تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     21-05-2021

خلافت ‘القدس اور حضرت اقبال ؒ…(2)

ذکر چل رہا تھا خلافت اور حضرت علامہ اقبالؒ کا۔ خلافت کبھی لیگ آف مسلمز ہوا کرتی تھی۔ مسلمانوں کے اجتماعی موقف کے اظہار کے لیے طاقت۔ لیگ آف نیشنز سے بہت مؤثر‘ کیونکہ خلافتِ عثمانیہ سے مسلم کمیونٹی کی توقعات وابستہ تھیں‘ اسی لیے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے پر عرب و عجم میں جو آوازیں اُٹھی تھیں اور جس تشویش کا اظہار ہوا تھا وہ اب حرف بحرف درست ثابت ہوتی چلی جا رہی ہے۔ خلافتِ عثمانیہ ایک ایسی مرکزیت کی علامت تھی جس کے نتیجے میں مسلمان بڑی حد تک ایک بلاک سمجھے جاتے تھے‘ آپ اسے اُمّہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ آج المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے بڑے بڑے فورمز‘ یا تو اُمّہ کی توقعات کے مطابق اجتماعی اثرورسوخ کی سٹریٹیجی سے خالی ہیں یا پھر اجتماعی سوچ سے عاری۔ اسی تناظر میں حکیم الامّت حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنے معرکہ آراء شعری مجموعہ بانگ درا میں نظم ''غرّہ شوال‘‘ میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر نوحہ ایک مصرعے میں بیان کردیا:ع
چاک کر دی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
اسی ہفتے غریب اور کمزور ملکوں کی توقع اور 21ویں صدی میں ہولوکاسٹ کو ''ری کاسٹ‘‘ کرنے والے صہیونی شدت پسندوں کی خواہش کے عین مطابق غزہ میں جاری انسانی المیے پر منعقد ہونے والا اقوام متحدہ کا اجلاس بے اثر ہی نہیں بلکہ بے نتیجہ بھی رہا۔ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان‘ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور ملائیشیا کے‘ حکمران نہ سہی مگر عالمی آئیکون‘ ڈاکٹر مہاتیر بن محمد آپس میں بھی اور مسلم ملکوں کے بڑوں سے مسلسل رابطے کر رہے ہیں۔ ان رابطوں کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا فلسطینیوں کی حمایت میں مشترکہ آواز اُٹھانے کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ اور فلسطینیوں کے قتلِ عام کے خلاف کوئی مؤثر سٹریٹیجی بنانا ہے۔
کھلی آنکھ سے دیکھنے والے جان چکے ہیں کہ 20ویں صدی کی لیگ آف نیشنز جسے یونائیٹڈ نیشنز آرگنائزیشن کا نام دیا گیا ہے‘ یعنی یو این او‘ اس کی تاریخ نے مسلسل ثابت کردکھایا کہ یہ صرف اور صرف لیگ آف بِگ نیشنز ہے۔ یو این او کی اس مایوس کن تاریخ کا تازہ باب اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا وہ اجلاس تھا جو 13مئی 2021ء کے دن منعقد ہونا تھا مگر اس اجلاس کو یو ایس اے کے کہنے پر ملتوی کردیا گیا حالانکہ امریکہ بہادر اس جاری تنازعے کا متاثرہ فریق ہے‘ نہ ہی مظلوم فریق۔ بہرحال تین دن مزید گزرنے کے بعد پچھلے اتوار کی رات یہ اجلاس منعقد ہوسکا مگر دنیا یہ جان کر حیران رہ گئی کہ اس اجلاس کا ایڈوانس نتیجہ بھارتی نژاد موجودہ نائب امریکی صدر کملا ہیرس صاحبہ نے سینیٹر کی حیثیت سے AIPAC Policy Conference (امریکہ کی پرو اسرائیل تحریک کا سب سے بڑا سالانہ اجتماع) میں خطاب کرتے ہوئے پہلے ہی بیان کررکھا تھا۔ امریکہ بہادر کی نائب صدر کے خطاب کا ون اینڈ اونلی ایجنڈا کیا تھا؟ ان کے اپنے الفاظ میں ہی سن لینا بہتر ہوگا۔ محترمہ فرماتی ہیں ''اسرائیل کے جنوبی بارڈر کی طرف راکٹ فائر کئے جاتے ہیں۔ ہمیں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے۔ ہماری defense relationship دونوں قوموں کیلے اہم ہے اس لیے میں یونائیٹڈ سٹیٹس کی کمٹمنٹ کو سپورٹ کرتی ہوں جس کے تحت اسرائیل کو 38ارب امریکی ڈالر فوجی امداد کے طور پر آنے والے 10 سالوں کے دوران دیے جائیں گے۔ اسی لیے میں Arrow ‘ David Sling اور Iron Dome تینوں دفاعی سسٹم اسرائیل کے حوالے کرنے کو سپورٹ کرتی ہوں۔ مجھ سے جو بھی ہوسکا وہ اسرائیل کی سلامتی اور اسکے حقِ دفاع کے حصول کیلئے وسیع اور دو طرفہ تعاون کی حمایت کیلئے کرتی رہوں گی۔ میرا یہ ایمان ہے کہ جب کوئی بھی تنظیم اسرائیل کو delegitimize کرے‘ ہمیں کھڑے ہو کر اسرائیل کے حق میں بولنا چاہئے تاکہ اسرائیل کیساتھ برابری کا سلوک ہو سکے۔ ہمیں پوری طرح سے اسرائیل کی qualitative فوجی برتری کو یقینی بنانا چاہئے۔ ہمیں اسرائیل کے ساتھ لازماً کھڑے ہونا ہے اور کھڑے رہیں گے‘‘۔
صہیونی حملہ آوروں کے القدس شریف سے لیکر غزہ تک جنگی جرائم ہر روز عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رپورٹ ہو رہے ہیں مگر یہاں میں وہ پہلو اُجاگر کرنا چاہتا ہوں جن کی اپنے ہاں تفصیلی رپورٹنگ بہت کم ہوسکی ہے۔ مثال کے طور پر: پہلا پہلو یہ کہ اس وقت تک اسرائیل‘ غزہ کے آزاد فلسطینی علاقے کی پٹی پر 1500 حملے کرنا تسلیم کرچکا ہے۔ پھر یہ لڑائی ٹیکنالوجی کے ہاتھی اور بے وسیلہ چیونٹی کے درمیان نظر آتی ہے۔ اسکے باوجود اسرائیل نے یہ بھی کنفرم کیا ہے کہ غزہ کے مزاحمتی فلسطینیوں نے اب تک اسرائیل پر 3100 سے زیادہ میزائلوں سے حملے کئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پائے جانے والی ویڈیوز کے مطابق یہ حملے اسرائیل کے 15سے زیادہ شہروں پر ہوچکے ہیں۔ ہر شہر پر سینکڑوں میزائل برسائے گئے جس سے ہونے والا نقصان اسرائیل نے سینسرشپ کے آئرن ڈوم میں چھپا رکھا ہے۔دوسرا پہلو غزہ میں صحافتی اداروں کی بمباری کے ذریعے مسماری اور صحافیوں کے کھلے عام قتلِ عام کا ارتکاب ہے۔ اس پر ہمارے ہاں کے کتنے لبرل صحافی اور ان کی آزاد کہلانے والی تنظیموں نے صدائے احتجاج بلند کی‘ آپ خوب جانتے ہیں۔ تیسرا پہلو: اس وقت امریکہ‘ برطانیہ اور یورپ کے لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ ''Free Palestine‘‘ کے بینر اُٹھائے لاکھوں کی تعداد میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے کئی سابق صدارتی امیدواروں‘ پارٹی سربراہوں اور بڑے لیڈروں نے فلسطینیوں کو آزادی دینے کے حق میں اپنے ٹویٹر اکائونٹس سے تحریری طور پر آواز بلند کی ہے۔ چوتھا پہلو: اس وقت یہودی مذہب کے ماننے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد سوشل میڈیا سائٹس پر ایک جیسی تحریر شیئر کر رہی ہے‘ جن میں درج ہے کہ ہمارے گرینڈ والدین پچھلی صدی کی ہولوکاسٹ سے متاثر ہوئے یا اس میں جان سے چلے گئے‘ ہم ہولوکاسٹ کے متاثرین یہودی ہیں‘ اس لئے 21ویں صدی میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی بچوں‘ عورتوں اور شہریوں کی ہولوکاسٹ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ فلسطین کو فوراً آزاد کیا جائے۔ پانچواں پہلو: گلوبل ڈپلومیسی کی دنیا میں چین کا ایک بڑا اقدام قابلِ ذکر ہے۔ مئی 2021ء میں یو این سکیورٹی کونسل کی صدارت چین کے پاس ہے‘ جس میں چین کے وزیر خارجہ نے فلسطین اسرائیل مسئلہ حل کرنے کیلئے اقدام کرنے کا کہا تو امریکہ نے یونائیٹڈ نیشنز سکیورٹی کونسل کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ چین نے اس امریکی اقدام کو انٹرنیشنل جسٹس کی مخالفت قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ چھٹا پہلو: مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے پر قبضے کی اسرائیلی کوششوں کے خلاف یو ایس کانگریس کے کئی پروگریسیو ڈیموکریٹک ممبرز نے سوشل پوسٹس کے ذریعے فلسطین کی آزادی کی کال کی حمایت کی‘ ان میں میری نیومن‘ کوری بُش‘ چوئے گراسیا‘ مارک پوکن‘ راشدہ طلیب‘ اینڈرے کارسن‘ بیٹی میکولم‘ ڈیبی بنگل‘ الیگزینڈریا اوکازیو کورٹیز اور الہان عمر شامل ہیں۔
دی گارڈین اخبار کی تازہ رپورٹ کا عنوان اسرائیل کے لیے گلوبل الارم کی حیثیت رکھتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ''It's Different this time‘‘۔ دی گارڈین مزید لکھتا ہے کہ فلسطینیوں کو اس مرتبہ امریکہ کے پروگریسیو طبقوں کی بھرپور حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ یہ ماضی سے بہت مختلف صورتحال ہے‘ آپ اسے ایک ایسا بڑا شفٹ قرار دے سکتے ہیں جس کے مطابق اب اسرائیلیوں کی نہیں فلسطینیوں کی زبان بولی جارہی ہے۔
سرزمینِ القدس پر پھول جیسے بچوں کے خون کی ہولی جاری ہے۔
شاخوں پہ خونِ دل کی تہیں ہیں جَمی ہوئی
موسم کے پیچ و تاب سے تھرّا گئے ہیں پھول (جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved