تحریر : ڈاکٹر اختر شمار تاریخ اشاعت     08-07-2013

قاہرہ… مُرسی اور انقلاب کی یادیں

ہمیں یاد ہے حسنی مبارک کے اقتدار سے الگ ہوتے ہی مصر کے شہر خوشی کے نعروں سے گونج اٹھے تھے ، تمام رات خوشیوں کے شادیانے بجائے جاتے رہے۔اگلے روز مٹھائیوں کی دکانوں پہ رش دیکھ کر یوں لگا جیسے مٹھائی مفت مل رہی ہو۔ ہم نے ہر طرف لوگوں کو ایک دوسرے کے گھروں میں مٹھائیوں کے ڈبے اٹھائے جاتے دیکھا۔ ہر چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا،بہت سے نوجوان گلیوں ، بازاروں اور چوراہوں میں رقص کر رہے تھے ۔ ایک نوجوان نے ہمیں بتایا کہ اگلے روز تحریر چوک میں پہلی بارکھل کر اس نے کسی صحافی سے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ گزرے تیس برس میں کسی کو اپنی زبان کھولنے کی جرأ ت نہ تھی۔ آمرانہ حکومت کے خاتمے کے اگلے روز ہی مصریوں نے تحریر چوک کی صفائی شروع کر دی تھی۔ صبح کے وقت کئی اساتذہ ( خواتین و حضرات) اپنے سکول اور کالجوں کے طلبا و طالبات کے ہمراہ جھاڑو ، بیلچے اور برش لیے‘ ہاتھوں پر دستانے چڑھائے ، قاہرہ کی گلیوں اور بازاروں کو صاف کررہے تھے۔ میدانِ تحریر اٹھارہ دنوں تک ایک چھوٹی سی خیمہ بستی کا روپ دھارے ہوئے تھا۔ ہر مکتبۂ فکر کے لوگ اپنی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہے تھے ۔ آرٹسٹ اور پینٹر ز ایک کونے میں اپنا ہنرآزما رہے تھے ، نوجوان آرٹسٹ بینرز پر نعرے لکھنے میں مصروف نظر آتے، ایک کونے میںڈاکٹروں کی ٹیم ، زخمی اور بیمار مظاہرین کے علاج میں مصروف تھی ۔اسی میدان میں اخبارات و رسائل کے لیے جگہ مختص تھی جہاں تازہ ترین خبریں، پمفلٹ، تازہ اخبارات اور ضمیمے موجود تھے۔ ایک سٹال پر، پہلے روز پولیس جھڑپوں کے نتیجے میں مظاہرین کی کھو جانے والی قیمتی اشیاء موجود تھیں۔یہاں بٹوئوں ،کارڈوں، چابیوں ، مبائلوں ،کیمروں اور گھڑیوں کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا۔ یہ چیزیں ابتدائی ہنگاموں میں لوگوں سے کھو گئی تھیں۔ لوگ اس سٹال سے اپنی اشیاء پہچان کر حاصل کر رہے تھے۔ کھانے پینے کے اسٹالز سے لے کر ، نماز تک کے لیے مختلف جگہیں مختص تھیں۔ چھوٹے چھوٹے خیموں میں لوگ اپنے کمبلوں ، رضائیوں اور چٹائیوں سمیت اٹھارہ روز تک میدان تحریر کی اسی بستی میں پڑے رہے اور با لآ خر اٹھارہ روز کا پرامن مثالی احتجاج رنگ لایا اور مصری عوام نے فتح پائی۔ اس دوران میں دیگر سڑکوں پر ٹریفک رواں رہا ، کچھ روز بعد بنک بھی کھل گئے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی سپلائی بھی جاری رہی… لیکن… ا ٓج اسی میدان ِ تحریر میں مصری آپس میں دست و گریبان ہیں۔وجہ یہ ہے کہ مُرسی کے حمایت اور مخالفت کرنے والے دو گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ہم مصر میں پانچ برس قیام کے بعد اسی برس جنوری میں واپس آئے ہیں۔ہم نے آخری بار تحریر چوک کو اس روز دیکھا جب وہاں اپنے ایک دوست کو ملنے گئے تھے ۔ اس وقت بھی میدان تحریر میں اِکا دکا خیمے نصب تھے۔ وہاں کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی اشیاء کی چھوٹی چھوٹی دکانیں اور کھوکھے بنے ہوئے تھے۔ الیکشن کے بعد کئی بار ان خیموں کو پولیس نے زبردستی ختم کرایا مگر میدان تحریر کے عادی اس مقام سے ہلنے کا نام نہیں لیتے ۔ ہم اخوانی صدر مُرسی کی حکومت کے خاتمے کی خبریں دیکھ رہے ہیں اور انقلاب کے دنوں کو یاد کر رہے ہیں ۔ہم نے ان دنوں بھی اپنے کالموں میں لکھا تھا کہ: ’’مصری پہلی بار جمہوریت کا مزہ چکھ رہے ہیںاورتیس سال کے جبر اور گھٹن کے بعد آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں ۔ حسنی مبارک کے دور میں سیاست پر کوئی شخص لب کشائی نہیں کرتا تھا۔ حسنی کو تخت سے اتارنے کے بعد مصری آپے سے باہر ہوگئے ہیں۔ان کا خوف کسی حد تک ختم ہو گیاہے ۔ ویسے بھی اب ان کا ’’جھاکا‘‘ کھل گیا ہے۔ انہیں احتجاج میں مزہ آرہا ہے ،اب تو وہ ذرا ذرا سی بات پر میدانِ تحریر کا رخ کر لیا کریں گے‘‘۔ اور پھروہی ہوا‘ تقریباً باون فیصد ووٹ لے کر منتخب ہونے والے صدر کے خلاف کچھ عرصہ بعد ہی احتجاجی جلسے شروع ہو گئے۔ مرسی ایک شریف النفس انسان ہیں۔ انہوں نے پہلے معمر جنرل طنطاوی سے نجات حاصل کی۔ مگر اس کے باوجود عدلیہ میں حسنی مبارک کی باقیات نے انہیں چین سے رہنے نہ دیا۔ وجہ یہ بھی تھی کہ مرسی بھی مصری عوام کی کثیر تعداد کی طرح اسرائیل کا دوست نہیں۔ عوام اسرائیل کو سستی گیس دینے کے حق میں نہیں نہ ہی وہ اسرائیل سے کسی امن معاہدے کے حامی ہیں۔ مصر کا معاشی دارومدار امریکی امداد ، نہر سویز اور کچھ سیاحت و زراعت پر ہے۔ مرسی ترکی کے نظام کو پسند کرتے ہیں ۔ مرسی کا ایران سے تعلق کی بحالی کا معاملہ بھی بعض بڑی طاقتوں کو پسند نہیں آیا۔ غریب طبقہ مرسی کو پسند کرتا ہے مگر ایلیٹ کلاس اخوانیوں کے مذہبی رجحان سے خائف ہے۔ امراء کو خوف ہے کہ یہاں لبرل ازم کا مکمل خاتمہ نہ ہو جائے۔ مرسی کو حالات ٹھیک کرنے کا موقعہ ہی نہ ملا۔صدر مرسی طنطاوی کے بعد قدرے اطمینان میں تھے کہ فوج میں اب ان کا تعینات کردہ جنرل تھا۔ مگر پروفیسر مرسی کو کم ازکم پاکستانی تاریخ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے تھا۔ لوگ فوری تبدیلی مانگتے ہیں۔ مصر میں بھی معاشی مسائل نے عام آدمی کا جینا محال کر رکھا ہے۔ مخالف دھڑا تو ہوتا ہی ہے اور پھر شاید اقتدار کی جنگ میں سب چلتا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق حسنی مبارک کو ہٹانے میں بھی فوج کا ہاتھ تھا اور فوج کی مددکے بغیر جنوری 2011ء کا انقلاب کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ اخوان پارلیمنٹ میں کامیابی سے قبل صدارتی انتخاب میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے،مگر اسمبلیوں میں اسلام پسندوں کی اکثریت منتخب ہونے بعد اُن کی نظریں صدارت کی کرسی تک جا پہنچیں۔ صدارتی عہدہ حاصل کرنے بعد حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔۔ شروع میں مسلم عیسائی جھگڑے شروع ہوئے، پھر مہنگائی‘ غربت‘ بے روزگاری کے علاوہ امن عامہ کے مسائل نے مرسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ شام‘ ایران‘ ترکی سے پینگیں بڑھانے پر بھی امریکہ خوش نہ تھا۔سو ایک اور انقلاب برپا کرا دیا گیا۔ حیرت ہے کہ بہت سے مسلم ممالک ایک جمہوری حکومت کے خاتمے پرخاموش ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اب مصر میں مکمل امن اور مستحکم حکومت ایک خواب ہو جائے گی۔ عالم اسلام کو اسی طرح منتشر اور کمزور رکھا جارہا ہے۔حالانکہ ایک عربی شاعر ابوالعلا معّری نے کہہ رکھا ہے: ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved