تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     19-05-2021

حبیب جالب: ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم …(آخری قسط)

ضیاء الحق کے دور کا ایک اہم واقعہ ریفرنڈم تھا۔یہ ریفرنڈم دراصل قوم کے ساتھ ایک بھونڈامذاق تھا ۔عام لوگوں کی اکثریت نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن نتیجہ تو پہلے سے ہی تیار ہو چکا تھا۔ یوں ریفرنڈم میں اسلامی اصلاحات کی حمایت میں 98.5 فیصدووٹ آئے تھے جس کے نتیجے میں ضیاء الحق نے پانچ سال کے لیے اپنے اقتدار کی مدت میں اضافہ کر لیا ۔حبیب جالب نے ریفرنڈم کی اصلیت کا پول اپنی نظم ریفرنڈم میں یوں کھولا:
شہر میں ہُو کا عالم تھا جِن تھا یا ریفرنڈم تھا
قید تھے دیواروں میں لوگ باہر شور بہت کم تھا
کچھ باریش سے چہرے تھے اور ایمان کا ماتم تھا
مرحومین شریک ہوئے سچائی کا چہلم تھا
ضیاء الحق کے دور میں بھٹو کو قتل کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دراصل عدالتی قتل تھا۔اس وقت بھٹو کے دونوں بیٹے ملک سے باہر تھے ایسے میں بے نظیر بھٹو نے احتجاج کا پرچم اٹھایا۔ اس موقع پر جالب نے بے نظیر کیلئے نظم لکھی جو آناً فاناً گلیوں محلوں میں پھیل گئی ۔ نظم کا آغاز اس طرح سے تھا:ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے /پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے۔
اس نظم نے بے نظیر کے لیے ملکی سطح پر ہمدردی کے جذبات پیدا کر دیے تھے لیکن پھر جب بے نظیر حکومت میں آ گئیں اور عوام کی کسمپرسی کا عالم وہی رہا تو جالب چپ نہ رہ سکا اور بول اٹھا:
وہی حالات ہیں فقیروں کے دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
اب جالب کا دمِ آخریں قریب آ رہا تھا ۔ پاکستانی سیاست میں مزاحمت کا سب سے روشن چراغ ٹمٹما رہا تھا ۔ وہ جس کی شاعری نے کتنے ہی دلوں کو ولولہ ٔ تازہ دیا تھا ‘وہ جس کی جمہوریت کے لیے قربانیاں ہمیشہ یاد رہیں گی‘ وہ جس نے گھر کی آسائش کیے بجائے عام لوگوں کے مفادات کے لیے جدو جہد پر توجہ دی۔ جالب کو کیا پتہ تھا کہ اس کے بعد بھی اس کی شاعری کی تپش لوگوں کے دلوں کو گرماتی رہے گی اور مزاحمت کے قافلوں کی پیشوائی کرتی رہے گی ۔ جب پرویز مشرف کے زمانے میں ججوں کو گھر بھیج دیا گیا تو عدلیہ بحالی تحریک چلی اس تحریک کا حصہ بننے کے لیے حبیب جالب موجود نہیں تھے کیونکہ اس سے پہلے ان کا انتقال ہو چکا تھا ‘ لیکن ان کا کلام اس تحریک کا ترانہ بن گیا ۔ ریلیاں شروع ہو گئیں جن میں وکیلوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے لوگ بھی شریک ہوتے۔ لندن میں احتجاجی ریلیوں میں شاہرام اور تیمور (لال بینڈ)جالب کے کلام سے دلوں کو گرماتے تھے۔ احتجاجی ریلیوں میں شاہرام کی دل نشیں آواز میں ''دستور‘ ‘، ''مشیر‘‘ اور جالب کی دوسری نظموں نے ایک سماں باندھ دیا تھا ۔ عدلیہ بحالی تحریک کامیاب ہو گئی‘ تحریک کی کامیابی میں دوسرے عوامل کے علاوہ جالب کی انقلابی نظموں کا بھی حصہ تھا۔ یہ ہے زندہ کلام کی تاثیر جو کبھی پرانانہیں ہوتا‘ جو ہر دور میں مظلوموں ‘ محنت کشوں اور مفلسوں کی دل کی آواز بن جاتا ہے۔ اس کلام میں جالب کی ذاتی جدوجہد کی روشنی بھی شامل تھی۔ جالب ہر دور میں جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا لیکن وہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی ترجمانی پوری ایمانداری سے کرتا رہا۔ جس نے قوم کے لیے اپنے گھر اور پیاروں کو فراموش کر دیا‘ جس کی موت کے بعد اس کے گھر والے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہو گئے ۔ جس کی بیٹی طاہرہ ٹیکسی چلاتی ہے لیکن شاید ہر با اصول شخص کا مقدر یہی ہوتا ہے۔حبیب جالب کی کہانی نئی نہیں۔ازل سے ابد تک انسانی تاریخ کی یہی داستان ہے ۔ وہی جبر کی سیاہ رات‘ وہی تعزیر کی تیز ہوا ئیں اور وہی ان ہواؤں سے الجھتے مزاحمت کے چراغ۔ جالب بھی ایک ایسا ہی چراغ تھا جو عمر بھر منہ زور حکمرانوں سے الجھتا رہا۔ جو آمریت کی سیاہ رات میں امید کی روشن کرن تھا اور جس کی روشنی جبر کی راتوں میں امید کی راہیں اجالتی رہے گی۔
اب جالب کی صحت ایک گرتی ہوئی دیوار تھی اسے لاہور کے شیخ زید ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔نقاہت نے جالب کو بستر سے لگا دیا تھا لیکن اس عالم میں بھی وہ ذہنی طور پر چوکس اور مستعد تھا۔ معروف صحافی مجاہد بریلوی راوی ہیں کہ جب جالب ہسپتال میں تھے تو نواز شریف کی حکومت تھی انہی دنوں نواز شریف نے ایک جلسے میں عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں آپ کے لیے جان بھی دے دوں گا‘ جالب نے بستر پر لیٹے لیٹے ایک نظم لکھی جس کا مطلع تھا:
نہ جاں دے دو نہ دل دے دو
بس اپنی ایک مل دے دوـ
ہسپتال کی طویل راتوں میں جب جالب تنہا ہوتا تو اسے ان سب ہم سفروں کا خیال آتا جنہوں نے جمہوریت کے لیے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا تھا ۔پھر اسے اپنی زندگی کے وہ سارے مرحلے یاد آ جاتے جب ایک جنون اس کی زندگی کا زادِ راہ تھا اورجب وہ جمہوریت کی نیلم پری کے تعاقب میں بہت دور نکل گیا تھا۔ پھر اسے اپنی نظم ''جمہوریت نہ آئی‘‘کا ایک بند یاد آ گیا اور اس کے چہرے پر ملال کا رنگ چھا گیا۔نظم کی سطر سطر میں اداسی جھلک رہی تھی:
بنگال بھی گنوایا/ اپنا ہی خوں بہایا /دار و رسن سے کھیلے /پاپڑ ہزار بیلے/محنت نہ رنگ لائی /جاں رات دن کھپائی/ جمہوریت نہ آئی
تب رات کے گھپ اندھیرے میں اسے ایک بہت پرانی بات یاد آ گئی اور اس کے چہرے پر خود بخود مسکراہٹ پھیل گئی۔اسے وہ دن یاد آ گیا جب پولیس اسے ہتھکڑیاں لگا کر اس کے گھر لائی تھی تا کہ وہ اپنی ضبط شدہ کتاب بر آمد کرائے۔ ایسے میں اس کی ننھی سی معصوم بیٹی باپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑی دیکھ کر ہنس پڑی تھی ۔ شاید وہ ہتھکڑی کو کھلونا سمجھی تھی۔جالب کو اس موقع پرلکھی ہوئی اپنی نظم یاد آ گئی:
اس کو شاید کھلونا لگی ہتھکڑی
میری بچی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی
یہ ہنسی تھی سحر کی بشارت مجھے
یہ ہنسی دے گئی کتنی طاقت مجھے
کس قدر زندگی کو سہارا ملا
ایک تابندہ کل کا اشارہ ملا
ہسپتال کے بستر پر لیٹے لیٹے جالب کی نظروں کے سامنے سے ماضی کے سارے منظر گزر گئے ۔ اس نے سوچاکیسا کٹھن راستہ تھا لیکن کیسا دل ربا سفر تھا جب وہ ایک خواب کی انگلی پکڑ کر چل رہا تھا۔ اسے اپنا ایک شعر یاد آگیا جو زندگی کے سفر میں اس کا منشور رہا۔ نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں /چراغ ہم نے جلائے وفا کے رستے میں۔اس کے چہرے پر اطمینان اور تشکر کی روشنی پھیل گئی۔ پھر اس کی آنکھیں خود بخود مندنے لگیں ۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی چاندنی اترنے لگی اور ایک نئی سحر کی بشارت اس کی بند ہوتی ہوئی آنکھوں میں ہلکورے لینے لگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved