راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کی انکوائری بنیادی طور پر اس الزام کی تحقیق ہے کہ رنگ روڈ کے نقشے میں تبدیلی کچھ افسروں نے اپنے من پسند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی۔ فرض کیا کہ یہ الزام درست ہے تو پھر اس کا ثبوت کہاں ہے؟ تینتیس صفحوں کی اس انکوائری میں بہت سی باتیں ہیں‘ مگر وہ چیز جس پر ثبوت کا حکم لگایا جائے کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ہاں، اتنا پتا چلتا ہے کہ امکانی طور پر نقشے میں تبدیلی کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب کی اجازت لینی چاہیے تھی جو نہیں لی گئی۔ یہ واقعی ایک الزام ہو سکتا تھا اگر اس تبدیلی کی منظوری دینے والا کوئی فرد واحد ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر سے لے کر ڈپٹی کمشنر اٹک تک آٹھ محکموں کے درجنوں افسروں کے ہاتھ سے اس منصوبے کی فائل گزری، کئی درجن اجلاس ہوئے اور ڈیڑھ سال میں اس تبدیلی کا فیصلہ ہوا۔ فیصلے کے بعد راولپنڈی اور اٹک میں یہ سڑک بنانے کے لیے زمینیں بھی خرید لی گئیں جو اس وقت حکومت کی ملکیت بن چکی ہیں۔ چونکہ اس دوران علاقہ پٹواری سے لے کر وزیراعظم کے دفتر تک سبھی کسی سحر کے زیر اثر تھے اس لیے ہوش آیا تو اس وقت جب یکم مارچ کو اخبار میں اس منصوبے کا نقشہ بطور سرکاری اشتہار کے شائع ہوا۔ حکومت کی چابکدستی کی داد دیجیے کہ اس نے کرپشن بھی پکڑی تو اس وقت جب ملزمان نے خود اخبار میں اشتہار دیا۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ اگر اس تبدیلی شدہ نقشے پر کوئی اعتراض تھا تو اسے ایک نیا اجلاس بلا کر دور کر لیا جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وزیر اعظم کے نزدیک پائے جانے والوں میں سے ایک بڑی دیر سے اس انتظار میں بیٹھا تھا کہ وہ غلام سرور خان، زلفی بخاری کمشنر راولپنڈی محمد محمود سے اپنا حساب برابر کرے۔ اس نے اپنا کام شروع کیا اور صحافیوں کے ایک خاص گروہ کے ذریعے اس نقشے کو بنیاد بنا کر غلام سرور خان اور زلفی بخاری کے خلاف خبریں پھیلانا شروع کر دیں۔ پھر انہی خبروں کی بنیاد پر وزیر اعظم کو ایک کہانی سنانے لگا۔ اس کے ساتھ دو سرکاری افسر بھی مل گئے جو اس مکمل جھوٹی کہانی کے گواہ بنے اور تفتیش کا آغاز ہو گیا۔ اس سے پہلے کمشنر راولپنڈی کو ہٹوا دیا گیا اور ان کی جگہ ایسے شخص کو لایا گیا جو آزمودہ کار تھا تاکہ من مرضی کی رپورٹ لکھوائی جا سکے۔ یہ صاحب اس وقت گوجرانولہ کے کمشنر تھے جب ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ جب یہ معاملہ الیکشن کمیشن نے اٹھا لیا تو انہیں تبدیل کردیا گیا۔ اب چونکہ ڈسکہ الیکشن کا معاملہ ٹھنڈا پڑ چکا ہے تو اسی آزمودہ کار کو راولپنڈی میں کمشنر لگایا گیا۔ ان صاحب نے مرضی کی رپورٹ تو دے دی لیکن کھنڈت ڈپٹی کمشنر اٹک اور ایڈیشنل کمشنر راولپنڈی نے ڈالی کہ ان دونوں نے انکوائری کمیٹی کا حصہ ہونے کے باوجود اس رپورٹ پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔
غلام سرور خان اور زلفی بخاری سے حساب چکانے کے لیے سرکاری انکوائری کا کھیل شروع ہوا تو وزیر اعظم کے دفتر کے اس تین کے ٹولے کو کچھ نہ مل پایا۔ اب ظاہر ہے وزیر اعظم کو کچھ تو بتانا تھا لہٰذا ''ملزموں‘‘ کو بلائے بغیر یکطرفہ رپورٹ لکھی گئی جس میں زلفی بخاری کی شہباز شریف کے سابق سیکرٹری سے دور دراز کی رشتے داری کو بنیاد بنا کر شکوک و شبہات پیدا کیے گئے اور غلام سرور خان کی وزارت سے متعلق ایک این او سی کو بنیاد بنا لیا گیا۔ یہ این او سی بھی وہ تھا جو انکوائری کے نوٹیفکیشن کے بعد جاری ہوا‘ گویا تین کا ٹولہ پہلے سے فیصلہ کر چکا تھا کہ غلام سرور خان کو کسی بھی طرح پھنسانا ہے۔ اس ٹولے کو پوری کوشش کے بعد جو ملا وہ بس یہ تھا کہ ایک شاہ صاحب کے خاندان کی زمین رنگ روڈ کے اس سرے کے قریب ہے جو اسلام آباد پشاور موٹروے سے جڑتا ہے۔ انکوائری میں یہ نکتہ نہایت سہولت کے ساتھ چھپا لیا گیاکہ ان صاحب کے خاندان کے پاس یہ زمین دو صدیاں پہلے بھی موجود تھی اور زلفی بخاری کی اس خاندان کے ساتھ رشتے داری کے باوجود اتنی عداوت ہے کہ نوبت مقدموں تک پہنچی ہوئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تین کا ایک ٹولہ غلام سرور خان، زلفی بخاری اور محمد محمود کو پھنسانا چاہتا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے آپ کو یاد کرنا ہو گا کہ غلام سرور خان وہ پہلے وزیر تھے جنہوں نے غیرمنتخب لوگوں کی وزیر اعظم کے دفتر میں غیرمعمولی رسائی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ پھر ان کا یہ قصور بھی ہے کہ یہ جہانگیر ترین کے ساتھ تحریک انصاف میں آئے تھے۔ جہانگیر ترین کا بھی یہی قصور تھا کہ وہ تین کے اس ٹولے کو محدود کرنا چاہتے تھے۔ اسی ٹولے میں سے ایک نے چینی کا معاملہ اٹھایا، دوسرے نے وزیر اعظم کو بتایا کہ جہانگیر ترین ایک متوازی حکومت چلا رہے ہیں اور تیسرے نے بتایا کہ وہ وزیر اعظم کی نجی زندگی کے بارے میں تبصرے کرتے ہیں۔ اس سازش کو جہانگیر ترین سے اسد عمر کی رنجش کا تڑکا لگا تو وزیر اعظم نے چینی انکوائری کا حکم صادر کر دیا۔ اس انکوائری کے لیے واجد ضیا صاحب میسر آ گئے۔ زلفی بخاری کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ تین کے ٹولے میں سے ایک نے کسی کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو زلفی بخاری نے قبضے کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ وہ صاحب جو خود کو راولپنڈی کا سب سے بڑا آدمی سمجھنے لگے تھے، زلفی بخاری کے دشمن ہو گئے۔ اس کے علاوہ یہ مسئلہ بھی تھا کہ زلفی بخاری پر وزیر اعظم کا گہرا اعتماد بھی خود کو بڑا سمجھنے والے کے حسد کی آگ بھڑکا رہا تھا۔ سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ان پٹواریوں اور تحصیل داروں کو بدل ڈالا تھا جو زمینوں پر قبضہ کرنے میں تین کے اس ٹولے کا ساتھ دیا کرتے تھے۔ تین بار ایسا بھی ہوا کہ پٹواریوں اور تحصیل داروں کے معاملے میں خان صاحب کے دوستوں کو بھی کمشنر کے پیچھے کھڑا ہونا پڑا۔
راولپنڈی رنگ روڈ، چینی پر سبسڈی، آٹا اور پٹرول پر وزیر اعظم کی مداخلت پر پانچ انکوائریاں ہو چکی ہیں۔ یہ سبھی انکوائریاں شائع بھی ہوئیں لیکن ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں جو قانون کی عدالت میں ادنیٰ سے وکیل کے اٹھائے ہوئے سوالات کا بوجھ اٹھا سکے‘ البتہ ایک بات ان انکوائریوں میں مشترک ہے کہ ہر ایک کا آغاز دھیمے سروں کی خبروں سے ہوتا ہے۔ پھر ان خبروں میں شدت آتی ہے، وزیر اعظم انکوائری کا حکم دیتے ہیں اور پہلے سے چھپی ہوئی جھوٹی سچی خبریں سرکاری فائل میں پہنچ کر حقائق کا روپ دھار لیتی ہیں۔ جب انہی حقائق کے ثبوت مانگے جاتے ہیں تو وزیر اعظم کی فکرِ احتساب کی آڑ لے کر ثبوت مانگنے والے کو رسوا کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یوں تو پاکستان میں عام طور پر سرکاری انکوائری اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگانے کا دفتری طریقہ ہے‘ لیکن موجودہ دور میں انکوائری فقط سوال اٹھانے والوں پر قابو پانے کا حربہ بن چکی ہے۔ جس نے سرجھکا لیا اس کی انکوائری دب گئی اور جس نے سر جھکانے سے انکار کردیا اس کے خلاف یہی بے معنی انکوائری مقدموں کی بنیاد بن گئی۔
راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کی انکوائری نے کرپشن کے بارے میں تو یہ ثابت کردیا ہے کہ تحریک انصاف کوئی نیا منصوبہ بنانا تو دور کی بات بنے بنائے منصوبے پر بھی عمل نہیں کر سکتی۔ اس کے اندر ایک دوسرے کے خلاف پائی جانے والی دشمنیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ اب کوئی بھی سرکاری مشینری کو بھی اپنے مخالف کے خلاف استعمال کرنے سے نہیں چوکتا۔ بیوروکریسی کا ہر شخص پہلے وزیروں مشیروں کی نالائقی سے تنگ تھا‘ آج ان کی آپس کی چپقلش سے نالاں ہے اور اس رنگ روڈ منصوبے کی انکوائری کے بعد خوفزدہ بھی کہ نجانے کب کوئی ترقیاتی منصوبہ اس کے لیے پھندا بن جائے۔ ظاہر ہے اس خوف کی فضا میں کوئی بھی اس حکومت سے خیر کی توقع نہیں رکھ سکتا۔