تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     19-05-2021

ہمارے علاقے کا کسان تو خوش ہے

یہ جو میڈیا میں خبریں آتی ہیں کہ زراعت کا برا حال ہے پتا نہیں اِن کا موجد کون سی صورتحال بنتی ہے۔ نہری علاقوں کا تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا، اُن کی جانکاری اتنی نہیں رکھتا لیکن ہمارے بارانی علاقوں کا حال اِتنا خراب نہیں جتنا کہ اکثر اوقات میڈیا میں پیش کیا جاتا ہے۔ ایک عمومی بات تو یہ ہے کہ شہر کووِڈ بیماری کی وجہ سے بند ہو سکتے ہیں لیکن دیہاتوں میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں چلتا۔ دکانوں کے شٹر نیچے کئے جا سکتے ہیں لیکن کھیتوں کو آپ کیسے بند کریں گے؟
دوسری بات یہ ہے کہ جو بارانی علاقوں کی کیش کراپس ہیں یعنی وہ فصلیں جن سے کسان کے ہاتھ میں کچھ پیسے آتے ہیں‘ اُن کی قیمتیں ٹھیک رہی ہیں۔ ہمارے علاقوں کی ایک بڑی کیش کراپ تو مونگ پھلی ہے۔ پچھلے سال سیزن میں مونگ پھلی کی فصل اچھی نہیں تھی لیکن قیمت 6000 تا 7000 روپے فی من کے لگ بھگ تھی۔ وافر بارشوں کی وجہ سے فصل کمزور رہی لیکن جو تھوڑی بہت فصل ہوئی اُس کی قیمت مناسب ملی۔
دوسری بڑی پیسہ دینے والی فصل اب گندم ہو گئی ہے۔ اِس دفعہ اُس کی پیداوار بھی ٹھیک ہوئی اور قیمت بھی مناسب ہے۔ سرکاری ریٹ اٹھارہ سو روپے فی من ہے لیکن کسانوں نے جب فصل اٹھائی تو گھروں سے دو ہزار روپے فی من کے ریٹ پہ خریدنے والوں کی کوئی کمی نہیں رہی۔ گندم کی کاشت کے وقت میں اپنے گاؤں بھگوال میں ہی تھا اور دیکھا کہ فصل گھروں میں آئی نہیں اور آس پاس کے گاہک خریدنے کیلئے پہنچ گئے۔ دو ہزار روپے فی من کے ریٹ پہ لگے ہاتھوں خریدنے والوں کی کوئی کمی نہیں یعنی یہ ریٹ ہمارے دیہاتوں میں اب عام ہے۔
میں خود نہایت ہی چھوٹا زمیندار ہوں۔ دو تین زمین کے ٹکڑوں پہ اپنی ضرورت کی گندم گاشت کرتا ہوں۔ پچھلے سال جو تیس چالیس بوریاں ضرورت سے زیادہ کاشت ہوئیں اُنہیں بیچنے کیلئے کسی مڈل مین یعنی آڑھتی سے رجوع کرنا پڑا۔ اِس دفعہ جو تھوڑی بہت وافر گندم ہے وہ ابھی پاس ہی پڑی ہوئی ہے‘ لیکن بیچنے کا ارادہ بنے تو کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گھر سے خود ہی لوگ اُٹھا کے لے جائیں گے۔ کچھ تو بیوپاری گندم کی خریداری کرتے ہیں لیکن ہمارے دیہاتوں میں یہ رواج عام ہے کہ غیر کاشتکار لوگ بھی فصل کے وقت کوشش کرتے ہیں کہ سال کے دانے خرید لئے جائیں تاکہ کم از کم گندم کی فکر نہ رہے۔ پچھلے سال ویسے بھی گندم کا ریٹ چڑھ گیا تھا‘ یعنی بازار میں سرکاری ریٹ سے کہیں زیادہ آٹے کی قیمت ہو گئی تھی۔ اِسی وجہ سے اِ س دفعہ دیہاتوں میں یہ خیال عام رہا کہ وقت پر ہی گندم کی خریداری کرلی جائے۔
اگر ہمارے شہری بابو بھی اِس رواج کی طرف دھیان دیں تو اُن کیلئے بہت اچھا رہے گا۔ فلور ملوں کا آٹا‘ جو بازار میں دستیاب ہوتا ہے‘ وہ تو ویسے ہی ایک بیماری ہے‘ اُس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ آپ کسی بڑے ہوٹل میں بھی چلے جائیں گرما گرم تنور کی روٹی ہوتو بڑی اچھی لگتی ہے لیکن جونہی تھوڑی ٹھنڈی ہوئی تو اُس میں اور چمڑے میں زیادہ فرق نہیں رہ جاتا۔ یہ روٹی بازار کے آٹے کی ہوتی ہے اور اگر کوئی شہری بابو اپنی گھریلو ضروریات کیلئے یہی آٹا استعمال کرے تو اسے بدقسمتی کے سوا اورکیا کہا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اِس پیغام کو پھیلانے کی ضرورت ہے کہ گندم کی فصل کے کاشت کے وقت جو شہری بابو ہمت کرسکیں‘ اُنہیں قریب کے دیہاتوں کی طرف جانا چاہئے اور اپنی سال کی ضرورت کی گندم اُٹھا لینی چاہئے۔ پرانے وقتوں میں بھڑولے یعنی جن میں گندم رکھی جاتی ہے مٹی کے ہوتے تھے۔ وہ تو اب تقریباً ناپید ہیں۔ آج کل کے بھڑولے ٹین کے ہوتے ہیں اور بازاروں میں عام دستیاب ہیں۔ کوٹھی والا ہو یا اڑھائی مرلے گھر کا مالک، گھر میں ایک بھڑولہ ضرور خرید کے رکھنا چاہئے‘ جس میں اٹھارہ سے بیس من گندم آجائے۔ جیسے عرض کیا دو ہزار روپے فی من گندم ہمارے علاقوں میں عام مل رہی ہے۔ مثال کے طور پہ اسلام آباد کے مکین ہوں، اُن کو چکری یا بلکسر کی طرف نکل آنا چاہئے اور جہاں کوئی تعلق ہو یا کسی گائوں میں پہنچ سکیں وہاں سے اپنی سال کی ضرورت کی گندم اٹھا لینی چاہئے۔ ایسا کریں تو سکھی رہیں گے۔ صحت پہ بھی برا اثر نہ پڑے گا۔
ویسے تو انسان طرح طرح کی دوڑ دھوپ میں سرگرداں رہتا ہے لیکن خوش رہنے کیلئے کچھ اِتنا زیادہ سامان بھی درکار نہیں۔ سال کے دانے ہوں، دو یا تین ماہ کا انتظامِ شب ہو، ایک کمرے میں اے سی لگا ہو اور کرسی کے ساتھ میز پہ اچھی موسیقی سننے کا انتظام ہو تو انسان کو اور کیا چاہئے۔ آج کل ایک اور بات بھی اچھی ہے جس کا ذکر میڈیا میں کم ہی سننے کو ملتا ہے۔ پیاز ٹماٹر مناسب دام پہ مل رہے ہیں۔ ہمارے دیہاتوں میں پھیری لگانے والے عام پھرتے ہیں۔ رکشہ یا سوزوکی پہ دُھوتو لگایا ہوتا ہے اور ٹماٹر پیاز گلیوں میں بیچ رہے ہوتے ہیں۔ میری ریاضی چونکہ کمزور ہے‘ مجھے قیمتوں کا زیادہ اندازہ نہیں لیکن آس پاس کے لوگ بتاتے ہیں کہ سبزیوں کا ریٹ بہت اچھا ہے۔ آپ پھر سوچئے کہ دانے گھر کے ہوں، شام ڈھلے بھی اتنی دقت درپیش نہ ہو، ٹماٹر پیاز بھی مناسب قیمت پہ دستیاب ہوں اور بیٹھنے کی کوئی جگہ ہو جہاں سے آسمان نظر آرہا ہو تو پھر رونے کیلئے اور کیا رہ جاتا ہے۔ ہاں کچھ پنشن وغیرہ ہونی چاہئے جس سے خرچہ چلے۔ گھر کے دانے اور ضروریاتِ شب تب ہی میسر ہوسکتی ہیں جب خرچہ چلانے کیلئے تھوڑا بہت انتظام ہو۔ ایک اور بات ضروری ہے۔ کھٹارا ہی سہی لیکن مملکت خداداد میں اپنی سواری کا ہونا لازمی ہے چونکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا حال ہم سب جانتے ہیں۔ یعنی گھر سے نکلنا ہو تو کسی چھت کے نیچے یا کسی ٹوٹے پھوٹے کمرے میں ایک گاڑی ہونی چاہئے، چاہے کھٹارا ہی کیوں نہ ہو۔
البتہ یہ بات بھی ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ سفر کی خواہش بھی کم ہو جاتی ہے۔ اپنی مثال دوں تو اب لاہور کے سفر کا جی اِتنا نہیں چاہتا۔ چند ہفتے پہلے لاہور گئے تو صرف ایک مقصد کیلئے کہ جو ضروری اشیا سٹاک کرنا پڑتی ہیں اُن کو حاصل کیا جائے۔ وہ آسانی ہمارے لئے اسلام آباد میں اتنی نہیں۔ اسلام آباد میں ویسے ہی دونمبری بہت ہے اور قیمتوں کا تو مت ہی پوچھئے۔ ہمارے ملک صاحب جو اِن معاملات سے کب سے منسلک ہیں اور جن کی شہر میں مشہوری خاصی ہے‘ اُن کا اعتبار بھی دل سے اٹھ گیا ہے۔ اِس لئے لاہور پہ ہی تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ جہاں تک شاموں کی دیگر مصروفیات ہیں اُن کا انحصار اب لاہور پہ نہیں رہا۔ لاہور جانے اور اُس کی روشنیا ں جانیں۔ ہم نے تقریباً انہیں خیرباد کہہ دیا ہے۔ اب تکیہ چکوال اور اسلام آباد پہ ہی ہے اور یقین مانئے تکیہ اِتنا برا بھی نہیں۔ بہرحال جس حال میں بھی انسان ہو گزارہ کرنا چاہئے۔
ایک ہمارے شیخ صاحب ہیں موسیقی کے بہت دلدادہ ۔ نہایت ہی محدود قسم کی موسیقی کی محفلوں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ گزشتہ دنوں موسیقی کی محفلوں کے سلسلے میں بریک آئی۔ اب اگر سلسلہ پھر شروع ہوتا ہے اور کوئی دعوت آئے تو دیکھ لیں گے‘ لیکن یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آج کے آرٹسٹ نہایت ہی بیہودہ موسیقی پہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اِس بیہودگی پہ بھی اُنہیں داد دینے والوں کی کمی تو نہیں ہوتی لیکن ہمارا اجڑا ہوا دل اس معیار کی موسیقی سے مزید بیزار ہو جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved