تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     19-05-2021

صفر جمع صفر برابر صفر

غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت پر مسلم ممالک ایسے بے چین ہو رہے ہیں جیسے اُن کی بات سن لی جائے گی۔ نہ تو اسرائیل نے پہلی مرتبہ غزہ کی پٹی پر جارحیت کی ہے نہ مسلم ممالک کی جانب سے زبانی کلامی شور مچانے کا سلسلہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ حسبِ روایت شور مچانے کا یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے گا اور ظالم اپنے مقاصد کے حصول کے بعد واپس چلا جائے گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کے مظالم برداشت کرنا فلسطینیوں کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے کشمیریوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے بوسنیا میں سربیا کے فوجیوں نے قیامت برپا کیے رکھی تھی۔ جولائی1995ء مسلم اُمہ کو آج یاد بھی نہیں ہوگا جب سربیا کی افواج نے سربیرینیتسا میں ساڑھے آٹھ ہزار مسلمانوں کو ایک ہی دن میں خاک و خون میں نہلا دیا تھا۔ اِن کو بلاامتیازِ عمر قتل کیا گیااوراَن گنت خواتین کی آبروریزی کی گئی۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان محفوظ علاقوں کی طرف ہجرت کے دوران جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔ خوش قسمتی سے یہ علاقہ یورپ میں واقع ہے اور اِس علاقے کے مسائل تبھی حل ہونا شروع ہوئے تھے جب نیٹو افواج معاملے میں کود پڑی تھیں۔ مسلم اُمہ تب بھی صرف شور مچاکر آسمان ہی سر پر اُٹھاتی رہی تھی۔ پھر یورپ میدان میں آیا اور نیٹو کی افواج نے سربیا پر حملے کر کے اُسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اِس قتل عام کے دوران سربیرینیتسا میں اقوام متحدہ کی امن فوج موجود تھی جو سرب فوجیوں کو روکنے میں ناکام رہی تھی۔ اُنہیں اِس حد تک الزام دیا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے مسلمانوں کو بچانے کے لیے مناسب کوششیں نہیں کی تھیں لیکن اُنہیں کم از کم اِس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اگر وہ بعد میں بھی مداخلت نہ کرتیں تو ہم اُن کا کیا بگاڑ لیتے؟ کشمیر کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے جہاں کشمیری عملاً دنیا کے سب سے بڑے قید خانے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اِن دونوںمعاملات پر ہماری سنی گئی نہ ہی غزہ کے مسئلے پر کوئی ہمیں درخورِ اعتنا سمجھے گا۔ سمجھے گا بھی کیوں ؟کیا اُنہیں نہیں معلوم کہ فلسطین کے مسئلے پر ہم ہمیشہ دوغلے پن کا شکار رہے ہیں۔
بات کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے اکثر ذہنوں میں پایا جانے والا یہ ابہام بھی دور کرلیجئے۔ غزہ کے نام پر اکثر یہ تصور ذہن میں اُبھرتا ہے کہ شاید یہ بھی کوئی اسرائیل کے مقابلے کی طاقت ہے۔ فلسطین کا علاقہ غزہ صرف 45مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق تقریباً چھ لاکھ ہے۔ ایک طرف سے اِس کی سرحد مصر سے ملتی ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اسرائیل اور مصر کے درمیان امن معاہدہ موجود ہے۔ یہ چھوٹا سا علاقہ مکمل طور پر اسرائیل کے گھیرے میں ہے جو نہ داخلی اور نہ ہی خارجی معاملات میں خود مختار ہے۔ اِس کے مقابلے میں اسرائیل ہے‘ جس کی طاقت کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ اِس وقت اسرائیل کا رقبہ 22ہزا ر ایک سو پینتالیس مربع کلومیٹر اور آبادی 95 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ غیراعلانیہ طور پر یہ ایٹمی قوت کا حامل ہے اور اِسے امریکا سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ فوجی طاقت کے لحاظ سے بھی اسرائیل اور غزہ کی حکمران جماعت حماس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ایسے میں‘ جب فریقین میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑا ہوا ہو اور ایک فریق کو اُس کے ''اپنوں‘‘ کی حمایت بھی حاصل نہ ہو تو پھر اسرائیل کو کون روک سکتا ہے؟وہ اپنی مرضی سے آتا ہے، بھرپورطاقت استعمال کرتا ہے اور پھر اپنے پیچھے دردناک داستانیں چھوڑ کر واپس چلا جاتا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق اور عالمی ضابطوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہسپتالوں، ایمرجنسی سروسز، میڈیا دفاتر سمیت سویلین آبادی کو جانتے بوجھتے نشانہ بنایا گیا مگر کہیں کوئی شور برپا نہیں ہوا۔ اِس دوران ہماری سرگرمیاں کیا رہتی ہیں‘ ان کا اندازہ اخبارات میں چھپنے والی ان خبروں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے: وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا چینی ہم منصب سے رابطہ‘ غزہ کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو۔ وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ چین تنازع کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔ او آئی سی کی طرف سے بھی بس اتنی سی کارروائی ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکا سے مداخلت کی اپیل کی جاتی ہے، باقی اللہ اللہ خیرسلا! اب تو متعدد عرب ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی استوار کرچکے ہیں اور اگر پہلے کچھ ڈر خوف تھا تو وہ بھی ختم ہوچکا ہے۔
ہماری یہ کسمپرسی اور اپنی حکومتیں بچانے کی روش دشمنوں کو کھل کھیلنے کا موقع دیتی ہے۔ نہ ہماری پہلے کبھی کسی نے سنی‘ نہ کوئی آئندہ سنے گا۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے ایک مرتبہ دنیا کا نقشہ اپنے سامنے پھیلا کر کرۂ ارض کو دوحصوں میں تقسیم کرلیجئے، اسلامی دنیا اور غیر مسلم دنیا۔ اِس کے بعد آپ دونوں دنیاؤں کا جائزہ لیں، آپ کو بیشتر غیر مسلم ممالک میں امن ملے گا، ٹیکنالوجی اور ایک دوسرے کے احترام کا جذبہ ملے گا۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ مسلم دنیا تقریباً سبھی معاملات میں غیر مسلم ممالک کی ٹیکنالوجی اور اُن کی کمپنیوں کی محتاج ہے۔ جن ممالک کے پاس دولت ہے اُنہیں کسی بھی قیمت پر صرف اور صرف اپنی حکومتوں اور دولت کا تحفظ درکار ہے۔ کسی ایک ملک میں بھی مثالی نظام انصاف موجود نہیں ہے۔ معلوم نہیں ہم کس زعم میں دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھتے رہتے ہیں۔
اس وقت جو ہمارا حال ہو رہا ہے‘ اس میں سراسر قصوروار ہم خود ہیں۔ ایک طرف ہم نے شور مچا مچا کر آسمان سر پر اُٹھایا ہوا ہے لیکن دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کہتا ہے کہ غزہ پر حملوں میں مزید شدت لائی جائے گا‘ اور یہ اس وقت تک جاری رکھے جائیں گے جب تک ضروری سمجھا جائے گا۔ اُس نے صرف کہا ہی نہیں بلکہ وہ ایساکر بھی گزرا۔ اب تک دو سو سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں‘ ہزاروں افراد ہسپتالوں میں پڑے ہیں، سینکڑوں عمارتیں اور گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ اِس کے جواب میں حماس کی طرف سے جو راکٹ اسرائیل پر فائر کیے جاتے ہیں‘ اُن میں سے نوے فیصد کو اسرائیلی میزائل شکن نظام ''آئرن ڈُوم‘‘ راستے میں ہی تباہ کر دیتا ہے۔ آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ جس ملک نے مصر، شام اور اُردن کی افواج کو ایک ہی وقت میں دھول چٹا دی ہو‘ نہتے فلسطینی کتنی دیر اس کے سامنے مزاحمت کر سکتے ہیں اور وہ بھی کسی کی مدد کے بغیر۔ سو اِن حالات میں اُن بیچاروں کی قسمت میں یہی لکھا جا چکا ہے کہ وہ اسرائیل کے ظلم کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ یہ بالکل وہی صورت حال ہے جس کا حسین شہید سہروردی نے 1956ء میں اظہار کر دیا تھا۔ اُس سال جب مصرکی طرف سے نہر سویز کو قومیانے پر فرانس اور برطانیہ نے مصر پر حملہ کیا تو تب پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر حسین شہید سہروردی متمکن تھے۔ مصر کی صورتِ حال پر کسی تقریب میں اُن سے پوچھا گیا کہ آخر مسلمان ممالک کیوں ملک مصرکا ساتھ نہیں دیتے؟ اس پر اُن کی طر ف سے جواب آیا ''وہ کیا مقابلہ کریں گے، اُن کی تو اپنی صورت حال صفر جمع صفر جمع صفر برابر صفر کے مانند ہے‘‘۔ اگر اِس صورت حال میں آج کوئی فرق پڑا ہے تو چند مزید صفروں کا اضافہ ہو گیا ہو گا، البتہ نتیجہ وہی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ مستقبل میں بھی صورتِ حال میں تبدیلی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ اِس لیے کہ دنیا کی سربراہی اُنہی کا حق ہے جو علم رکھتے ہیں۔ ہم نے اپنے اسلاف کی علمی روایات کو پس پشت ڈال کرصرف ماضی میں زندہ رہنا سیکھ لیا ہے۔ ایک طرف ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ دنیا فانی ہے لیکن ہر وقت زیادہ سے زیادہ دولت اور طاقت کی ہوس میں مبتلا رہتے ہیں۔ اِس چلن کا نتیجہ یہی نکلنا تھا جو آج سب کے سامنے ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved