تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-05-2021

سرخیاں ان کی، متن ہمارے

لندن سے بھگوڑے جلد واپس لائیں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''لندن سے بھگوڑے جلد واپس لائیں گے‘‘ دراصل ان کے پاس واپسی کا کرایہ نہیں ہے، اس لیے وہ ابھی تک واپس نہیں آئے اور کرایے کے پیسے ہمارے پاس بھی نہیں ہیں جس کے لیے کچھ برادران سے گزارش کی ہے کہ وہ مزید کچھ پیسے دے دیں تو انہیں واپس لایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ لندن میں فلیٹس خرید کر تو بالکل ہی کنگال ہو گئے ہیں اور ان کی حالت قابلِ رحم ہو چکی ہے بلکہ یہاں بھی ان کے لیے نان و نفقہ چلانا خاصا مشکل ہو گیا ہے، بصورتِ دیگر ترین صاحب سے گزارش کی جائے گی کہ اس سلسلے میں اگر وہ تعاون کریں تو یہ مشکل آسان ہو جائے گی اور ان کے ساتھ حکومت کو انصاف کرنے میں بھی سہولت رہے گی۔ آپ اگلے روز پشاور میں خطاب کر رہے تھے۔
حکومت دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹ رہی ہے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹ رہی ہے‘‘ حالانکہ یہ کام ایک ہاتھ سے بھی چلایا جا سکتا ہے اور نتائج بھی توقع کے مطابق نکلتے ہیں اور دوسرے ہاتھ کو کسی اور مفید کام کے لیے مخصوص کیا جا سکتا ہے بلکہ کرنے والوں کے لیے تو یہ بائیں ہاتھ کا کام ہے اور دائیں کو اس کی خبر بھی نہیں ہونے پاتی اور وارے نیارے ہوتے رہتے ہیں، اس لیے حکومت سے گزارش ہے کہ اس قدر آسان کام کو مشکل بنانے کی کوشش نہ کرے اور دنیا بھر میں اپنے آپ کو تماشا نہ بنائے کیونکہ یہ بھی اس کی نا اہلی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اللہ معاف کرے۔ آپ اگلے روز کراچی سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ملک میں لوٹ مار آسان‘ احتساب مشکل ہے: فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''ملک میں لوٹ مار آسان‘ احتساب مشکل ہے‘‘ اور چونکہ ساری قوم ہی تساہل پسند واقع ہوئی ہے اس لیے ہر کوئی آسان کام کر رہا ہے اور مشکل کام سے دامن چھڑا رہا ہے، اور اسی لیے احتساب نہ ہونے کے برابر ہے اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور یہ چونکہ قومی فطرت کے تقاضے ہیں اس لیے ان کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا، اور اگر باندھا بھی جائے تو پانی کے زور سے پاش پاش ہو جاتا ہے، اس لیے ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے بلکہ حسبِ توفیق اس میں نہانے کے ساتھ ساتھ ڈبکیاں بھی لگا رہا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
ہر دن قرض میں اضافہ، معیشت کی
سانسیں بند ہو رہی ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ہر دن قرض میں اضافہ، معیشت کی سانسیں بند ہو رہی ہیں‘‘ اگرچہ ہمارے دور میں بھی قرض میں ہر روز اضافہ ہوتا تھا لیکن ہم اسے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ بھی کرتے تھے جس میں ہماری اپنی فلاح و بہبود بھی شامل تھی کیونکہ ہم بھی عوام کا ایک حصہ ہیں اور ہمیں ہمارے پیارے عوام سے جدا نہیں کیا جا سکتا جبکہ معیشت کی سانسیں اس وقت بھی بند ہوتی تھیں لیکن ہم نے اسے آکسیجن سلنڈر پر ڈال رکھا تھا کیونکہ اس وقت کورونا نہیں تھا اور گیس سلنڈر بہ آسانی دستیاب تھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی رہنمائوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
لڑکھڑایا مگر چلتا رہا
یہ البرٹا، کینیڈا اور انگلینڈ کا سفر نامہ ہے جسے عبدالمجید خاں نے تحریر کیا ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے: پردیس بسنے والے ان درخشاں ستاروں کے نام جو آنے والے کل میں اپنے دادا اور نانا کا نام ادبی ذوق کی روشنی سے منور کرتے رہیں گے ؎
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
پسِ سرورق توصیفی رائے دینے والوں میں ڈاکٹر انورسدید، انتظار حسین اور ایم اے راحت شامل ہیں اور مصنف کی تصویر درج ہے، جبکہ اندرونِ سرورق پروفیسر حسن عسکری کاظمی اور ڈاکٹر صغرا صدف کی رائے درج ہے۔ آغاز میں فرخ سہیل گوئندی کی تحریر ہے۔ اندازِ بیان رواں اور دلچسپ ہے۔
اور‘ اب آخر میں حسین مجروح کی شاعری:
زمین پہ بھوک، فلک پر عذاب کا ڈر ہے
اور اس کا سہرا بھی پروردگار کے سر ہے
سوانح عمری لکھے کون اس ستم گر کی
کہ عشق آمرِ مطلق، کبھی گداگر ہے
خدا ہے ایک مگر ایک سا کہیں بھی نہیں
سو، اپنے اپنے خدا کا جدا جدا گھر ہے
پسِ غروب ٹھہرتا ہے کس کے ہاں سورج
افق کے پار کسی برف زاد کا گھر ہے
عجب ہنر ہے کہ اہلِ ہنر بھی کھوجتے ہیں
مآلِ بے خبری جو خبر کے اندر ہے
تضاد پیشہ ازل سے ہے زندگی مجروحؔ
سو کیا عجب کہ ہر اک خیر میں کوئی شر ہے
٭......٭......٭
کبھی جو ملتی ہے فرصت تعاقبِ زر سے
تو گرد جھاڑنے لگتا ہوں من کی چادر سے
یہ وقت ہے کوئی چارہ کترنے والی مشین
جو کاٹ دیتی ہے منظر کو پیش منظر سے
کسے دماغ کہ فتح و شکست کا سوچے
ہمیں تو آگے نکلنا ہے بس مقدر سے
عجب سخا ہے کہ ہیں روبروئے قلزمِ حسن
بہم نہیں مگر اک بوند اس کے اندر سے
کبھی توازنِ ہستی ہوا خراب تو پھر
ہمیں بدلنا پڑا اس زمین کو اندر سے
طوافِ عمر میں مجروحؔ کیوں نکلتے ہیں
بہت سے دائرے اک دائرے کے اندر سے
آج کا مطلع
امید بھی نہیں تھی، انتظار بھی نہیں تھا
اگرچہ تیر ابھی آر پار بھی نہیں تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved