایسا حکم دے جس کے بارے میں کسی کویقین ہوکہ وہ خدا کے حکموں کی صریح نافرمانی پر مبنی ہے تواسے ماننے سے انکار کیاجا سکتا ہے۔ انکار سے مراد بغاوت نہیں ہوتا۔
رویتِ ہلال کیلئے حکومت نے ایک ادارہ بنارکھا ہے۔ اس کے فیصلے کوتسلیم کیا جائے گا۔ جس طرح عام شہری کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کوقبول نہ کرے، اسی طرح حکومت کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ اس پردباؤ ڈالے اور اسے اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پرمجبور کرے۔ یہ دونوں رویے اخلاقی اعتبارسے یکساں نامناسب ہیں؛ تاہم اگر کبھی کمیٹی حکومتی دباؤ کے زیرِ اثر کوئی فیصلہ کرتی ہے تواس صورت میں بھی عام آدمی کوکمیٹی ہی کا فیصلہ ماننا ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جب کسی کو نماز کے لیے امام مقرر کر دیا جائے تواس کی امامت میں نماز ادا کی جائے گی۔ مقتدی امام کے اخلاق و کردار کا ذمہ دار ہے اورنہ اس کی عبادت پراُس کا کردار اثرانداز ہوگا۔ یہ البتہ مسجد کمیٹی یا مسئول ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ امام کا انتخاب کرتے وقت مطلوبہ معیار کو پیشِ نظر رکھے۔
رہا دوسرا سوال تورویتِ ہلال مذہب کا مسئلہ نہیں۔ اس کا تعلق علمِ فلکیات سے ہے۔ مذہب تو یہ بتائے گا کہ روزے کب رکھنے ہیں؟ کتنے رکھنے ہیں؟ کب روزہ بند کرنا اورکب کھولنا ہے؟ مذہب نے بتا دیاکہ فرض روزوں کیلئے ماہِ رمضان کوخاص کیا گیا ہے۔ اسی طرح یکم شوال کو عیدالفطر ہوگی۔ اب یہ بتانا مذہب کاکام نہیں کہ یکم رمضان کب ہے اور یکم شوال کب۔ بالکل ایسے ہی جیسے مذہب بتائے گاکہ غروبِ آفتاب کے وقت روزہ افطارکرنا ہے لیکن غروب کتنے بجے ہوگا، یہ بتانا مذہب کی ذمہ داری نہیں۔ کیلنڈر بنانا مذہبی سرگرمی نہیں ہے۔
ہمارے ہاں شعبان ہی میں سحروافطار کے اوقات پرمبنی کیلنڈر شائع ہوجاتے ہیں۔ ہر روزکسی عالم یا مفتی سے نہیں پوچھا جاتاکہ آج افطار کتنے بجے ہے۔ اسی اصول پر چاند کب نکلے گا، یہ علماکی کمیٹی نہیں بتائے گی۔ رسالت مآبﷺ نے اس باب میں جو ہدایات دی ہیں ان کا تعلق عقلِ عام سے ہے۔ چونکہ قمری مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے، اس لیے کہا گیاکہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو۔ تیس تاریخ کو یہ ضرورت اس لیے نہیں کہ اس دن مہینے کا اختتام یقینی ہے۔
جب کوئی بات یقینی ذریعہ سے معلوم ہوجائے تو پھرکسی قیاس یا احتمال کی بحث ختم ہو جاتی ہے۔ جو بات عقلِ عام کے پیشِ نظرکہی گئی لوگوں نے اسے دینی حکم مان لیا۔ اگریہ معاملہ اسی طرح ہوتا توپھر تیس کوبھی چاند دیکھنا ضروری ہوتا۔ ہم ایسا نہیں کرتے۔ جب انتیس رمضان کوچاند نہیں نکلتا تورویتِ ہلال کمیٹی اگلے دن دوبارہ اس کام کیلئے نہیں بیٹھتی بلکہ اسی دن اعلان کردیتی ہے کہ عید پرسوں ہوگی۔ کیوں؟ اس لیے کہ اسے یقین ہے کہ مہینہ تیس دن سے زیادہ کا نہیں ہوتا۔
اگر یہ معاملہ اتنا سادہ ہے تواختلافات کا یہ جنگل ہرسال کیسے اگ آتا ہے۔ اس کا جواب بھی سادہ اوریک لفظی ہے: طاقت۔ میرے خیال میں یہ دراصل دوطبقات کے مابین طاقت اوراقتدار کا جھگڑا ہے۔ ایک طبقہ اہلِ سیاست کاہے اوردوسرا اہلِ مذہب کا۔ جب مذہب کو غیر ضروری طور پر ریاستی اور سیاسی معاملات میں الجھایا جائے گاتو لازمی نتیجے کے طور پر ایک مفاداتی گروہ وجود میں آئے گا۔ پھراس گروہ کے انڈے بچے ہوں گے اوروہ کئی گروہوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ اقتدار میں اپنا حصہ مانگے گا۔ اگرنہیں دیا جائے گا تو اہلِ سیاست کو چیلنج کرے گا۔
پاکستان میں یہی ہورہا ہے۔ ریاست نے جب مذہب کو سیاستی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیاتو اہلِ مذہب کی طرف رجوع کیا۔ اب دنیا میں کوئی کام مفت میں نہیں ہوتا۔ جواباً اہلِ مذہب نے اقتدار میں حصے کا مطالبہ کیا۔ اسے مان لیاگیا۔ ہرحکومت نے انہیں شریکِ اقتدارکیا۔ جنرل ضیاالحق مرحوم نے اس عمل کو بامِ عروج تک پہنچادیا۔ مذہبی طبقات کو حکومت کا حصہ بنانے کیلئے نئے ادارے اور نئے مناصب قائم کیے گئے۔ رویتِ ہلال کمیٹی بھی اسی سوچ کا عملی اظہارہے۔
اس ریاستی حکمتِ عملی کی وجہ سے اہلِ مذہب اقتدار کے طلبگاروں میں شامل ہوگئے۔ اب وہ سیاسی جماعتوں کی طرح عوام میں موجوداپنے حلقہ اثرکو اپنی حیثیت منوانے کیلئے حسبِ ضرورت استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ شریکِ اقتدار نہیں ہوسکتے، وہ اپنا وجود ثابت کرنے کیلئے مذہبی معاملات میں ریاست کے بالمقابل کھڑے ہو جاتے ہیں۔
آج ان کی قوت کا یہ عالم ہے کہ ریاست ان کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیتی ہے۔ اس کا ایک مظہر ہم نے فیض آباد دھرنے میں دیکھا اور دوسرا رویتِ ہلال کے مسئلے پر۔ یہ دونوں واقعات اپنی حقیقت میں اس بات کا اعلان ہیں کہ ریاست نے اُن کی قوت کوتسلیم کرلیا ہے۔ ریاست جب کسی انتہا پسند گروہ کو عوامی سیاسی حلقے کا حصہ بنانے (mainstreaming ) کیلئے حیلے تلاش کرتی ہے تویہ دراصل ان کی قوت کا اعتراف ہوتا ہے۔ رویتِ ہلال کے معاملے میں بھی مفتی پوپلزئی نے ریاست سے اپنی قوت کو منوا لیا۔ سائنس منہ دیکھتی رہ گئی اورجنہوں نے چاند چڑھانا تھا، چڑھا دیا۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ گلیلیو کی سزا اگرزمین کو حرکت سے نہیں روک سکی تو ہمارے اہلِ مذہب چاند کو اپنی گرفت میں کیسے رکھ سکیں گے؟ ہمارا مسئلہ مگر سائنس نہیں، اقتدارہے۔ جب تک اہلِ مذہب مقتدر قوتوں کی ضرورت ہیں، ہمارے افق کا چاند، انہی کے اشارۂ ابرو کا منتظر رہے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved