تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     18-05-2021

آہ! جنید اکرم

گزشتہ دنوں جنید اکرم کے رخصت ہو جانے کی خبر امریکہ میں ملی۔ مسافر کا دل ماضی کی گلیوں میں پہنچ گیا۔ میں مہ و سال اور سن و تاریخ یاد رکھنے کے معاملے میں بالکل فارغ ہوں تاہم واقعات کو ان کی ''ٹائم لائن‘‘ سے قطع نظر خوب یاد رکھتا ہوں اسی لیے مجھے اچھی طرح یاد نہیں؛ تاہم یہ پچیس سال کے لگ بھگ پرانی بات ہوگی جب میری پہلی بار جنید اکرم سے ملاقات ہوئی۔ یہ پنجاب کالج میں ہونے والا مشاعرہ تھا اور جنید اکرم اس مشاعرے کا مدارالمہام تھا۔ مشاعرہ فیروزپور روڈ کے ساتھ نہر کے کنارے پر واقع کالج کے سبزہ زار میں تھا میں ملتان سے اس مشاعرے میں شرکت کیلئے لاہور آیا تھا۔ جنید اکرم اس مشاعرے کا منتظم بھی تھا اور سٹیج سیکرٹری بھی۔ رواں گفتگو‘ برمحل اشعار اور سب شاعروں کے کلام کے بارے میں نپی تلی گفتگو‘ حیرانی ہوئی کہ اتنا منجھا ہوا سٹیج سیکرٹری اب تک نظروں سے کیسے اوجھل رہا۔معلوم ہوا کہ یہ شخص نہ صرف گفتگو بہت اچھی کرتا ہے بلکہ پنجابی کا بہت ہی خوبصورت شاعر بھی ہے مگر اس کی اس خوبی کا بھی بہت ہی کم لوگوں کو علم ہے۔ اور وہ عام شاعروں کی طرح موقع بے موقع اپنی شاعری سنانے جیسی قباحت سے بچا ہوا ہے۔ تبھی معلوم ہوا کہ اردو ادب کا پروفیسر جنید اکرم بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کا نواسہ ہے اور شہرہ آفاق فنکار سہیل احمد کا بھائی ہے۔ سہیل احمد تب صرف سہیل احمد تھے۔ ابھی وہ ''عزیزی‘‘ نہیں بنے تھے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ میرے لیے جنید اکرم کا سہیل احمد کا بھائی ہونا تو اتنا اہم نہ تھا جتنا کہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کا نواسہ ہونا۔ میرا ڈاکٹر فقیر محمد فقیر سے تعارف سہیل احمد کی نسبت پرانا بھی تھا اور پختہ بھی۔ میں ایف اے کرنے کے بعد جب بی اے میں اپنے لیے مضامین کا انتخاب کر رہا تھا تو علم ہوا کہ ملتان یونیورسٹی‘ جی ہاں! تب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کا نام ملتان یونیورسٹی تھا‘ بہاء الدین تو بعد میں تبدیل کر کے رکھا گیا، میری بی اے کی سند پر ملتان یونیورسٹی چھپا ہوا ہے جبکہ ایم بی اے کی سند بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کی جاری شدہ ہے۔ مضامین پر نظر دوڑائی تو اس میں پنجابی کا مضمون بھی نظر آیا‘ پتا چلا کہ یہ اسی سال پہلی بار بی اے کے اختیاری مضامین میں شامل کیا گیا تھا۔ میں نے کسی سے مشورہ کیے بغیر یہ مضمون رکھ لیا بعد میں مجھے اپنے اس انتخاب پر بڑی خوشی ہوئی۔ تب ایمرسن کالج میں پروفیسر محمد امین نقوی پنجابی کے لیکچرر تھے وہ بالکل نوجوان تھے اورینٹل کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بطور لیکچرر بھرتی ہو کر ایمرسن کالج میں پہلی بار پڑھانے پر مامور ہوئے تھے۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے‘ جوانی میں ہی رخصت ہو گئے۔ کیا شاندار استاد تھے۔ تب تین کتابیں ہمارا سلیبس تھیں‘ میاں محمد صاحب کی ''سیف الملوک‘‘ حافظ شاہجہاںمقبل کی ہیر اور نثر کی کتاب ''لہراں‘‘۔ یہ کتاب بارہ پندرہ افسانوں پر مشتمل تھی۔ اسے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے مرتب کیا تھا۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے بارے میں ہمارے پنجابی کے پروفیسر سید محمد امین نقوی نے ہمیں بڑی تفصیل سے بتایا۔امین نقوی صاحب نے بتایا کہ آج آپ جو یہ مضمون بی اے میں پڑھ رہے ہیں اس کا سارا سہرا بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے سر جاتا ہے جنہوں نے ''ماں بولی‘‘ کو بطور مضمون نصاب میں شامل کرنے کی غرض سے بڑی جدوجہد کی تھی۔ اس دوران انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے پنجابی کی کلاسوں کے اجرا کیلئے بھوک ہڑتال تک کی تھی اور ان کی مسلسل تحریک پر ہی یہ ممکن ہو سکا کہ اورینٹل کالج لاہور‘ جو پنجاب یونیورسٹی کا لسانیات اورمستشرقہ علوم کے واسطے مختص ادارہ ہے‘ میں ایم اے پنجابی کی کلاسز کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد پنجابی بطور مضمون بی اے کے نصاب میں شامل ہوا۔ میں بی اے میں پنجابی کا مضمون رکھنے والے اولین طلبہ میں سے تھا۔ وہیں میں نے آج سے پینتالیس چھیالیس سال پہلے بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کا نام سنا اور ان کے بارے میں جانا۔
قریب بیس سال بعد جنید اکرم کے حوالے سے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کا نام سنا تو یادوں کا ایک ریلا سا دل و دماغ میں ماضی کے جھروکے کھول کر داخل ہو گیا۔ ایمرسن کالج‘ پروفیسر محمد امین نقوی‘ ہیر مقبل‘ سیف الملوک‘ لہراں اور ڈاکٹر فقیر محمد فقیر۔ میں اُٹھا اور ایک بار صحت مند جنید اکرم سے ''گھٹ کر جپھی‘‘ ڈالی۔ جنید اکرم نے حیرانی سے پوچھا‘ خیر اے؟ میں نے اسے پنجابی میں کہا۔ پہلے والی جپھی جنید اکرم نوں پائی سی‘ ایہہ والی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر دے دوہترے نوں پائی اے (پہلے والی جپھی میں نے جنید اکرم کو ڈالی تھی اور یہ والی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے نواسے کو ڈالی ہے) گوجرانوالہ کی جم پل جنید اکرم دیکھنے میں بھی گوجرانوالہ کا ہی لگتا تھا۔ صحت مند‘ کھلا ڈلا‘ تکلف سے بھرا‘ یاروں کا یار اور خوش خوراک۔
چند سال بعد ملاقات ہوئی تو کافی کمزور دکھائی دیا‘ پتا چلا کہ گردوں کا عارضہ لاحق ہے اور ڈائیلسز کی ڈور سے زندگی کی ڈور بندھی ہوئی ہے لیکن مزاج میں وہی پرانی زندہ دلی‘ بے چینی‘ خوش خلقی‘ مہمان نوازی اور خلوص‘ میں نے ہنس کر پوچھا: خوش خوراکی کا کیا عالم ہے؟ ہنس کر کہنے لگا: گوجرانوالہ والوں کی عادتیں مرتے دم تک نہیں چھٹتیں۔ تب میں نے کہا: جنید اکرم! تم شعر سنانے کے معاملے میں ہمارے ایک اور دوست شاعر شرجیل انظر جیسے ہو۔ وہ بھی آپ کے گوجرانوالہ کے قریبی شہر وزیر آباد کا رہائشی ہے اور مشاعرے کا سٹیج سیکرٹری ہو کر بھی اپنا شعر نہیں سناتا۔ جنید اکرم ہنسا اور کہنے لگا: ایسی بھی کوئی بات نہیں آپ کی فرمائش بھلا کیسے روکی جا سکتی ہے۔ پھر جنید اکرم نے کافی دیر تک اپنے اشعار سنائے۔ پنجابی کے بیت‘ نظمیں‘ کافیاں اور تین سطری جاپانی صنفِ شاعری ہائیکو۔ بعد ازاں جنید اکرم کی شاعری کی کتاب ''پتن چنہاں دا‘‘ (چناب کا پتن) چھپ کر آ گئی۔ کتاب ملتان میں تھی اور میں یہاں امریکہ میں‘ پاکستان میں ڈاکٹر طاہر شہیر سے درخواست کی کہ کسی طرح ممکن ہو تو اس کتاب کو کسی طرح مجھے بھجوا دو۔ انٹرنیٹ کی سہولت کے طفیل ہمدم دیرینہ جنید اکرم کی شاعری یہاں امریکہ بیٹھے مل گئی ہے جس میں آپ کو اپنا شریک کر رہا ہوں۔ جنید اکرم کی رخصتی سے دوستوں کو تو جو صدمہ ہوا وہ اپنی جگہ پر ایک سانحہ ہے لیکن پنجابی شاعری کو جو نقصان ہوا وہ بھی تادیر محسوس ہوگا۔
مر کے تیریاں یاداں دل وچ چُبھیاں بن کے نوکاں
اُٹھ اُٹھ کے دل تدھ ول بھجے‘ پھڑ پھڑ اینہوں روکاں
سینے اندر پیار تیرے دے بھانبڑ مچ مچاندے
ایدھر اودھر بھجدا پھرنا وانگ شدائیاں لوکاں
مائے نی میں ماہی ماہی کو کاں/ عشقے دی اگ بجھدی ناہیں
ماراں سو سو پھوکاں/ مائے نی میں ماہی ماہی کوکاں
آ وسو میرے دل چ میری جان نبی جان
میں جان کراں آپؐ توں قربان نبی جان
راہ سدھا کتاب اللہ تے سنت ہے تہاڈی
یا ہور جیہڑے آپؐ دے فرمان نبی جان
جو آپؐ دے حکماں تے نہ چلّے اوہ ہے گمراہ
ایہو اے میرا دین تے ایمان نبی جان
نہیں ایس توں اُچی کوئی تعریف اوہناں دی
ہیں آپؐ سراپا جویں قرآن نبی جان
میں نے سوچا کہ غیر پنجابی قارئین کیلئے اس پنجابی شاعری کا اردو ترجمہ کر دوں لیکن بھلا ایسی شاعری کا ترجمہ کرنا کہاں ممکن ہے؟ سو معذرت !
جاتے جاتے جنید اکرم کا ہی ایک شعر جنید اکرم کی نذر
ٹھہر اوئے بھلیا لوکا فاتحہ پڑھدا جائیں
ساڈے لئی ایہہ تحفہ سبھ توں مہنگا اے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved