تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     08-07-2013

لشکر بمقابلہ لشکر

انیس سو تیس کی دہائی میں باشی راؤ نے مہاراشٹر کے جنگلوں میں سر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے نام کا ڈنکا ساری ریاست میں بجنے لگا۔ اس زمانے کی روایت کے مطابق اس نے مہاجنوں کو لوٹا اور خوب لوٹا۔ ہمت بڑھی تو جنگلوں سے نکل کر بحر ہند کے ساحل تک آپہنچا۔ سمندری کھاڑیوں میں گھات لگا کر بیٹھتا اور جیسے ہی کوئی مال بردار کشتی قریب سے گزرتی وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر اسے شکار کرلیتا۔ کشتیوں پرلدے مال اور مالد ار مسافروں کی تفصیل اسے اپنے ان کارندوں کے ذریعے ملتی جو قریبی بندرگاہوں پرکام کرتے تھے۔ انگریز راج کی پولیس نے باشی راؤ کو گرفتار کرنے کی کچھ نیم دلانہ سے کوششیں کیں جو کامیاب نہ ہوسکیں۔ایک بار پولیس کے کچھ اہلکار اور مخبر اس کے کسی ساتھی کے تعاقب میں جنگل کے اندر داخل ہوگئے تو اس نے ان تمام پولیس والوں کے سر کاٹ کر قریبی تھانے میں بھیج دیے۔ اس کے بعد پولیس والوں نے ان جنگلوں میں گھسنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور باشی راؤ کی سرگرمیاں گجرات تک پھیل گئیں۔ چالیس کی دہائی میں ہندوستانی سیاست انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے نعروں پر چل رہی تھی۔ صاف نظر آرہا تھا کہ انگریز اب ہندوستان کو زیادہ دیر تک قابو میں نہیں رکھ پائے گا۔ اسی عرصے میں باشی راؤ کے ہاتھ ہندوستان کی سیر پر آیا ہوا ایک برطانوی جوڑ الگ گیا۔ انگریز حکومت نے اس جوڑے کی باحفاظت واپسی کے لیے کچھ بھی کرنے کی ٹھان لی۔ دوسری طرف باشی راؤ کے اس یرغمالی جوڑے نے اپنے حفاظتی حصار کو کمزور سمجھتے ہوئے فرار ہونے کامنصوبہ بنایا اور بھاگنے کی کوشش میں جان گنوا بیٹھا۔ جس کشتی سے یہ جوڑا پکڑا گیا تھا اسی میں سے ایک گجراتی سیٹھ بھی یرغمال بن کر باشی راؤ کے قبضے میںآیا۔ سیٹھ نے سودے بازی کرکے اپنی رہائی کا بندوبست کرلیا اوراسی سیٹھ سے پولیس کو معلوم ہوا کہ یرغمال برطانوی جوڑ ا قتل ہوچکا ہے۔ اس خبر نے ہندوستان کی انگریزی سرکار میں آگ لگا دی۔ وائسرائے کے حکم پر باشی راؤ کی سرکوبی کے لیے گورا فوج حرکت میں لانے کا فیصلہ ہوگیا۔ فوج کے ذریعے ایک ڈاکو سے نمٹنے کا یہ فیصلہ انگریز راج کے مقامی وفاداروں پر گویا بجلی بن کر گرا۔ان سارے نوابوں اور خطاب یافتہ ہمدردوں نے ایک وفد بنا کر بمبئی میں گورنر سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ باشی راؤ کے خلاف فوجی کارروائی نہ کی جائے۔ یہ مطالبہ سن کر انگریز گورنر نے معاملے کی سنگینی واضح کرنے کی کوشش کی تو وفد کے سربراہ نے اسے بتایا کہ ہمیں اس کے خلاف کارروائی پر اعتراض نہیں لیکن جب آپ گورا فوج کو اس ڈاکو کے مقابلے میں لائیں گے تو پھر ملک کی سیاسی فضا میں یہ کارروائی استعمار اور ایک مجاہدآزادی کے درمیان جنگ سمجھی جائے گی۔ اگر اس کارروائی میں باشی راؤ مارا گیا تو یہ سمجھا جائے گا کہ ایک ’کرانتی کار‘ (آزادی کا مجاہد) شہیدہوگیا اور اگر وہ بچ نکلا تو لوگ اسے دیوتا مان لیں گے۔ بیوروکریٹ گورنر کو یہ دلیل متاثر نہ کرسکی اور اس نے لشکر کشی کا حکم دے دیا۔ حسبِ توقع فوج بھی باشی راؤ پر قابو نہ پا سکی اورجلد ہی اپنی بیرکوں کی طرف لوٹ گئی۔ فوج کی آمد کے ساتھ ہی ڈاکو نے کرانتی کار کا روپ دھار لیا اور فوج کی ناکامی باشی راؤ کی کامیابی بن کر مہاراشٹر سے نکل کر گجرات تک پھیل گئی۔ کرانتی کار بن کے اس کی وحشت میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔انیس سو چھیالیس کے قریب لوٹ کے مال کی تقسیم پر اس کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ جھگڑا اتنابڑھا کہ انہوں نے اس کی جان لے لی، یوں یہ کرانتی کار ایک ڈاکو کی موت ہی مرگیا۔ فوج کسی بھی ملک کی وہ آخری قوت ہوتی ہے جو اگراپنے اہداف حاصل نہ کرپائے تو اس کا مقابلہ کرنے والی قوت سیاسی اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔دنیا بھر کی سیاسی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جہاں ضروریات کا درست تعین کیے بغیر فوج کو بھیجا گیا وہاں اس سے برسرپیکار قوتوں کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ہم نے سوات میں فوج بھیجی تو دہشت گردوں کا گروہ سیاسی حقیقت بن گیا۔ بلوچستان میں یہی کیا تو وہ لوگ بھی بین الاقوامی لیڈر بن گئے جو صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں بھی نہیں جیت سکتے تھے۔سول انتظامیہ کی نا اہلی کے باعث فوج کے اندرایسے گروہوں سے تصادم رفع کرنے کے لیے مذاکرات کرنے کی خواہش کا پیدا ہونا عین فطری تھا۔ لیکن اس کا انجام یہ ہوا کہ جیسے ہی فوج نے طاقت کے استعمال میں پس وپیش دکھائی معاملات مزیدالجھ گئے اور اتنے کہ ان کے سلجھنے کی کوئی فوری صورت نظر نہیں آتی۔ ایک لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے دوسرے لشکرکی سرپرستی کرنے کے طریق کار نے امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ داراداروں اور مسلح گروہوں کے درمیان فرق ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ لہٰذا اس وقت ہمارے ادارے بلکہ متحارب گروہوں کے درمیان توازن قائم رکھنے کے لیے کام کررہے ہیں۔ ایک کے ذریعے دوسرے سے نمٹنے کا یہ کھیل اس وقت کراچی کے علاقے لیاری میں عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ عبدالرحمٰن ڈکیت کے قتل سے شروع ہونے والی اس کہانی میں بلوچستان کے شورش پسندوں سے لے کر لشکرجھنگوی کے دہشت گردوں تک سب شامل ہیں۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان پیپلزپارٹی اس کھیل میں اہم ترین کھلاڑی تھی لیکن وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت بننے کے بعد وفاقی افسروں کی ترجیحات بدل چکی ہیں ۔ اچھی خبر یہ ہے کہ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے لشکر بمقابلہ لشکر کے نظریے پر عمل کرنے سے صاف انکار کردیا ہے اور مزید اچھی خبریہ ہے کہ پیپلز پارٹی بھی اس کھیل سے نکل کر صاف ستھری سیاست کرنا چاہتی ہے۔ اس کا ثبوت جمعے اور ہفتے کی درمیان شب اس وقت ملا جب لیاری کے خود ساختہ مالکان نے پیپلزپارٹی کے چار اہم رہنماؤں کو دھمکی دی کہ اگر ان کے خلاف ریاستی کارروائی کو سیاسی مسئلہ نہ بنایا گیا تو لیاری سے پارٹی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ ان چاروں رہنماؤں نے یہ مطالبہ صدر آصف علی زرداری تک پہنچایا مگر انہوں نے پوری بات سننے سے بھی انکار کردیا۔ اس انکار کے بعد لاہور میں ایک بم دھماکہ اس بات کا اشارہ ہے کہ لیاری میں بڑھنے والے دباؤ کا علاج لاہور سے بھی ہوسکتا ہے۔ صدراور وفاقی حکومت کے درمیان حکمت عملی پر اتفاق ابھی لیاری تک محدود ہے۔ اگر لیاری سے بھتہ خوری، اغوا اورگاڑیاں چھیننے والے ’سیاسی لیڈروں‘ کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو یہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مسائل کے حل کا آغاز ہوگا۔ کراچی میں جس انداز میں وفاقی اور صوبائی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی ابتداء ہوئی ہے ،اگرمزید کچھ عرصہ معاملات اسی نہج پر چلتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہماری فوج سیاست کی طرح اس کارِبیکار سے بھی نکل جائے گی۔ سہو: گزشتہ کالم میں ترکمانستان کے صدر کا نام سپارمورت اتایا وچ نیازوف کی بجائے نور سلطان نذربایوف لکھ گیا تھا، اس غلطی پرقارئین نے جس طرح ای میل کیں ان کا شکر گزار ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved