قرض دینے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ مقروض ملکوں کو قرض دے کر ان ممالک میں من پسند حکومتیں بھی بنائی جا سکتی ہیں اور ان قرضوں کے عوض ایسی اقتصادی پالیسیاں بھی بنوائی اور چلائی جا سکتی ہیں جن سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو اور جن کا تمام تر فائدہ قرضے دینے والوں کو ہی پہنچے۔ قرضے دینے والے اس مجرمانہ خیانت میں شریک نہ ہوتے تو عوام کے نام پر لیا ہوا قرضہ چند افراد کے بینک اکائونٹس میں کبھی نہ پہنچتا۔ کون بتا سکتا ہے کہ گزشتہ 73 برسوں میں لیا گیا کھربوں ڈالر کا قرضہ کہاں جاتا رہا؟ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ یہ کہاں خرچ ہوا اور کہاں ہو رہا ہے؟ اس کے علاوہ نواز شریف دور میں عوام کے منجمد گیارہ ارب ڈالر (چھ سو ساٹھ ارب روپے) کا بھی کچھ پتا نہیں۔ موجودہ حکومت نے احتساب کا وعدہ کیا تھا لیکن احتساب کا جو حشر ہوا‘ اس کے بعد یہ عمل بھی مشکوک ٹھہرا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اس ملک کے عوام سے زیادہ غیر ملکی دبائو کے زیر اثر ہے۔ یہی حالات رہے تو عین ممکن ہے کہ احتساب کا پورا سلسلہ ہی اپنے اختتام کو پہنچے۔ قوم کو ان ظالمانہ قرضوں میں جکڑ کر نہ صرف یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارے قرضے مع سود واپس کرو بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تمہاری روٹی، روزگار اور توانائی منصوبوں کا فیصلہ بھی ہم کریں گے؛ چنانچہ آئی ایم ایف کے کہنے پر گیس، بجلی اور آٹے کے نرخ مقرر کیے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا حکم ہے کہ غریبوں کو مختلف مدات میں دی جانے والی رعایت ختم کر دو، کرنسی کی قیمت بھی کم کرو۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اپنے تمام ذرائع اور وسائل کثیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کر دو جبکہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم کرنے کے لیے سی ٹی بی ٹی کا سہارا بھی لیا گیا۔ کشمیر کے معاملے پر بھی ہمیں پسپائی پر مجبور کیا رہا ہے اور ان سارے معاملات کے لیے قرضوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمارے اقتصادی دانشوروں کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے قرضے دینے سے انکار کیا تو ہمیں ڈیفالٹ قرار دے کر دنیا میں تنہا کر دیا جائے گا، برآمدات نہیں ہوں گی، ایل سی (Letter of credit) نہیں کھلے گا۔ یہ دانش بھی ہمارے ہاں مغرب سے آئی ہے۔ میرے نزدیک یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ ہماری برآمدات ختم ہو جائیں گی۔ برآمدات کا سلسلہ چین، افغانستان، ایران اور دیگر اسلامی ممالک سے جاری رہ سکتا ہے جن پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ اس طرح ایک تجارتی بلاک وجود میں آ سکتا ہے۔ ہمارا سب سے زیادہ خرچ تیل پر ہوتا ہے جس کے بدلے ہم تیل پیدا کرنے والے ممالک کو چاول، گندم اور کپاس برآمد کر سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ لاطینی امریکا کے سولہ ملک خود کو ڈیفالٹ قرار دے چکے ہیں جس کے بعد ان کی معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے۔ جہاں تک تنہائی کا معاملہ ہے تو چین اور روس نے سیاسی طور پر تنہا ہو کر ہی ترقی کی۔ ہمارے اقتصادی ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہماری معیشت سنبھل رہی ہے، میری نظر میں یہ سفید جھوٹ ہے۔ عوام معاشی بدحالی اور بیروزگاری کے ہاتھوں خودکشی کر رہے ہیں، مہنگائی ناقابل برداشت ہو چکی ہے، بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتیں بار بار بڑھائی جا رہی ہیں، یہ کیسی معاشی ترقی ہے؟
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے آئی ایم ایف کے قرضوں کا حجم بھی از خود بڑھتا چلا گیا جس کو کم کرنے کیلئے حکمراں مزید قرض لینے پر مجبور ہوتے گئے جبکہ ان قرضوں سے پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ایکسپورٹ میں کوئی خاص اضافہ نہ ہو سکا۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چند برسوں کے اندر قرضے کی قسطیں ہمارے مجموعی بجٹ سے بھی بڑھ جائیں گی۔ پا کستان کی معیشت پر آئی ایم ایف سے حاصل کئے گئے قرضوں پر سود بتدریج بڑھ رہا ہے، مارچ 2019ء میں ہمارے بیرونی قرضے تقریباً 105 ارب ڈالر تک تھے جس میں 11.3 ارب ڈالر پیرس کلب، 27 ارب ڈالر دوست ممالک اور دیگر ڈونرز، 5.7 ارب ڈالر آئی ایم ایف اور 12 ارب ڈالر کے بین الاقوامی یورو اور سکوک بانڈز شامل ہیں۔ ہمارا آدھا سے زیادہ ریونیو قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی اور سماجی شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے فنڈز دستیاب نہیں۔ ملکی قرضوں کے باعث 2011ء میں ہر پاکستانی 46 ہزار روپے، 2013ء میں 61 ہزار روپے اور آج 1 لاکھ 81ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ معیشت کا احیا تو کجا‘ الٹا ہماری آزادی اور بقا خطرے میں ہے۔ دراصل یہ اقتصادی دانشور ایک سازش کے تحت ہمیں سمجھانے پاکستان آتے ہیں اور ہر بار ہمیں ایٹمی پروگرام، کشمیر اور دفاعی بجٹ میں کمی کرنے کی تلقین کرکے قرضوں کا سلسلہ دوبارہ چالو کرا دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقتصادی اور سیاسی تنہائی پاکستان کے حق میں خوش بختی کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ میرے یقین کے پیچھے ٹھوس دلائل ہیں:
1۔ ہم عالمگیر سودی نظام کی گرفت سے آزاد ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی امداد ہمیں حاصل ہو گی۔ ہم تمام جھوٹے سہاروں کو چھوڑ کر صرف اس کا دامن تھامیں گے تو وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ یاد رکھیں کہ ہمارے رسولﷺ نے شعب ابی طالب میں رہ کر اقتصادی مقاطعے کا سامنا کیا اور چند سالوں بعد جنگ احزاب میں دشمنانِ اسلام کی متحدہ قوت کو پسپا کر دیا۔
2۔ دنیا میں وہ تمام ممالک‘ جن کو سیاسی طور پر تنہا کیا گیا اور جن کے خلاف استعماری ملکوں نے اتحاد کیا‘ اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے۔ ان کے عوام کے خفیہ جوہر بروئے کار آئے۔ جاپان، روسن، چین اور ان گنت دوسرے ممالک کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ چین پاکستان کے بعد وجود میں آیا تھا، وہ آج کہاں کھڑا ہے؟ ایران، عراق، سوڈان اور لیبیا کو تنہا کیا گیا لیکن وہ سب باقی رہے، کیوبا ایک چھوٹا سا بے وسیلہ ملک ہے، اس کو تنہا رکھا گیا لیکن فیڈل کاستروکا بال تک بیکا نہ ہو سکا۔ پاکستان تو ایٹمی طاقت ہے، اسے تنہا رکھنا اول تو ناممکن ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو عین ممکن ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال برادر ممالک پاکستان کے قرضے اتارنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ وہ اگر مغرب کی افواج کو اربوں ڈالر کی تنخواہیں دے سکتے ہیں تو پاکستان کو اس مشکل سے نکالنے میں مدد کیوں نہیں کر سکتے؟
3۔ پاکستان میں قیادت کا بحران اس وجہ سے پیدا ہوا کہ استعماری طاقتوں نے ہماری آزادی پر کنٹرول قائم کیا اور اپنے ایجنٹ اور کرائے کے لیڈرز پاکستان پر مسلط رکھے جس وجہ سے عوام کو کوئی مخلص قائد نہ مل سکا۔ پاکستان تنہا ہو گا تو عوامی مزاحمت کی رہنمائی کرنے والی حقیقی قیادت ابھرے گی جو اپنے مفادات پر عوام کو قربان کرنے اور ان کا خون چوسنے کے بجائے اپنے جان و مال کی قربانی پیش کرے گی۔ ایسی حقیقی لیڈر شپ ہی پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے کی اہل ہو گی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ چین نے تنہائی اختیار کی تو اسے مائوزے تنگ اور چو این لائی جیسے بے لوث لیڈر ملے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ جن ممالک کو تنہا کیا گیا ان کے لیڈروں کا دورِ قیادت طویل تر ہے۔ چین کے مائوزے تنگ، شمالی کوریا کے کم آل سنگ، کیوبا کے فیڈل کاسترو اور لیبیا کے معمر قذافی اس کی مثال ہیں۔ ایران میں امام خمینی زندگی کے آخری سانسوں تک عوام کے دلوں میں زندہ رہے۔ اسی طرح صدام امریکا اور مغرب کی تمام تر مخالفت کے باوجود ڈٹا رہا۔ اس کے برعکس جو حکمران مغرب کے سامنے جھک گئے‘ ان کا دورانیہ چند سال کا تھا، چونکہ وہ اپنے آقائوں سے مخلص ہوتے ہیں اور قوم کے وفادار نہیں ہوتے، اس لیے قوم انہیں جلد ہی نظروں سے گرا دیتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں عزت و آبرو کا راستہ بند نہیں ہوا۔ میںاس مقصد کیلئے تحریک چلائوں گا۔ میری درخواست ہے کہ قومی ذرائع ابلاغ بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور عوامی رائے کو منظم شکل میں ابھاریں۔ میں ان شاء اللہ گھر گھر جا کر لوگوں سے کہوں گا کہ اگر ہم سسک سسک کر جینا نہیں چاہتے تو ہمیں قرضوں کی سازش کا شکار بننے سے صاف انکار کرنا ہو گا۔ قرضوں کے بوجھ تلے دب کر ہم نہ ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں اور نہ ہی آزادانہ پالیسیاں بنا سکتے ہیں۔ ہم کسی بھی طور اپنے ایمان، نظریے اور آزادی سے دستبردار نہیں ہو سکتے، ہمیں عزت سے جینا ہے تو عزت سے مرنے کیلئے بھی تیار رہنا ہو گا۔ ہمارے حکمرانوں کے سامنے دو ہی راستے ہیں، مغرب کے ساتھ کھڑے ہوں یا اپنی مظلوم مگر غیرت مند عوام کے ساتھ... درمیان کا راستہ کوئی نہیں۔ (ختم)