تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-05-2021

وہی ہڈی‘ وہی کھال ہے

ایک بات تو شاید طے کرلی گئی ہے ... کہ کچھ سیکھنا نہیں ہے۔ قوم کا مزاج ایسا الجھا ہوا ہے کہ تمام معاملات پیچیدگی ہی کے مراحل سے گزرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی طے کرلے کہ کچھ بھی نہیں سیکھنا تو پھر کس میں ہمت ہے کہ کچھ کرنے کی تحریک دے پائے۔ مجموعی طور پر ہمارا یہی حال ہے۔ دنیا کا معاملہ تو یہ ہے کہ کسی بھی بحرانی کیفیت کو سامنے پاکر کچھ ٹھٹکتی ہے، جھجکتی ہے، چند ایک باتوں سے باز آجاتی ہے اور چند ایک معاملات میں اپنی اصلاح پر مائل ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ بحرانی کیفیت زیادہ نقصان نہ پہنچا پائے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ بحرانی کیفیت سے بھی لطف کشید کرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ کورونا کی وبا نے ایک دنیا کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایک طرف تو بیماری ہے جس کے تدارک کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوسری طرف اس وبا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات ہیں جن کا تدارک سوچا جارہا ہے۔ یہ پورا معاملہ متعلقہ اقوام اور معاشروں کے وسائل اور سکت نچوڑ رہا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اور کورونا کی وبا سے متعلق چاہے جتنے بھی سازشی نظریات سُنے اور گھڑے، حقیقت یہ ہے کہ اس وبا نے پوری دنیا کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ اس کا ایک منطقی نتیجہ تو یہ برآمد ہوا ہے کہ اقوامِ عالم نے نئے سِرے سے منصوبہ سازی کا سوچا تاکہ آئندہ ایسی ہی کسی بڑی وبا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے نیا معاشی اور معاشرتی ڈھانچا تیزی سے کھڑا کیا جاسکے۔
ترقی یافتہ اقوام نے کورونا کی وبا کے دوران بہت کچھ سوچا ہے اور پوری کوشش کی ہے کہ صورتحال کی نزاکت سے مطابقت رکھنے والی منصوبہ سازی کی جائے۔ کورونا کی روک تھام کیلئے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے بہت سی معیشتوں کیلئے انتہائی مشکل صورتحال پیدا کی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو بھی اِس صورتحال کے اثرات سے نمٹنا پڑا ہے۔ یہ فطری معاملہ ہے یعنی جب کوئی بڑی بحرانی کیفیت پیدا ہوگی تو ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ دنیا بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گی۔ اِس بار ایسا ہی ہوا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا نے معاملات کو اپنے لیے موافق بنائے رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ نئے سِرے سے منصوبہ سازی کی عادت اپنائی گئی ہے۔ معاشی ڈھانچہ تبدیل کرنے پر دھیان دیا گیا ہے۔ معاشرتی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے پر توجہ دی جارہی ہے۔
افسوس کورونا کی وبا پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ جنہیں واقعی تبدیل ہونا ہے وہ جنبش بھی نہیں کر رہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ دنیا تو ایک طرف‘ اِس وقت بات کرتے ہیں جنوبی ایشیا یعنی پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، افغانستان وغیرہ کی۔ نیپال چونکہ خشکی سے گھرا ملک ہے اس لیے باقی دنیا سے اُس کا رابطہ زیادہ اور وسیع نہیں۔ بنگلہ دیش کے برعکس بھارت کے ساحلی شہر بیرونی دنیا سے خاصے جُڑے ہوئے ہیں اور پاکستان کا بھی یہی حال ہے‘ اس لیے بنگلہ دیش پر بیرونی دنیا کے اتنے اثرات مرتب نہیں ہوئے جتنے باقیوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ بھارت میں کورونا وائرس کے کئی variants آئے جن کے باعث صورتِ حال دیکھتے ہی دیکھتے بے قابو ہوگئی۔ بھارت کی مجموعی صورتحال اب تک انتہائی ہولناک ہے۔ بعض علاقوں میں ایسے معاملات دکھائی دیے ہیں جنہیں دیکھ کر روح بھی کانپ اُٹھے۔ پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے کئی variants موجود ہیں‘ بعض علاقوں میں یہ معاملہ زیادہ سنگین شکل اختیار کرتا دکھائی دیا ہے۔ یہ حقیقت انتہائی خطرناک ہے کہ پاکستان جیسے ممالک نے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے بھی کچھ سیکھنے پر توجہ نہیں دی۔ ایک طرف معیشت کی خرابی ہے اور دوسری طرف معاشرتی ڈھانچے کی ابتری۔ حالات کا انتہائی واضح تقاضا ہے کہ اب باقی تمام معاملات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معیشت و معاشرت کے ڈھانچے کی خرابیاں دور کی جائیں، کچھ ایسا کیا جائے جس کے نتیجے میں بہتری کا امکان پیدا ہو۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سب سے زیادہ نظر انداز اِسی تقاضے کو کیا جارہا ہے۔ جو کچھ عالمی سطح پر طے کیا گیا ہے اُس پر بحث پھر کبھی سہی، یہ بات تو اب سب کی سمجھ میں آتی جارہی ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ معاملات کو اپنے اپنے مفادات کے سانچے ڈھالنے کے لیے ہے۔ جن میں طاقت ہے وہ بہت کچھ جھیل رہے ہیں اور معاملات میں اپنے لیے موافقت پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ جن میں طاقت نہیں اُن کے پاس سرِتسلیم خم کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ سرِتسلیم خم کرکے اپنے لیے تھوڑی بہت بہتری کا سامان کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہونے کے بجائے کچھ ممالک اپنے لیے بہت بڑا اور گہرا گڑھا کھودنے پر بضد ہیں۔بدقسمتی سے ان میں پاکستان سرِفہرست ہے۔
حکومت نے پوری کوشش کی ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں ملک میں اتنی سکت تو پیدا کی جائے کہ وہ صورتحال کی نزاکت سے مطابقت رکھنے والی حکمتِ عملی اپناسکے۔ کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کی مہم اور لاک ڈاؤن کی پریکٹس قوم کو بدلتے ہوئے حالات کے لیے تیار کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے مگر عوام اس حوالے سے کچھ سوچنے اور کرنے کیلئے تیار نہیں۔ پاکستان معیشت و معاشرت کے اعتبار سے خاصا کمزور ہے۔ بہت سے معاملات میں ہم بے ہنگم طریقے سے جی رہے ہیں۔ کھانے پینے کے معاملات ہوں یا یومیہ معمول کی حیثیت رکھنے والے معاشرتی روابط، دونوں ہی معاملات میں ہمیں وقت، توانائی اور وسائل کے ضیاع سے غرض ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں رات بھر جاگنے اور کسی جواز کے بغیر وقت کو محض ضائع کرنے کی روش عام ہے۔ یہ سب کچھ معیشت اور معاشرت دونوں کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں لاکھوں نوجوان رات بھر جاگ کر ہوٹلوں اور تھڑوں پر گپ شپ کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ دن بھر کسل مندی محسوس کرتے رہتے ہیں۔ طلبہ کلاسز میں ڈھنگ سے پڑھ نہیں پاتے اور فیکٹریز، دفاتر یا دکانوں میں نوجوان پوری توجہ سے کام نہیں کر پاتے۔ طرزِ معاشرت نہ بدلنے سے صحت کا بیڑا غرق ہوتا ہے، استعدادِ کار شدید متاثر ہوتی ہے، کام میں جی نہیں لگتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پیداواری صلاحیت بروئے کار نہ لانے سے آمدن بھی گھٹتی ہے۔
قوم کو نئی طرزِ معاشرت و معیشت کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا صرف اُس وقت ہوسکتا ہے جب حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لیے نئی طرزِ حیات منتخب کرنے کا سوچا جائے۔ دنیا بھر میں ایسا ہی سوچا جارہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ممالک بھی قومی سطح پر نئی حکمتِ عملی ترتیب دے رہے ہیں تاکہ کسی اور بڑے معاشرتی و معاشی بحران کے آنے پر معاملات معقول حد تک ہاتھ میں رہیں۔ یہ بحث پھر کبھی سہی کہ تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ سنجیدگی سے لگایا تھا یا بس یونہی بڑھک ماری تھی، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں لازمی طور پر تبدیل ہونا ہے۔ طرزِ معاشرت ہو یا طرزِ معیشت‘ دونوں ہی حوالوں سے نیا سوچنا ہے تاکہ خود کو بدلتی ہوئی دنیا سے ہم آہنگ رکھنے میں معقول حد تک کامیابی ممکن بنائی جاسکے۔ اب محض جیے جانے کی گنجائش نہیں رہی۔ اگر ڈھنگ سے جینا ہے، کچھ پانا ہے تو کچھ کرنا بھی پڑے گا۔ کچھ کیے بغیر کسی نہ کسی طور کچھ پانے کا زمانہ گزر گیا۔ جن ممالک سے آس لگائی جاسکتی ہے وہ بھی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ہمارے پاس صرف ایک ہی آپشن رہتا ہے ... خود کو بدلنے اور کچھ کرنے کا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ صورتحال کی نزاکت کا احساس نہیں پایا جارہا اور ہماری وہی ہڈّی ہے، وہی کھال ہے۔ یعنی ع
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم بدلتی ہوئی دنیا سے ہم آہنگ ہونے کا سوچیں؟ صرف یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اب تبدیلیوں کو نظر انداز کرنے کی گنجائش برائے نام بھی نہیں رہی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved