ہم آپشنز کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ یہ کہنے کو بہت اچھی بات ہے مگر در حقیقت بہت بڑا دردِ سر ہے۔ ہمیں یومیہ بنیاد پر یا پھر پوری زندگی کے لیے کوئی نہ کوئی ہدف ضرور طے کرنا ہوتا ہے۔ ایسا کیے بغیر بسر کی جانے والی زندگی غیر متوازن رہتی ہے۔ آپشنز کی بھرمار ہماری سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پر خاصی اثر انداز ہوتی ہے اور بسا اوقات ہم طے نہیں کر پاتے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ اِس شش و پنج میں اچھا خاصا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر کو یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ ایک چیز کیا ہے جس پر پوری توجہ مرکوز رکھنا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم الجھے ہوئے رہتے ہیں اور وقت ضائع ہوتا رہتا ہے۔ ہمیں کامیابی کیلئے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں‘ اِس موضوع پر ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں۔ گیری کیلر اور جے پاپاسن نے بھی ''دی ون تِھنگ‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھ کر اُن لوگوں کی رہنمائی کی ہے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، کچھ بننے کی آرزو رکھتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کو غیر معمولی محنت کرنے پر بھی پھل نہیں مل پاتا یا پھر مرضی کا نتیجہ نہیں نکلتا؟ بات سیدھی سی ہے، ہمیں بھرپور کامیابی کیلئے کسی ایک معاملے میں انہماک کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ کوئی اختیاری کام نہیں، یہ تو کرنا ہی کرنا ہے۔ کوئی ایک شعبہ یا معاملہ منتخب کرکے پورے انہماک کے ساتھ اُسے پانے کی راہ پر گامزن ہو جانا ہی کامیابی تک پہنچنے کا بہترین طریقہ ہے۔ مذکورہ کتاب کا ایک بنیادی سبق یاد رکھیے، کامیاب وہی کہلاتے ہیں جو کم محنت کرکے زیادہ پھل پاتے ہیں۔ یہ خود غرضی یا دھوکا دہی کا نہیں بلکہ ذہانت اور معاملہ فہمی کا معاملہ ہے۔ ہمیں چند امور کا خاص خیال رکھنا ہے تاکہ وقت، توانائی اور وسائل کا ضیاع نہ ہوں، مثلاً یہ طے کرنا لازم ہے کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔ ''ڈومینو ایفیکٹ‘‘ کو سمجھنا بھی ناگزیر ہے۔ تین بڑے جھوٹ ایسے ہیں جن سے بچنا لازم ہے۔ کامیابی کیلئے یہ بھی سمجھنا لازم ہے کہ استعداد کس طور بروئے کار لائی جاسکتی اور بڑھائی جاسکتی ہے۔ وہ کون سے تین چور ہیں جو ہمارا وقت، توانائی اور وسائل تینوں کو چُرانے میں تساہل سے کام نہیں لیتے۔ سب سے پہلے یہ نکتہ ذہن نشین کرلیجیے کہ کوئی ایک شعبہ منتخب کیے بغیر آپ کچھ نہیں پاسکتے۔ بیک وقت کئی کام کرنے سے صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ آپ دو خرگوش بیک وقت نہیں پکڑ سکتے۔ ہاں، ایک کو پکڑنے کے بعد دوسرے کو پکڑنا آسان ہو جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر یہ نکتہ سمجھ لیجیے کہ کوئی بھی کام چھوٹا تو ہوسکتا ہے، غیر اہم نہیں ہوتا۔ بہت سے چھوٹے کام مل کر بہت بڑا نتیجہ پیدا کرتے ہیں۔ ہر کامیاب انسان آپ کو بتائے گا کہ کس طور اُس نے چھوٹے چھوٹے کاموں سے بہت کچھ پایا اور کچھ بن پایا۔
ہمیں کئی ایسی باتوں سے بچنا ہے جن کی کوئی بنیاد نہیں یعنی وہ محض جھوٹ ہیں۔ ایک بڑا جھوٹ یہ ہے کہ تمام کام برابری کی بنیاد پر اہم ہوتے ہیں اور کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا نہیں ہے! بہت کچھ ایسا ہے جو ہمیں چھوڑ دینا ہے۔ جس کام سے ہمارا کوئی تعلق نہ بنتا ہو اور جو ہمیں مطلوب نتائج کا معیار بھی بلند نہ کرتا ہو اُسے ترک کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ بہت سوں کے ذہن میں یہ تصور گھر کرگیا ہے کہ بیک وقت کئی کام کیے جاسکتے ہیں۔ ذہن ایک وقت میں ایک ہی چیز میں منہمک ہوسکتا ہے۔ آپ بیک وقت دو کھیل نہیں کھیل سکتے۔ بیک وقت دو چیزیں کھانے سے آپ کسی ایک سے بھی پوری لذت کشید نہیں کرسکیں گے۔ زندگی کا ہر معاملہ آپ سے پوری توجہ چاہتا ہے۔ اِسے مبادیاتِ کامیابی میں سے سمجھیے۔ ہم میں سے بہت سے اس گمان کا شکار بھی رہتے ہیں کہ مکمل متوازن زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ ایسا بھی بالکل نہیں ہے۔ زندگی اتار چڑھاؤ کا نام ہے۔ اس کے لیے ہر وقت ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ غیر معمولی کامیابی کیلئے کمفرٹ زون سے نکل کر کچھ یا بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اِسے کسی نہ کسی مقصد کے تحت بسر کیا جائے۔ اگر کوئی بڑا مقصد ذہن نشین رہے تو استعدادِ کار بڑھ جاتی ہے اور انسان بہت محنت کرنے پر بھی تھکتا نہیں اور دیگر سرگرمیوں کے لیے بھی وقت نکال لیتا ہے۔ یاد رکھیے، بعض معاملات کو یکسر نظر انداز کرنے کا نام متوازن زندگی بسر کرنا نہیں ہے۔ ہر ضروری چیز کا کسی نہ کسی حد تک خیال رکھنا ہی پڑتا ہے۔
کامیابی کیلئے تحریک پیدا کرنے کی نیت سے لکھنے والے عموماً اِس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ انسان کو کسی نہ کسی مقصد کے تحت زندگی بسر کرنی چاہیے۔ واضح مقصد کے بغیر کی جانے والی محنت تاریک کمرے میں بلی تلاش کرنے جیسا معاملہ ہوتا ہے۔ ترجیحات کا تعین بھی لازم ہے۔ آپ کو اچھی طرح طے کرنا ہے کہ کب کیا کرنا ہے۔ ایسا نہ ہو تو تمام معاملات الجھ کر رہ جائیں گے اور حاصل بھی کچھ نہ ہو پائے گا۔ ایسے ہر کام سے گریز کیجیے جو آپ کا انہماک متاثر کرے۔ آپ کو اپنی شخصیت کی اَپ گریڈیشن پر بھی متوجہ رہنا ہے۔ آپ کی کام کرنے کی صلاحیت بڑھتی رہنی چاہیے۔ سوال صرف زیادہ محنت کرنے کا نہیں بلکہ بہتر نتائج کا حصول یقینی بنانے کا بھی ہے۔ ایسا صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب آپ خود کو زیادہ بارآور بنانے کے لیے منصوبہ سازی کریں۔ وقت کے ضیاع سے بچنے کیلئے روزانہ خود سے پوچھنا چاہیے کہ اب کیا کِیا جائے کیا نہ کیا جائے۔
اب آئیے اس بات کی طرف کہ تین بڑے چور کون سے ہیں جو آپ کے وقت اور توانائی دونوں ہی کو لے اُڑنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ پہلا چور ہے انکار سے گریز کی عادت! ہم عمومی سطح پر انکار کرنے سے ڈرتے ہیں کہ لوگ بُرا مان جائیں گے۔ جس کام سے آپ کا کوئی تعلق نہ ہو اور وقت بھی ضایع ہوتا ہو اُس سے گریز ہی کیا جانا چاہیے۔ آپ کو ہر حال میں صرف متعلق اور بارآور کاموں پر متوجہ رہنا ہے۔ صحت کے حوالے سے لاپروائی بھی آپ کا بہت کچھ لے اُڑتی ہے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ بھرپور کامیابی کیلئے دن رات محنت کرنے اور صحت کو نظر انداز کرنے سے بھی آپ کے لیے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ زیادہ کامیابی کیلئے رات بھر جاگنا اور پھر نیند پوری نہ کرنا گھاٹے کا سودا ہے۔ ایسے میں کچھ حاصل ہو بھی جائے تو اُس سے بھرپور حِظ کشید نہیں کیا جاسکتا۔ کامیابی یقینی بنانے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے مناسب یا موزوں ماحول کا میسر نہ ہونا۔ ماحول میں اہلِ خانہ، احباب، معاشرہ، فطری ماحول یعنی موسم وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ اگر آپ کے ارد گرد ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہیں جو آپ کو کامیابی کیلئے کوشاں رکھنے میں معاون ثابت نہیں ہو رہے تو اُن سے فاصلہ اختیار کیجیے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ صرف کامیاب افراد سے ملیے، اُن سے گفتگو کیجیے تاکہ کچھ کرنے کی تحریک ملے، خوب پڑھیے، آڈیوز سُنیے، وڈیوز دیکھیے، مباحثوں میں شرکت کیجیے تاکہ کام کرنے لگن توانا رہے۔ کامیابی کی راہ پر بڑھنے کیلئے بنیادی ضرورت ہے لگن کا برقرار رہنا۔ بہت سے لوگ اچھی صحت اور نمایاں رجحان ہونے کے باوجود خود کو کسی بڑے مقصد کیلئے محض اس لیے تیار نہیں کر پاتے کہ اُن میں ایسا کی لگن نہیں پائی جاتی۔ نئی نسل کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ بھرپور کامیابی پہلے نمبر پر لگن مانگتی ہے۔ کام کرنے کی شدید خواہش ہر وقت موجود رہنی چاہیے۔ حالات ہم پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں اور ہم کبھی کبھی کام کرنے کی بھرپور خواہش کے باوجود کچھ زیادہ نہیں کر پاتے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ہم لگن کے معاملے میں مات کھا جاتے ہیں۔
گیری کیلر اور جے پاپاسن کی محنت کا نچوڑ یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کریں پورے انہماک کے ساتھ کریں۔ مثالی نوعیت کا انہماک ہی ہمیں کچھ دے پاتا ہے اور ہم کچھ کر پاتے ہیں۔ یہ وصف پیدا کرنا، پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ اگر آپ نے کچھ بننے اور کچھ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے تو انہماک کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائیے یعنی بنیادی مقصد سے توجہ کبھی نہ ہٹے۔ باقی سب زیبِ داستاں کیلئے ہے۔