تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     21-05-2021

فلسطین کے بارے میں مزید معلومات اور ہمارا عہد تبدیلی

دل یہ چاہتا ہے کہ امت مسلمہ کا قصۂ درد کچھ اور سنائوں، اندر سے صدا آتی ہے کہ عالمی برادری کا فسانۂ انصاف بھی لکھوں، مظلوم مگر مانندِ چٹان ڈٹ کر کھڑے فلسطینی جوانوں، بچوں اور بیٹیوں کی داستانِ جرأت و شجاعت بیان کروں، ہردم انسانی حقوق کا پرچم لہرانے والے امریکہ کے دوہرے معیار کی قلعی کھولوں، کئی صدیوں سے جرمِ ضعیفی کے شکار مسلمان حکمرانوں کا نوحہ پڑھوں، سعودی عرب میں اپنے ساتھ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے فلسطینی پروفیسروں سے حاصل کردہ براہِ راست معلومات اپنی قوم تک پہنچائوں۔ 1948ء کے نکبہ کی روح کو تڑپا دینے والی تفصیلات آپ کے ساتھ شیئر کروں۔ نکبہ سے مراد ہے تباہی و بربادی۔ 1948ء میں صہیونیوں نے بزورِ شمشیر 7 لاکھ فلسطینیوں کو اپنے گھروں، اپنی زمینوں، اپنی جائیدادوں اور اپنے مقدس ترین مقامات کہ جن میں سرفہرست مسجد اقصیٰ ہے، سے بے دخل کردیا تھا۔ آج مغرب اور امریکہ کی مکمل حمایت کے ساتھ اسرائیل نے ایک بار پھر 1948ء کے نکبہ کو دوہراتے ہوئے ارضِ فلسطین سے فلسطینی مسلمانوں کو نکال باہر کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تقریباً ساٹھ برس پہلے مسلمانوں کو خبردار کردیا تھا کہ اسرائیل نے اپنی سرحدوں کو عرب زمینوں تک پھیلانے اور عالم اسلام کے کئی ممالک کی سرحدیں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
ہمارے عرب بھائیوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے عملاً ارضِ فلسطین میں دو خودمختار ریاستوں کا فلسفہ اور معاہدہ دفن کردیا تھا۔ ٹرمپ نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کردیا تھا اور اس سلسلے میں فلسطینیوں کے شدید احتجاج کو نظرانداز کر دیا تھا۔ ساتھ ہی ٹرمپ نے کئی عرب ملکوں پر دبائو ڈال کر اُن سے اسرائیل کو تسلیم کروا لیا تھا۔ موجودہ صدر جو بائیڈن سلامتی کونسل میں سیزفائر کی قرارداد کو باربار ویٹو کر رہے ہیں اور مظلوم فلسطینیوں کے بجائے جارح نیتن یاہو کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں۔
امریکہ اسرائیل کو اپنے ہی دیئے ہوئے جدید ترین جنگی جہازوں کے ذریعے وحشیانہ بمباری کرکے معصوم فلسطینی بچوں اور عورتوں کو اُن کے گھروں میں موت کی نیند سلانے والے صہیونیوں کی دامے، درمے، قدمے، سخنے مدد کررہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے یہ کہہ کر دنیا میں ہر جگہ ہونے والے احتجاجوں کو نظرانداز کیا ہے اور فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے کہ فائر بندی کروانا ہمارا کام نہیں‘ اگر دونوں متحارب پارٹیاں فائر بندی کرنا چاہیں تو کرلیں۔ نیتن یاہو اس بار واضح اکثریت سے اسرائیلی انتخاب نہیں جیت سکا‘ اس لیے وہ مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکا کر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنا چاہتا ہے اور متشدد صہیونیوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آج سارے پاکستان میں فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ہر شہر سے ریلیاں نکل رہی ہیں۔ کشمیر ہو یا فلسطین کہیں بھی خنجر چلے اہل پاکستان تڑپتے ہیں۔ آج کی ریلی میں تمام سیاسی پارٹیاں، دینی جماعتیں، سول سوسائٹی اور عامۃ الناس پورے جوش و جذبے کے ساتھ شرکت کررہے ہیں۔ رہی ہماری حکومت تو وہ کشمیریوں کو بھارتی درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اب چپ سادھے بیٹھی ہے۔ کشمیر کے بارے میں بلند بانگ دعوے کرنے والی حکومت اب مزاحمتی و مذاکراتی سارے دروازے بند کرکے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ وزیراعظم نے یو این او کے ایک اجلاس میں شعلہ بیانی کے زبردست ریکارڈ قائم کیے تھے مگر لگتا ہے کہ عملاً وہ کشمیریوں کو بھول چکے ہیں۔
دل تو یہی چاہتا تھا کہ اہل فلسطین کی محبتوں کا واجب الادا قرض اتاروں اور اس ہفتے کا دوسرا کالم بھی اُن کی نذر کروں مگر پھر خیال آتا ہے کہ اپنے گھر کی بھی خبر لینی چاہئے۔ عہدِ تبدیلی اپنے آخری فیز میں داخل ہو چکا ہے۔ تقریباً تین برس کے اس طویل سفر میں تبدیلی کے تمام تر خدوخال قوم پر عیاں ہوچکے ہیں۔ وزیر اعظم اس تین سالہ مدت کے دوران شب و روز یہ نعرہ لگاتے رہے کہ کرپشن کرنے والے کسی شخص کو نہیں چھوڑوں گا۔ اُن کے ناوک نے شاید ہی اپوزیشن کے کسی قائد کو نشانہ نہ بنایا ہو۔ اس دوران وہ کرپشن تو شاید اپنے کسی مخالف پر ثابت نہیں کرسکے البتہ انہوں نے مہنگائی کو ساتویں آسمان تک پرواز کرنے کیلئے آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ تین سالہ مدت کے دوران سابقہ کرپشن کو تو کسی انجام تک نہ پہنچایا جا سکا تاہم انکی اپنی حکومت میں کرپشن کے بڑے ہوشربا سکینڈل سامنے آئے ہیں۔
جناب وزیراعظم کا طرزعمل نہایت دلچسپ ہے۔ پہلے وہ خود کسی کام کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر اُن کا یہ اقدام تنقید کی زد میں آجائے تو پھر وہ اس کی ذمہ داری اپنے کسی نائب یا کسی افسر پر ڈال دیتے ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق وزیراعظم نے خود چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی۔ اُنکے وزیراعلیٰ نے انہی کے اِذن سے چینی مل مالکان کو سبسڈی دی۔ بعد میں جب معلوم ہوا کہ یہ توغلط ہو گیا ہے تو پھر ملز مالکان کے خلاف انکوائری شروع کردی۔ اس انکوائری کا تو کوئی نتیجہ نہیں نکلا مگر چینی 105 روپے کلو تک جا پہنچی۔ اسی طرح آٹا بحران کی انکوائری ہوتی رہی مگر نتیجہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
آج کل راولپنڈی رنگ روڈ کا سکینڈل منظر عام پر ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق بنیادی منصوبے میں مزید بیس کلومیٹر کا اضافہ زلفی بخاری اور وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کے صاحبزادے منصور خان کی راتوں رات بننے والی ہائوسنگ سوسائٹیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے کیا گیا ہے۔ یہ سکینڈل اربوں کی کرپشن پر محیط ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال کا کہنا ہے کہ چینی سکینڈل کی طرح یہ کارروائی بھی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی اشیرباد سے ہوئی مگر جب یہ ''خاموش کرپشن‘‘ طشت ازبام ہوگئی تو اس کی انکوائری کا حکم دے دیا گیا۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ اس سکینڈل کی تحقیق کیلئے پارلیمانی کمیشن بنایا جائے۔
موجودہ دور میں آنے والا ہر سکینڈل چاہے وہ بی آر ٹی پشاور کا ہو یا ادویات کی قیمتوں کو ادویہ ساز کمپنیوں کے ساتھ مل کر بڑھانے کا ہو اور چاہے تیل کی قلت کا، اُس کا چند روز تک اخبارات، ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر خوب چرچا رہتا ہے اور پھر وہ وقت کی دھول میں کہیں کھو جاتا ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ جناب وزیراعظم کو مہنگائی کے بارے میں کوئی فکرمندی ہے اور نہ ہی بیروزگاری کے بارے میں کوئی تشویش۔ اگر انہیں کوئی فکرمندی ہے تو یہی کہ اپنے سیاسی مخالفین کو نئے پرانے مقدمات کے جال میں گرفتار کرکے پس دیوارِ زنداں کیسے پہنچانا ہے۔ ان دنوں وہ شہباز شریف کی بیرونِ ملک روانگی کے اعلان سے بہت پریشان ہیں۔ دراصل اُن کی اصل فکرمندی کا سبب یہ ہے کہ کہیں مقتدر قوتوں سے مسلم لیگ (ن) کی دعا سلام تو نہیں شروع ہو چکی۔ سربراہ حکومت تو غیروں کی خبر لینے میں مشغول تھے مگر گزشتہ شب لاہور میں اُن کے اپنے کسی زمانے کے قریب ترین ساتھی جہانگیر ترین نے اعلانِ بغاوت کر دیا۔ ن سے ش تو برآمد نہ ہو سکی مگر پی ٹی آئی میں علیحدہ بلاک قائم ہو گیا ہے جس کا نام جہانگیر ترین یا ہم خیال گروپ ہے۔ اگرچہ پارٹی کے اندر جہانگیر ترین کے حریف شاہ محمود نیویارک کی طرف محوِ پرواز تھے مگر بقول شاعرع
آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
شاہ صاحب نے پی ٹی آئی کے نئے پارلیمانی گروپ کی تشکیل کے بارے میں کہا ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن، مافیاز، پارٹی اختلافات کس کس سے لڑیں؟ دراصل قادرالکلام شاہ صاحب نے بین السطور یہ کہا ہے کہ جناب وزیر اعظم نے تین سالہ مدت بلکہ مہلت لڑتے لڑتے گزار دی ہے۔ یہی بین السطور پیغام اس عہدِ تبدیلی کا عنوان ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved