مالی سال 2021-22ء کا آغاز ہونے کو ہے اور وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے اس کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ یہ ان کا تحریک انصاف کی حکومت میں پہلا بجٹ ہو گا۔ جب سے انہوں نے وزیر خزانہ کا چارج سنبھالا ہے‘ کافی بھاگ دوڑ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کبھی ادارۂ شماریات کے اعداد وشمار پر اعتراض اٹھا رہے ہیں تو کبھی ایف بی آر کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ کبھی ورلڈ بینک سے مزید قرض لینے کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں اور کبھی آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں پر نظر ثانی کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ اپنی وزارت کے پہلے ماہ میں ہی بنیادی ایشوز پر توجہ دینا خوش آئند ہے لیکن اصل امتحان بجٹ ہے جو جون کے دوسرے ہفتے میں پیش کیا جائے گا۔ آئندہ بجٹ کیسا ہو گا‘ اس میں عوام پر کون سے نئے ٹیکسز لگائے جائیں گے اور ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے کیا حکمت عملی تیار کی جائے گی‘ یہ سب آپ کو آئندہ کالموں میں بتاتا رہوں گا۔ آج کا کالم تاجروں سے ٹیکس اکٹھا کرنے کے حوالے سے ہے۔
شوکت ترین انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ تاجروں کو ایک مرتبہ پھر ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کوششیں تیز کی جائیں گی۔ اس کے لیے ٹیکس ریٹ کو کم کیا جائے گا اور خریداروں کو خصوصی رعایات دی جائیں گی۔ سال 2019ء میں بھی تحریک انصاف کی حکومت نے تاجروں کو مختلف طریقوں سے ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی تھی لیکن کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی۔ اس وقت جہانگیر ترین صاحب نے مذاکرات کیے تھے اور درمیان کا راستہ نکالا تھا۔ اس سال اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن شبہ ہے کہ تاجروں اور حکومت کی ایک مرتبہ پھر ٹھن سکتی ہے۔ سال 2020-21ء کا بجٹ ''کورونا سپیشل‘‘ تھا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ مکمل لاک ڈائون کے بعد مئی 2020ء میں مارکیٹیں کھلیں اور جون میں بجٹ آ گیا۔ کاروبار کی بندش کے ستائے ہوئے تاجر اس وقت رحم کے قابل تھے۔ ان پر لگ بھگ تین ماہ کا کرایہ چڑھ چکا تھا اور سیل ایک روپے کی بھی نہیں تھی۔ ان حالات میں نئے ٹیکس لگانا یا انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کوئی نئی ترکیب بنانا یقینا نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔ اس لیے تاجروں کو تنگ نہیں کیا گیا تھا، لیکن اس سال تیاری پکڑ لی گئی ہے۔
وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق جو تاجر رئیل ٹائم الیکٹرانک سسٹم کے ذریعے ایف بی آر سے رجسٹرڈ ہوں گے‘ ان کی سیل بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ان سے خریداری کرنے والوں کے لیے ہر ماہ 200 ملین روپوں کے تحائف تقسیم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹائر ون ریٹیلرز کی قانونی تعریف کو مزید آسان اور وسیع کیا جائے گا۔ جس سے ایک اندازے کے مطابق سالانہ 50 سے 70 ارب روپے مزید ٹیکس اکٹھا کیا جا سکے گا۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ جتنی سیل ہو رہی ہے‘ وہ رپورٹ نہیں ہو رہی، عوام سے سیلز ٹیکس تو وصول کیا جا رہا ہے لیکن سرکار کو جمع نہیں کروایا جا رہا اور عوام یہ ٹیکس اپنے ریٹرنز میں ظاہر کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں لہٰذا سیل پوائنٹس اس بات فائدہ اٹھا کر منافع کے ساتھ 17 فیصد سیلز ٹیکس بھی گھر لے جاتے ہیں یعنی تین گنا منافع۔ حکومت کا ماننا ہے کہ اس آفر سے ریٹیلرز کے پوائنٹ آف سیل میں 50 ہزار کا اضافہ بھی ہو سکے گا۔ ایک شاندار آفر یہ بھی دی جا رہی ہے کہ سیلز پر ٹیکس کی شرح ایک اعشاریہ پچاس سے کم کر کے ایک اعشاریہ پچیس فیصد کر دی جائے۔ فاسٹ موونگ کنزیومر گڈز کے ڈسٹری بیوٹرز کے لیے وِد ہولڈنگ ٹیکس ریٹ بھی صفر اعشاریہ پچیس فیصد کم کیا جائے گا تاکہ زیادہ ریٹیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز خود کو رجسٹرڈ کروا سکیں۔ ٹائر 1 کے تحت رجسٹرڈ ٹیکسٹائل ریٹیلرز پہلے ہی 12 فیصد کم جزل سیلز ٹیکس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اسی کے پیش نظر ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگر شعبوں کے لیے بھی یہ آفر دینے کی تجویز دی گئی تھی لیکن ٹیکس ریفنڈ کے پیچیدہ مسائل کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ یہ تجاویز ابھی سرکاری سطح پر جاری نہیں کی گئیں؛ تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم سے منظوری لینے کے بعد انہیں بجٹ کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔
یہ حیران کن امر ہے کہ ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر کا قومی سطح پر 19 فیصد شیئر ہے لیکن ٹیکس میں ان کا حصہ صرف تین اعشاریہ سات فیصد ہے۔ اس حوالے سے صرف بات چیت پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ایف بی آر نے وزیر خزانہ کو باقاعدہ حساب کتاب، ریسرچ اور فائلوں کے ساتھ ہر پہلو سے مکمل تفصیلات کے ساتھ آگاہ کیا ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ 2019ء میں تاجروں کے ساتھ طے پائے معاہدوں کی وجہ سے بھی بہت مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کچھ معاملات کی تشریح غلط کی گئی ہے اور کچھ ایشوز ایسے ہیں جن کی مکمل تشریح ہی نہیں کی گئی جس سے ٹیکس چوری کے دروازے کھل گئے ہیں اور پچھلے دو سالوں سے تاجر ان کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر حکومت کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ یہ معاہدے آج کل زیادہ زیر بحث ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ڈیل جہانگیر ترین صاحب نے تاجروں سے کی تھی اور اب چونکہ ترین گروپ نے پارلیمنٹ میں اپنے وجود کا الگ احساس دلانے کا اعلان کیا ہے‘ اس وجہ سے یہ معاہدے بھی شک کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں تقریباً 35 سے 40 لاکھ تاجر ہیں جن میں سے صرف 3 لاکھ 92 ہزار ٹیکس نیٹ میں موجود ہیں۔ باقی تقریباً 36 لاکھ تاجر حکومتی دبائو اور منتوں کے باوجود ٹیکس نیٹ میں آنے کو تیار نہیں ہیں۔ رجسٹرڈ تاجروں میں سے صرف 725 ریٹیلرز آن لائن انوائس نظام کے ساتھ منسلک ہیں۔ حکومت اگلے مالی سال کے بجٹ میں ان کی تعداد 5 ہزار تک لگ جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس سے پوائنٹ آف سیل کی تعداد 50 ہزار تک بڑھنے کی امید ہے۔ شوکت ترین صاحب کے مطابق‘ چار کمرشل بینکوں نے کریڈٹ اور دیگر کارڈز کے لیے جو 64000 پوائنٹ آف سیل سسٹم بنائے ہیں‘ انہیں بھی ایف بی آر کے نظام میں شامل کر دیا جائے گا۔ سیلز ٹیکس ایکٹ 2019ء کے مطابق تمام تاجر اس نظام کے تحت رجسٹرڈ ہونے کے پابند ہیں۔ اس کا طریقہ کار کیا ہے اور کیسے اسے عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے اس حوالے تمام تفصیلات اس ایکٹ میں دے دی گئی ہیں۔ اگر یہ نظام اپنی اصل روح کے ساتھ مکمل طور پر لاگو کر دیا جاتا ہے تو اس کے بہت زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔ اگر ہم حالیہ مثال لیں تو اس میں کافی فرق واضح ہو جاتا ہے۔ پچھلے ایک سال میں جن 33 ریٹیلرز نے خود کو رجسٹرڈ کروایا‘ ان سے حاصل سیل میں 72 فیصد اور سیلز ٹیکس میں 69 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ سیل پہلے بھی ہو رہی تھی اور یہی سیلز ٹیکس پہلے بھی اکٹھا کیا جا رہا تھا لیکن ایف بی آر سے منسلک نہ ہونے کی وجہ سے یہ ٹیکس حکومت کو وصول نہیں ہوتا تھا بلکہ مبینہ طور پر سیٹھ کے منافع میں چلا جاتا تھا؛ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ پچھلے سال آن لائن سیل رجسٹرڈ ریٹیلرز‘ جن کی تعداد 228 تھی‘ انہوں نے سولہ اعشاریہ پانچ ارب روپے کی سیل ظاہر کی تھی، اس سال ابھی تک ان کی تعداد 725 ہو چکی ہے اور 39 ارب روپے کی سیل ٹیکس سسٹم میں ظاہر کی جا چکی ہے۔ اس حوالے سے ابھی تک کی حکومتی منصوبہ بندی تسلی بخش دکھائی دیتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کی ساری توجہ عوام پر ٹیکس لگانے پر ہے یا انہیں ریلیف دینے کے لیے بھی نئے بجٹ میں کوئی منصوبہ پیش کیا جا رہا ہے۔