تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     08-07-2013

وطن کی مٹی

آج کی نوجوان نسل میری کہانی سنے گی تو یقین نہیں کرے گی لیکن میری اس کہانی کا ایک ایک حرف سچ ہے۔ لڑکپن میں میری مزدوری کی گواہی دینے والے سینکڑوں لوگ آج بھی زندہ ہیں۔ میری یہ کہانی نئی نسل کے علا وہ ایسے لوگوں کیلئے بھی ایک پیغام ہے جو شور مچاتے نہیں تھکتے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو ان کے حقوق نہیں دیئے جاتے۔ میرا نام پروفیسر جیٹھ نند راہی ہے۔ 1952ء میںمیر پور خاص سندھ کے دیہی علاقے کے ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ میرے ددھیالی خاندان میں کوئی بھی پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن ننھیال میں میراماموں ساتویں جماعت تک پڑھا ہوا تھا۔ ان کو دیکھتے ہوئے میری والدہ کے دل میں بھی خیال آیا کہ اس کا بیٹا بھی اپنے ماموں کی طرح سات جماعت تک تعلیم حاصل کرے۔ ابھی میں گود کا بچہ ہی تھا کہ میری ماں نے سب کو بتانا شروع کر دیا کہ جیٹھا نند سکول جایا کرے گا۔ اپنے اس شوق کو وہ دل ہی دل میں پروان چڑھاتی رہی اور جب میں چھ سال کا ہو گیا تو ماںنے مجھے ہمارے گائوں ڈنگن بھرگری کے سکول میں داخل کرا دیا۔ یہ وہ تاریخی گائوں ہے جہاں سندھ کے سب سے پہلے گریجو ایٹ رئیس غلام محمد خان بھر گری کی پیدائش ہو ئی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ رئیس غلام محمد بھرگری کی جنم بھومی بھی ہے۔ ڈنگن بھرگری سکول کے عظیم اور انتہائی بے لوث قسم کے اساتذہ مجھے آج بھی یاد ہیں۔ میں ابھی چھٹی جماعت میں ہی پڑھ رہا تھا کہ میرے گھر والوں کو اچانک ٹنڈو جام محمد منتقل ہوناپڑا‘ جہاں کے سکول میں‘ میں نے چھٹی سے دسویں جماعت تک تعلیم مکمل کی۔ بھرگری سے ٹنڈو جام میں مجھے تعلیم حاصل کرنے کیلئے کام کاج پر بھی لگا دیا گیاتاکہ گھر کی معاشی ضروریات میں ہاتھ بٹا سکوںاور مجھے یہ کہتے ہوئے آج کسی قسم کی کوئی شرم اور ہتک محسوس نہیں ہو رہی کہ میں نے چھٹی جماعت میں پڑھتے ہوئے سب سے پہلے جو آدھا دن مزدوری کی اُجرت وصول کی وہ صرف ’ ’ پچیس پیسے‘‘ تھی۔ جب میں نے ساتویں جماعت پاس کی تو اس وقت میری مزدوری پندرہ روپے ماہانہ مقرر کر دی گئی اور میری یہ اُجرت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی بھی رہی۔ پندرہ سے بڑھ کر پچاس پھر ایک سو پچیس اور پھرایک وقت ایسا بھی آیا کہ میری مزدوری 200 مقرر ہو گئی جس پر ہم سب گھر والے بہت خوش ہوئے۔ شادی کے بعد میں نے بہت سی نوکریاں کیں جن میں ریسٹورنٹ میں بیرا گیری ، پھل منڈی میں ملازمت، کبھی پان تو کبھی جوتوں کی دوکان پر کام کیا تو کبھی کاٹن فیکٹری اورآٹے کی ملوں میں مزدوری کی۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے میرا جنون مجھے چین سے نہیں بیٹھنے دیتا تھا۔ میں نے چھوٹی سے چھوٹی ملازمت کرتے ہوئے بھی یہ سوچ ایک لمحے کیلئے اپنے ذہن سے محو نہ ہونے دی کہ مجھے ایک دن بڑاآدمی بننا ہے جو اچھی اور اعلیٰ تعلیم سے ہی ممکن ہے۔ جنوری1975ء میں جب میں ایک ٹریڈنگ کمپنی میں دو صد روپے ماہوار پر ملازمت کرر ہا تھا تو ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں سندھ یونیورسٹی میں ایم اے انگلش لٹریچر میں داخلہ لوں گا۔ سو میں نے ملازمت چھوڑ دی۔ اس وقت دو صد روپے کی ماہوار آمدنی چھوڑنا کوئی چھوٹی بات نہیں تھی لیکن میں نے ایسا ہی کیا‘ اور ہو سکتا ہے کہ میں یہ فیصلہ نہ کرتا لیکن میرے مسلمان دوست فیاض احمد‘ جسے میں ہمیشہ یاد رکھوں گا‘ نے میری ہمت بندھاتے ہوئے کہا کہ دو سال تک جب تک میری ایم اے انگلش لٹریچر کی تعلیم مکمل نہیں ہو جاتی‘ وہ مجھے ہر ماہ200 روپے دیتا رہے گا۔ فرشتہ سیرت دوست فیاض احمد کو میں کس طرح بھول سکتا ہوں کہ جب وہ میرے گھریلو اور تعلیمی اخراجات کیلئے دو صد ماہوار مہیا کرتا تھا‘ اس کی اپنی کل تنخواہ350 روپے ماہوار تھی اور وہ شادی شدہ بھی تھا۔ میں سندھ یونیورسٹی میں دن میں چودہ چودہ گھنٹے مسلسل پڑھا کرتا تھا کیونکہ میں کسی بھی قسم کی کاہلی اور آرام طلبی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اور میری یہ محنت اور لگن اس طرح رنگ لائی کہ میں نے ایم اے انگلش لٹریچر میں سندھ یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی جو میرے اور گھر والوں کے علا وہ میرے دوست فیاض کیلئے بے حد خوشی اور اعزاز کی بات تھی۔ ایم اے انگلش کرنے کے بعد مجھے ملازمت کے حصول کیلئے بھاگ دوڑ بھی نہ کرنی پڑی اور میرا تعلیمی ریکارڈ دیکھتے ہوئے انتہائی قابل احترام پرنسپل کیڈٹ کالج ُپٹارو کیپٹن شکر الدین اور پروفیسر طارق مصطفیٰ خان‘ جو اب اس دنیا میں نہیں رہے‘ نے 1977ء میں میرٹ پر مجھے انگلش لٹریچر پڑھانے کیلئے کیڈٹ کالج پٹارو میں بحیثیت لیکچرار منتخب کر لیا‘ جہاں میں35 سال تک بحیثیت استاد ملازمت کرنے کے بعد بحیثیت وائس پرنسپل ریٹائر ہوا ہوں۔ اس انعام پر میرا سر ہر وقت خدا کی بارگاہ میں جھکا رہتا ہے کہ مایہ ناز کیڈٹ کالج پٹارو میں مجھے پڑھانے کے قابل سمجھا گیا ۔پاکستان میں بسنے والی اقلیت سے تعلق رکھنے والا وہ بچہ جو1962ء میں صرف ’’پچیس پیسے روزانہ‘‘ پر مزدوری کرتا تھا وہ2012ء میں ایک لاکھ تینتیس ہزار روپے ماہانہ صاف اور شفاف رزق کما رہا تھا اور آج ریٹائر ہونے کے بعد اس وقت ماہانہ پچپن ہزار روپے پنشن وصول کر رہا ہے۔پاکستان میں سب کچھ ہے‘ اگر نہیں ہے تو پاکستانی ذہن رکھنے والی سیا سی قیادت نہیں ہے اور بد قسمتی سے ان سیا سی قیادتوں نے قوم کو خوش نما اور جھوٹے نعروں سے مزیّن اپنی اپنی جماعت کے جھنڈوں والے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ قوم کو جھوٹ اورلوٹ کی سیا ست سکھانے والوں نے معاشرے کو اس حال پر پہنچا دیا ہے کہ لوگ ہر انسانی قدر کو، خاندان کے ہر رشتے کو‘ حتیٰ کہ دین اور دنیا کو دولت کے پیمانے سے جانچنے لگے ہیں۔ میں اپنے طالب علموں کو بتایا کرتا تھا کہ جو ڈاکو کسی ہندو کو لوٹتا ہے یا تاوان کیلئے اغوا کرتا ہے وہی ڈاکو کتنے مسلمانوں کو قتل ، اغوا اور لوٹ مار کی بھینٹ چڑھاتا ہے۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ انسانی ذہن نیکی کو سوچ سوچ کر اور خاصا وقت لگا کر قبول کرتا ہے لیکن بدی کی دلکشی کو فوراََ قبول کر لیتا ہے۔ اس لیے خوش کن نعروں اور وطن سے بد ظنی پر مبنی جوشیلی تقاریر اور پراپیگنڈے سے خود کو دور رکھو۔ میری طرف دیکھو میں پٹارو کیڈٹ کالج جیسے مشہور ترین اور اہم ترین تعلیمی ادارے کا وائس پرنسپل ہوں‘ اس لیے اپنے ذہن کو تنگ نظری اور مذہبی تعصب سے پاک رکھ کر‘ پاکستان کو اپنا بنا کر تو دیکھو‘ وطن کی مٹی کو ایک بار چوم کر تو دیکھو۔ اس مٹی میں سب کچھ ہے…!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved