تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     20-05-2021

یروشلم کی پکار

فلسطین ایک بار پھر شعلوں کی زد میں ہے۔ بین کرتی ہوئی ماؤں کی چیخوں میں ایک تباہ شدہ معاشرے کی جانب سے اپنے چھوٹے بچوں کو دفن کرنے کی تصاویر ہر ذی روح کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جن کے دل سخت ہو چکے ہیں۔ ''بہرے‘ گونگے اور اندھے‘ پس وہ نہیں لوٹیں گے (سیدھے راستے کی طرف)‘‘۔ (البقرہ:18)
پچھلے کچھ دنوں میں اسرائیلی فضائی حملوں میں دو سو سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا جن میں 61 بچے اور 36 خواتین بھی شامل ہیں جبکہ مزید 1400 بے گناہ شہری زخمی ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے میں لوگ اپنی جانیں بچانے کیلئے بھاگ نہیں رہے بلکہ ''لبیک یا الاقصیٰ‘‘ کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ ایسی خبریں آرہی ہیں کہ پورے پورے خاندان رات کے وقت ایک ہی بستر پر سو رہے ہیں تاکہ اگر ان پر اسرائیلی فضائی حملے ہوں تو وہ سب کے سب موت کے گھاٹ اتر جائیں اور کنبے کا کوئی بھی فرد ماتم کرنے کیلئے زندہ نہ بچے۔ ان فلسطینیوں نے ایسا کون سا جرم کر دیا‘ جس کیلئے دنیا انہیں ایسی کڑی سزا دے رہی ہے؟ وہ اپنے گھروں میں‘ اپنی سرزمین پر اور اپنے خاندانوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اور یہی وہ جرم ہے‘ جس کی پاداش میں آدھی آدھی رات کو ان پر گائیڈڈ میزائلوں کی بمباری کی جا رہی ہے۔
پچھلی کئی دہائیوں کی اپنی غیر منحرف روایت کو جاری رکھتے ہوئے ''مسلم دنیا‘‘ نے فلسطین کیلئے غیر جذباتیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے رہنماؤں نے‘ زیادہ تر عرصے میں‘ فلسطینیوں کی حالت زار پر آنکھیں بند رکھی ہیں۔ عرب دنیا‘ جس نے (زیادہ تر عرصے میں) بناوٹی ''ابراہام اکارڈ‘‘ کے تحت امن قائم رکھا‘ اس انتظار میں ہے کہ اس سے پہلے کہ سی این این اور الجزیرہ کے نیوز سائیکل اگلے کسی تازہ موضوع کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیں‘ اسرائیل اپنا آپریشن مکمل کرے۔ غیر عرب مسلم ریاستیں‘ ایران اور ترکی کے استثنا کے ساتھ‘ ایسا برتاؤ کر رہی ہیں جیسے یہ کسی اور کا مسئلہ ہو۔ انہوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ فلسطین کے حوالے سے ہمارا کردار ایک ٹوکن بیان کے علاوہ کچھ نہیں ہے، جس کے بعد ایک بے معنی ہیش ٹیگ ہوتا ہے۔ ان ریاستوں کی دلیل یہ ہے کہ: ہم اپنی کمزور گردنوں کو کیوں پھنسائیں؟ ہم فلسطینی نہیں‘ حتیٰ کہ عرب بھی نہیں ہیں۔ کیا ہمیں اسرائیل اور امریکا جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے‘ وہ بھی 3000 کلومیٹر دور رہنے والے کچھ لاچار لوگوں کی خاطر؟ یہ مسئلہ ہمیں کیوں پریشان کرے؟ ہمیں ان کی کیوں پروا کرنی چاہئے؟ اور‘ یہاں تک کہ اگر ہم چاہیں بھی تو کیا کر سکتے ہیں؟ آئیے اس کا تجزیہ کریں۔
اسرائیل اور فلسطین تنازع میں کوئی کردار ادا نہ کرنے کے حوالے سے پاکستان کی دلیل تین غلط تصورات سے پیدا ہوئی ہے: (1) یہ ہماری لڑائی نہیں ہے۔ (2) فلسطین ایشو میں ملوث ہونے سے ہمیں اپنے (کچھ) دوستوں کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (3) ہمارے پاس اسرائیل اور امریکا کے اتحاد کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ پہلا موقف بالکل غلط ہے! اصولی‘ اخلاقی‘ انسانی یا مذہبی‘ ہر نقطہ نظر سے یہ ہماری لڑائی ہے۔ یہ نوعِ انسانی کے ہر باضمیر رکن کی لڑائی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ ان لوگوں کی لڑائی ہے‘ جن کے پاس مقابلہ کرنے کی طاقت (اور اسلحہ) ہے۔ یہاں تک کہ اگر جمہوریت اور 'عوام کی مرضی‘ پیمانہ ہوتی تو بھی ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت ہماری قیادت سے یہ خواہش یا امید رکھتی ہے کہ وہ فلسطینیوں کو بچانے کی طرف راغب ہو۔ عرب دوستوں کے ناراض ہو جانے کا خوف درحقیقت پیچھے ہٹنے کا ایک بہانہ ہے۔ یہاں تک کہ جب ہم فلسطین کے معاملے میں شامل نہیں ہو رہے تھے تب بھی ہمارے ان دوستوں نے ہمیں نظر انداز کیے رکھا تھا۔ بھارت کی طرف سے کشمیر کے خصوصی سٹیٹس کو ختم کرنے کے بعد ان دوستوں کو کیا ہو گیا تھا؟ کیا وہ سب ہماری مدد کو دوڑ پڑے تھے؟ کیا انہوں نے ہمارے کاز کیلئے اپنے وسائل مختص کر دیے تھے؟ اور آخری نکتہ یہ کہ پاکستان کو آخری ملک ہونا چاہئے جو اسرائیل اور امریکا کے اتحاد کا سامنا کرنے کے کسی بھی 'خوف‘ سے دوچار ہو۔ کیا ہمیں افغانستان میں اسی اتحاد کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا؟ وہاں کون جیتا؟ کیا امریکی مخالفت کے باوجود کئی دہائیوں تک کیوبا قائم نہیں رہا؟ کیا ایران نے ایسا نہیں کیا؟ کیا وینزویلا نے اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر نہیں دکھایا؟ قومیں اپنی ناکامیوں کے نتیجے میں زندہ رہتی ہیں یا مرتی ہیں‘ بیرونی لوگوں کے خوف یا احسان کی وجہ سے نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ ہمیں فلسطین کے معاملے میں کیوں شریک ہونا چاہئے؟ تمام تر مذہبی اور اخلاقی تلازمات سے ہٹ کر بھی دو ایسی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان کو اس تنازع میں زیادہ قطعیت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ (1) ہماری بیان کردہ قومی پالیسی فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی مخالفت کرتی ہے‘ خود قائداعظم محمد علی جناح نے اس قبضے کی مخالفت کی تھی۔ قومی پالیسی کے مقاصد کا کچھ مطلب ہوتا ہے۔ وہ محض خالی بیانات نہیں ہو سکتے۔ اقوام کو ان اصولوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے جن پر وہ قائم رہتی ہیں‘ اور وہ امور جن کیلئے وہ لڑنے مرنے کو بھی تیار رہتی ہیں۔ (2) دنیا کو یہ جان لینا چاہئے کہ پاکستانی امن پسند لوگ ہیں‘ لیکن جب سرخ لکیر عبور ہو جاتی ہے تو وہ کسی تنازع سے الگ نہیں رہ سکتے۔ تمام قومیں اپنی بساط کے مطابق ان مقاصد کیلئے لڑتی ہیں‘ جن پر وہ یقین رکھتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور ایشیائی مشرقِ بعید میں ریاستہائے متحدہ امریکا کی طرح۔ عراق ، شام اور لبنان کی متشدد سرحدوں کے اس پار تک ایران کی طرح۔ آذربائیجان میں ترکی کی طرح۔ یوکرائن اور شام میں روس کی طرح‘ یا نیٹو اتحاد کی طرح جو یورپ، ایشیا اور افریقہ کے بہت سارے ممالک میں سرگرم رہا۔
اس سے ایک اہم ترین سوال سامنے آتا ہے: اگر ہم اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت کرنا چاہیں تو کیا کر سکتے ہیں؟ اس کا انحصار ہمارے قومی عزم کی سطح پر ہو گا اور یہود و نصاریٰ کی عسکری طاقت سے ہمارے (بے بنیاد) خوف کی حد پر۔ مثالی طور پر‘ مغربی کنارے اور غزہ کیلئے ایک چھوٹی سی امن فوج‘ جو 100سے زیادہ فوجیوں پر مشتمل نہ ہو‘ بھیجی جا سکتی ہے۔ یہ (غیر جارحانہ) فورس صرف امن قائم رکھنے اور فلسطینیوں کے گھروں کی تعمیر ِ نو میں مدد فراہم کرنے کیلئے وہاں موجود ہو؛ تاہم ہم یہ اعلان کریں کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہمارے ایک فوجی کو بھی اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کو ریاست پاکستان کے خلاف جنگ کا ایک اقدام سمجھا جائے گا اور اس کے نتائج بھی اس کے مطابق ہی ہوں گے۔ اگر یہ بہت زیادہ ہے تو متبادل کے طور پر ہم فلسطینیوں کو اپنی جنگ خود لڑنے کیلئے مناسب سامان اور وسائل فراہم کر سکتے ہیں۔ (ممکنہ طور پر خفیہ طریقے سے، جس طرح ایران نے کیا ہے یا جس طرح ترکی کر رہا ہے) اگر یہ بھی مشکل لگتا ہے تو ہم کم از کم اپنی پوزیشن ایسی بنا سکتے ہیں جس سے یہ ظاہر کرسکیں کہ ہم فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے کیلئے طاقت کے استعمال کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ ایک جوہری طاقت کی طرف سے اس طرح کا طرزِ عمل عسکری طاقت استعمال کئے بغیر بے گناہ فلسطینیوں کی جانیں بچانے کیلئے کافی ہو سکتا ہے۔ کیا ایسا دکھاوا کرنا بھی ہماری کمزور گرفت سے باہر ہے؟ موجودہ دور کی سیاست کی پیچیدہ رکاوٹوں سے دور‘یہاں ایک بڑی مذہبی دلیل (مومن کیلئے) بھی ہے۔ قرآن حکیم اعلان کرتا ہے ''پھر ہم نے بنی اسرائیل سے کہا: اب تم (وعدہ شدہ) سرزمین میں آباد ہو جاؤ ، اور جب قیامت کا مقررہ وقت آئے گا تو ہم تم سب کو وہاں اکٹھا کریں گے‘‘۔ (بنی اسرائیل: 104)
کیا ہم ایسے وقت سے گزر رہے ہیں؟ کیا جدید دور کا اسرائیل وعدہ شدہ سرزمین پہ بنی اسرائیل کا پیش گوئی شدہ ''اجتماع‘‘ہے؟ کیا یہ اچھائی اور برائی کے مابین معرکہ آرائی پر منتج ہوگا؟ حتمی آمد؛ دائمی کشمکش میں حتمی ڈراپ سین‘ انسانیت کی رہائی یا نجات کا حتمی نکتہ۔ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو‘ اور اگر ایسا ہی معاملہ ہے تو غیر جانبدار رہنے والوں کیلئے کوئی چھوٹ نہیں ہو گی۔ دُہرے معیارات والوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں برتی جائے گی۔ اور ہم میں سے ہر ایک کو‘ انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر‘ یہاں اور ابھی یہ انتخاب کرنا ہے کہ ہم کس طرف ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved