تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     19-05-2021

یہود کی کج روی

گزشتہ چند دنوں سے مظلوم فلسطینیوں کے حوالے سے مختلف طرح کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ مظلوم فلسطینی عرصۂ دراز سے یہود کے ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق ملنا تو بڑی دور کی بات‘ اُن کا جینا دوبھر کیا جا چکا ہے۔ آئے دن نہتے فلسطینی عوام پر گولا باری کی جاتی ‘ نوجوانوں کے سینوں میں گولیوں کو اُتار دیا جاتا‘ معصوم بچوں کو لہو میں غسل دیا جاتا‘ بوڑھوں کا استحصال کیا جاتا اور ماؤں بہنوں کی حرمت کو تار تار کیا جاتا ہے۔ یہود کے اس منظم ظلم کے خلاف عالم عرب اور مسلم اُمت اس انداز میں پیش قدمی کرتی ہوئی نظر نہیں آتی جس انداز میں اُنہیں اس اہم اور حساس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہودی اپنی تنظیم، ٹیکنالوجی اور وسائل کے اعتبار سے اگرچہ بہت منظم ہیں لیکن اُمت مسلمہ کے مجموعی وسائل، صلاحیتوں، توانائی اور عسکری قوت کے مقابلے میں یہود کی طاقت انتہائی کم ہے؛ تاہم یہ نہایت افسوسناک امر ہے کہ مسلمان حکمران اِس معاملے کو اُمت کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے عام طور پر قومی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یہود کے انحراف اور فتنہ پروری کی تاریخ بہت طویل ہے ۔ مدینہ طیبہ میں نبی کریمﷺ کی تشریف آوری کے بعد یہود نے نبی کریمﷺ اور اہلِ اسلام کے خلاف مسلسل سازشیں کرنے کی کوشش کی؛ تاہم اُنہیں اس حوالے سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہود کی سرکشی کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں بہت سے اُمور کی نشاندہی کی ہے۔ یہودکی بداعتقادی کی انتہا تھی کہ وہ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا بیٹا کہا کرتے تھے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت 30میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور کہا یہودیوں نے ''عزیر‘‘ اللہ کا بیٹا ہے اور کہا نصاریٰ نے ''مسیح‘‘ اللہ کا بیٹا ہے یہ بات ہے اُن کے مونہوں کی‘ وہ مشابہت کرتے ہیں (ان لوگوں کی) بات کی جنہوں نے کفر کیا (ان) سے پہلے‘ غارت کرے اُنہیں اللہ کہاں وہ بہکائے جا رہے ہیں‘‘۔
حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہنے کے ساتھ ساتھ نسلی تفاخر کا شکار یہود اپنی قوم اور نسل پر اس حد تک فخر کیا کرتے تھے کہ اپنے آپ کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کا بیٹا اور محبوب قرار دیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر سورہ مائدہ کی آیت 18میں کچھ اس انداز میں فرمایا ہے :''ا ور کہا یہودونصاریٰ نے‘ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے پیارے ہیں (ان سے) کہیں تو (پھر) کیوں وہ عذاب دیتا ہے تمہیں تمہارے گناہوں کے بدلے، بلکہ تم انسان ہو ان میں سے جو اس نے پیدا کیے ہیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہودکی بداعتقادی کے حوالے سے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں سونے اور چاندی کو پگھلا کر بنائے جانے والے مصنوعی بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا تھا۔ اس سے قبل جب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اُنہیں ایک بچھڑے کوذبح کرنے کا حکم دیا تو وہ اس بات پر عمل کرنے کے بجائے مختلف لیت ولعل سے کام لیتے رہے اور مختلف طرح کی حجتیں پیش کرتے رہے۔ بالآخر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والے مسلسل احکامات کے بعد وہ چار و ناچار گائے کو ذبح کرنے پر آمادہ وتیار ہو گئے حالانکہ وہ دلی طور پر اس کام پر راضی نہ تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کے برے انجام کے حوالے سے سورہ اعراف کی آیت 152 میں اس امر کا اعلان فرمایا : ''بے شک جن لوگوں نے (معبود) بنایا بچھڑے کو‘ عنقریب پہنچے گا اُنہیں غضب اُن کے رب کی طرف سے اور ذلت دنیوی زندگی میں اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں بہتان باندھنے والوں کو‘‘۔
یہود شانِ الوہیت میں گستاخیوں کا ارتکاب بھی کرتے رہے۔ (معاذ اللہ )اللہ تبارک وتعالیٰ کے خزانوں کی وسعت کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ کو تنگ دست قرار دیتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کی ہرزہ سرائی کو سورہ مائدہ کی آیت 64میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے : ''اور یہودیوں نے کہا: اللہ کا ہاتھ تنگ ہے (حالانکہ) تنگ تو ان کے (اپنے) ہاتھ ہیں اور لعنت کی گئی اُن پر اس وجہ سے جو انہوں نے کہا بلکہ اُس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں وہ خرچ کرتا ہے جس طرح وہ چاہتا ہے ‘‘۔
یہود کا یہ گمان تھا کہ نبی آخر الزماںﷺ آلِ اسحاق علیہ السلام سے مبعو ث ہوں گے لیکن جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی آخر الزماںﷺ کو آلِ اسماعیل علیہ السلام سے مبعوث کیا تو وہ رسول اللہﷺ کی عداوت پر ہی آمادہ نہیں ہوئے بلکہ حضرت جبریل علیہ السلام سے بھی بغض کا اظہار کرنے لگے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہود کی اس بے جا عداوت اور دشمنی کی قرآن مجید میں بھرپور انداز میں مذمت کی ۔ سورہ بقرہ کی آیات 97 اور 98میں ارشاد ہوا: ''کہہ دیجئے جو دشمن ہے جبریل کا (تو یہ اُس کی سرکشی ہے) پس بے شک اس نے (تو) اُسے اتارا ہے آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے‘ (یہ قرآن) تصدیق کرنے والا ہے ان کی جو اس سے پہلے (کتابیں گزری) ہیں اور ہدایت ہے (اس میں) اور خوشخبری ہے مومنوں کے لیے۔ جو دشمن ہے اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسولوں اور جبرئیل اور میکائیل کا تو بے شک اللہ (بھی) دشمن ہے کافروں کا‘‘۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ادوار میں یہود پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے انعامات کیے اُن پر من وسلویٰ کا نزول کیا ‘ اُن پر بادلوں کو سایہ فگن کیا‘ اُن کے لیے پتھروں سے چشموں کو رواں کیا لیکن اس کے باوجود وہ کفرانِ نعمت کے راستے پر چلتے رہے اور اُنہوں نے آسمانی رزق کے بجائے زمین سے رزق کا مطالبہ کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کو ہفتے کے دن شکار کرنے سے روکا لیکن وہ حیلے سے ہفتے کے دن مچھلیوں کو روک کر اتوار کے دن اُن کو پکڑتے رہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے متعدد احکامات کو پامال کرنے والے یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حکم کی تعمیل کرنے کے بجائے آپؑ کی نافرمانی کرتے رہے ۔ جب ارضِ مقدس میں داخلے کا وقت آیا تو انہوں نے جہاد سے پس قدمی کو اختیار کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو سورہ مائدہ کی آیات 21تا 24 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''(موسیٰ علیہ السلام نے کہا) اے میری قوم! داخل ہو جاؤ ارضِ مقدس میں‘ جسے لکھ رکھا ہے اللہ نے تمہارے لیے اور نہ پھر جانا اپنی پیٹھوں کے بل تو تم لوٹو گے نقصان اُٹھانے والے بن کر۔ انہوں نے کہا: اے موسیٰ ! بے شک اس میں زبردست قوم (رہتی ) ہے اور بے شک ہم ہرگز داخل نہیں ہوں گے اس میں یہاں تک کہ وہ نکل (نہ) جائیں اس سے پس اگر وہ نکل جائیں اس سے تو بے شک ہم داخل ہوں گے۔ کہا: دو آدمیوں نے اُن میں سے جو ڈرتے تھے (اللہ سے) (اور) اللہ نے انعام کیا ان دونوں پر‘ داخل ہو جاؤ ان پر دروازے سے (اور حملہ کر دو) پس جب تم داخل ہو جاؤ گے اس سے توبے شک تم غالب ہو گے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اگر ہو تم مومن۔ انہوں نے کہا: اے موسیٰ ! بے شک ہم ہرگز نہیں داخل ہوں گے اس میں کبھی بھی جب تک وہ ہیں اس میں‘ پس جا تُو اور تیرا رب پس تم دونوں لڑو بے شک ہم یہاں بیٹھے ہیں ‘‘۔
یہود کے قابل مذمت افعال میں سے جہاں دیگر بہت سے قابلِ نفرت اُمور شامل ہیں وہیں پر یہود نے آیت اللہ کو جھٹلایا ، انبیاء کرام اور نیکی کا حکم دینے والوں کو شہید کیاجس کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن پر ذلت اور مسکنت کو مسلط کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت 61میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور مسلط کر دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی اور وہ لوٹے اللہ کاغضب لے کر وہ اس وجہ سے کہ وہ انکار کرتے تھے اللہ کی آیات کا اور نبیوں کو قتل کرتے تھے ناحق، اس وجہ سے جواُنہوں نے نافرمانی کی اور وہ تھے حد سے تجاوز کرتے‘‘۔
یہود کی بد اعتقادی اور بدعملی کی طویل تاریخ کے ساتھ ساتھ دور حاضرمیں اُن کا ظلم دیکھ کر ہر مسلمان اپنے دل میں کسک کو محسوس کرتا ہے ۔ ایسے عالم میں جہاں پر یہود کے ظلم کا سدباب کرنے کے لیے تمام اسلامی ممالک اور اہل عرب کو ایک پالیسی وضع کرنی چاہیے وہیں پر اس حقیقت کا بھی ادراک کرنا چاہیے کہ یہود کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں پہلے ہی بتلا دیا تھا کہ یہ اہلِ ایمان کے بدترین دشمن ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت 82میں ارشاد فرماتے ہیں: ''البتہ ضرور پائیں گے آپ (دوسرے) لوگوں سے زیادہ سخت دشمنی میں ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے ہیں‘ یہودیوں کو اور اُن لوگوں کو جنہوں نے شرک کیا ‘‘۔
حالیہ ایام میں فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے ہر حساس مسلمان کے دل میں یہود کے بارے میں شدید تلخی اور نفرت موجود ہے لیکن مسلمان حکمران اس موقع پر صحیح معنوں میں اُمت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کرنے سے قاصر نظر آ رہے ہیں۔ اگر مسلمان حکمران اس مسئلے کواُمت کی سطح پر حل کرنے کے لیے مضبوط لائحہ عمل اپنائیں تو یقینا یہود کو پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ‘ فلسطینیوں کی سیاسی حیثیت کوبحال کیا جا سکتا ہے اور بیت المقدس کو پنجہ یہودیت سے بازیاب کروایا جا سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمان حکمرانوں کو اس حوالے سے ٹھوس لائحہ عمل اپنانے کی توفیق دے، آمین !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved