نبی اکرمﷺ کا دل اتنا وسیع اور حوصلہ اتنا بلند تھاکہ سمندروں اور ریگزاروں کی مثا لیں اور تشبیہات اس کے مقابلے انتہائی ہیچ معلوم ہوتی ہیں۔ آپﷺ نے سب کے لیے محبت بانٹی اور تمام عمر بانٹی۔ خود آپﷺ کو بھی محبت ملی لیکن یہ ظہورِ نبوت سے قبل تک کے دور میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔جونہی آپﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو جیسے زمانہ یکسر بدل گیا ہو۔ دنیا کا یہ سب سے بڑا انسان بدترین شقاوت و سنگدلی کا شکار ہوا۔جو ظلم کبھی کسی پر نہ ڈھایا گیا تھا وہ اس قدسی نفس، عالی مرتبت، رسول رحمتﷺ پر روا رکھا گیا۔ ظلم و ستم کے تیر اور جو رو جفاکے پتھر ہر جانب سے برستے رہے۔ طعن و تشنیع کے انگارے اور نفرت و عداوت کے شعلے بھی چاروں اطراف سے اپنے محاصرے میں لیے رہے مگر آپﷺ نے نہ کسی مشکل مرحلے میں حوصلہ ہارا، نہ ردِعمل میں کبھی کوئی ایسا کام کیا جو آپﷺ کے مقامِ رفیع سے فروترہو۔ اللہ کا ہر نبی عظیم و مقدس تھا مگر یہ آخری نبیﷺ اور آپ کا تقدس و عظمت! اللہ اللہ، یہ بے مثل ہے!
یہ مظالم اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہیں مگر اس میں شک نہیں کہ اعلانِ نبوت کے بعد جن لوگوں نے آپﷺکے ساتھ عقیدت و محبت اور شفقت و سرپرستی کا معاملہ کیا، ان کی تعداد بھی کم نہیں۔ آپﷺ سے چھوٹی عمر کے صحابہ کرامؓ تو کثیرتعداد میں تھے جن کی عقیدت کا مرکز آپﷺ ہی کی ذات تھی جبکہ چند ایک آپﷺ سے عمر میں بڑے بھی تھے جو آپﷺ سے بے مثال محبت اور پیار کرتے تھے۔ بچپن میں والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو دادا کے بعد سب سے زیادہ محبت چچا ابو طالب کی طرف سے ملی اور ان سے بھی زیادہ ان کی اہلیہ سیدہ فاطمہؓبنت اسد نے اس کا حق ادا کیا۔ چچی ہوتے ہوئے انہوں نے آپﷺ کی مامتا کے خلا کو پُر کیا جو غیر معمولی کارنامہ ہے۔ فاطمہ آپﷺ کی چچی تھیں لیکن آپﷺ کے دادا عبدالمطلب کی بھتیجی اور آپﷺ کے والد جناب عبداللہ کی چچا زاد بہن تھیں۔ یوں وہ آپ کی پھوپھی بھی لگتی تھیں۔
اس عظیم خاتون کو اللہ نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا، یہ بہت خوش نصیب تھیں کہ انہوں نے آپﷺ کے ساتھ شفقت کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان کی دولت پا کر درجہ صحابیت بھی حاصل کر لیا تھا۔ ان کے چاروں بیٹے اپنی اپنی خوبیوں کی بدولت سارے عرب میں معروف تھے اور ہمیشہ کے لیے تاریخ میں زندہ ہیں۔ طالبؓ، عقیلؓ، جعفرؓاور علیؓ، سبھی جید صحابہ کرام ہیں۔ ان کی بیٹیوں میں سب سے زیادہ معرو ف ام ہانیؓ ہیں جن کا اصل نام ہند بنت ابی طالب تھا۔یہ سب سے زیادہ معروف ہیں اور آنحضورﷺان کو انتہائی محبوب رکھتے تھے۔ وہ آنحضورﷺ سے حقیقی بہنوں کی طرح محبت کرتی تھیں اور آنحضورﷺبھی انہیں حقیقی بہن کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ آپﷺ کی 'مجازی ماں‘ فاطمہؓ بنت اسد کس اخلاق و کردار کی مالک تھیں اس کی گواہی آنحضورﷺنے ان کی زندگی میں کئی بار دی اور پھر ان کی وفات کے موقع پر بھی اسے دہرایا جس نے ان کو قابل رشک رتبۂ عالی سے نواز دیا۔
حضرت علیؓ کفر کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں میں رجزیہ اشعار پڑھتے تو اس میں اپنی والدہ کا تذکرہ بھی فرماتے۔ مثلاً آپؓ نے خندق اور خیبر کے معرکوں میں جو اشعار کہے ان میں یہ شعر بھی تھے:
أنا الذي سمتني أمي حیدرۃ
کاللیث غابات شدید القسورۃ
اکلیکم بالصاع کیل السندرۃ
میں وہ ہوں کہ میری ماں نے مجھے حیدر کا نام دیا ہے۔ جنگل کے شیروں میں سے شیرِببر جیسا بہادر! تم ناپ تول کر دوگے تو میں ناپے تولے بغیر بے حساب لوٹائوں گا۔
سیدہ فاطمہؓ بنت اسد نے شعبِ ابی طالب میں ازحد مشکل دور میں آپﷺ کا بھر پور ساتھ دیا۔ پھر آنحضورﷺ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ ہجرت کا اعزاز بھی حاصل کیا اور مکہ چھوڑ کر مدینہ منورہ میں مقیم ہو گئیں۔ یہیں انہوں نے 5 ھ میں وفات پائی تھی۔ اپنی زندگی میں جن مواقع پر آنحضورﷺ کی آنکھوں سے فرطِ غم سے سیلِ اشک رواں ہوا، ان میں ایک یہ موقع بھی تھا۔ آپﷺ نے اس روز سوگوار خاندان کے گھر میں موجود خواتین کے سامنے فرمایا'' یہ میری والدہ کے بعد میرے لیے ماں بن گئی تھیں۔ حقیقی ماں کی طرح میری پرورش کی۔ خود بھوکی رہتی تھیں مگر مجھے کبھی بھوکا نہیں رہنے دیا۔خود موٹا جھوٹا پہن لیتی تھیں مگر مجھے اچھی پوشاک فراہم کرتی تھیں‘‘۔ پھر کہا ''اے میری ماں!آپ کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔ اللہ آپ پر اپنی رحمتیں نازل کرے ‘‘۔
ابو طالب کے گھر میں آنحضورﷺنے جو خوش گوار وقت گزارا اس میں ابوطالب کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ کا حصہ بھی نمایاں نظر آتاہے۔ اپنے بچوں پر کسی یتیم رشتے دار کو ترجیح دینا معمولی بات نہیں مگر اس عظیم خاتون نے اس معاملے میں اعلیٰ ترین مثال قائم کر دکھائی۔ ان کے قبول اسلام سے آنحضورﷺکو جس قدر مسرت ہوئی تھی شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔ جب آپﷺ کی یہ مجازی ماں فوت ہوئیں تو آپﷺ نے جنت البقیع میں قبر کھودنے کی ذمہ داری اپنے میزبان حضرت ابو ایو ب انصاریؓاور دیگر صحابہ کرام کو سونپی۔ جب عمودی حصہ کھودا جا چکا تو لحد کا بغلی حصہ کھودنے کا کام نبی رحمتﷺ نے اپنے ہاتھ سے خود انجام دیا۔ آپﷺ اپنی محسنہ کا بدلہ اتارنے کی قابلِ تقلید مثال امت کے سامنے پیش فرما رہے تھے۔ لحد تیار ہو چکی تو آپﷺ خود اس میں لیٹ گئے اور بعض روایات کے مطابق وہیں لیٹے لیٹے آپﷺ نے خدا سے دعا مانگی:
اللھم اغفرلامی وارحمھا واجعل قبرھا روضۃ من ریاض الجنۃ ( اے اللہ! میری (مجازی)ماں کی مغفرت فرما، ان پر رحم فرما اور ان کی قبر کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنا دے)
اس منظر نے تمام صحابہ کرامؓپر ایک رقت آمیز کیفیت طاری کر دی تھی اور 58 سال قبل شروع ہونے و الے سفر کے بیتے ہوئے لمحات ان کی آنکھوں کے سامنے تازہ ہو گئے تھے جب ابو طالب کے گھر میں ختمی مرتبتﷺ کا بچپن اور لڑکپن پورے ناز و نعمت سے بیت رہا تھا، ماں باپ اگرچہ نہیں تھے مگر مشفق چچا اور رحیم چچی نے ان کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا تھا۔ آپﷺ نے اپنی محبوب ترین بیٹی فاطمہؓ بنت محمدﷺ حضرت علیؓکے عقد میں دینے کا جو فیصلہ کیا تھا اس میں خود حضرت علیؓ کا اپنا مقام و مرتبہ بھی وقیع اور قابل لحاظ تھا لیکن اس کے ساتھ ان کی والدہ فاطمہؓبنت اسد کا حسن سلوک بھی نمایاں عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔
دونوں ساس بہو میں بھی مثالی محبت و احترام تھا۔ آپﷺ ان کو فطوم (جمع فاطمہ) کہا کرتے تھے۔ مدینہ میں فقر و فاقہ کے دور میں ان دونوں عالی مرتبت صحابیات ؓنے صبروقناعت اور راضی برضا رہنے کی اعلیٰ مثال قائم کی۔
روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ آنحضورﷺنے حضرت فاطمہؓ بنت اسد کی وفات پر اپنا کرتا اتار کر انہیں پہنانے کے لیے دے دیا تھا۔ اس موقع پر آنحضورﷺکے اس قدر اظہارِ غم اور مرحومہ کے اکرام کے اہتمام پر صحابہ کرامؓ کچھ متعجب ہوئے تو آپﷺ نے ان کے مناقب بیان کرتے ہوئے فرمایا ''یہ وہ خاتون ہیں کہ میرے چچا ابو طالب کے بعد ان سے زیادہ میرے بچپن اور شباب میں میرے ساتھ شفقت، رحمدلی اور تعاون کسی اور نے نہیں کیا۔ مجھے امید ہے کہ میری والدہ کو قبر کی سختیوں میں اللہ کی طرف سے آسائش اور آرام فراہم کیا جائے گا‘‘۔
حضور پاکﷺ کی سیرت اور صحابہ کرامؓ کے حالاتِ زندگی ہمارے لیے منبع رشد و ہدایت ہیں۔ آپﷺ احسان شناس تھے اور یہی صفات صحابہ کرامؓ میں پائی جاتی تھیں۔ آپﷺ نے ایک فساد زدہ معاشرے کی مکمل طور پر کایا پلٹ دی تھی۔جہاں ظلم و عدوان کا دور دورہ تھا، وہاں عدل و احسان کا ماحول پیدا ہوا، جہاں قطع رحمی تھی وہاں صلہ رحمی کا چلن عام ہو گیا۔ ہر انسان دوسرے انسانوں کے لیے سراپا رحمت و اخوت بن گیا۔ نہ کسی کو کسی کے شر سے خوف تھا نہ لوٹ کھسوٹ کا خطرہ باقی رہا۔ آج امت مسلمہ کو وہی ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ ہمارے دکھوں کا مداوا لندن اور واشنگٹن، جنیوا اور بیجنگ میں نہیں بلکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ہے۔ ہماری عافیت اپنی عظیم الشان تاریخ اور عالی مقام اسلاف سے جڑ جانے میں ہے۔ ہمارا دشمن ہمیں ہمارے ورثے سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ آئیے! ہم عہد کریں کہ نوجوان نسل کو اپنی زریں تاریخ سے مربوط کر نے کی سر توڑ کوشش کریں گے۔