تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     21-05-2021

سیاق و سباق کا دائرہ

ہر معاملہ متعلق معاملات کے ساتھ اچھا لگتا ہے۔ دنیا کی یہی ریت ہے۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے‘ یہ حقیقت اپنی جگہ رہتی ہے کہ انسان اُسی وقت تک کامیاب کہلا سکتا ہے جب وہ متعلقات کا پورا خیال رکھے یعنی غیر متعلق باتوں اور معاملات میں الجھ کر نہ رہ جائے۔ ''بریو نیو ورلڈ‘‘ کے مصنف آلڈس ہکسلے کا مشہور جملہ ہے کہ آج ہر بات غیر متعلقات کے سمندر میں غرق ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ جملہ کم و بیش 80 سال پہلے کہا گیا تھا۔ تب میڈیا نے اتنی ترقی نہیں کی تھی‘ ہر چیز اپنے ابتدائی مرحلے میں تھی۔ اس پر بھی آلڈس ہکسلے کو اتنی الجھن محسوس ہوتی تھی تو سوچئے کہ اگر وہ آج ہوتے تو اُن کے دل و دماغ پر کیا گزر رہی ہوتی۔ اب تو ہر طرف غیر متعلقات ہی پائے جاتے ہیں۔ لوگ کام کی ہر بات کو ایک طرف ہٹاکر غیر متعلق امور میں یوں الجھے ہوئے ہیں کہ لاکھ سمجھانے پر بھی، اور سمجھ جانے پر بھی، اُن سے نجات حاصل نہیں کر پاتے۔ زندگی بسر کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ کوئی چاہے تو سوچے سمجھے بغیر جیسے تیسے جیے اور پھر دنیا سے چل دے۔ ایسا کرنے سے ٹوکنے اور روکنے والا کوئی نہیں۔ سوال یہ نہیں کہ کوئی روک سکتا ہے یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ سوچے سمجھے بغیر یعنی بے ڈھنگے انداز سے جینے کا نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے اور یوں زندگی جیسی نعمت کس طور ضائع ہوتی ہے۔
ہر چیز اپنے سیاق و سباق میں اچھی لگتی ہے۔ ہر دور کے اہلِ علم نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ انسان کو سیاق و سباق یا تناظر کا خیال رکھتے ہوئے جینا چاہیے۔ اس بات کو زیادہ آسانی سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ہمیں ایسے تمام معاملات سے دور رہنا چاہیے جو ہم سے زیادہ تعلق نہ رکھتے ہوں۔ دنیا میں ہزاروں طرح کے معاملات ہیں مگر وہ سب کے سب‘ اپنی جگہ اہم ہونے کے باوجود‘ ہمارے کام کے نہیں۔ ہمیں تو صرف اُن معاملات پر متوجہ رہنا ہے جو ہمارے لیے اہم ہوں۔ فی زمانہ معلومات کی بھرمار ہے۔ ہر شعبے سے متعلق اِتنی زیادہ معلومات بازار میں ہیں کہ انسان اچھی بُری ہر طرح کی معلومات کے ڈھیر میں گم ہوکر رہ گیا ہے۔ میڈیا کی بے مثال ترقی نے معاملات کو اِتنا الجھادیا ہے کہ اب سلجھے ہوئے انداز سے جینا ایک باضابطہ ہنر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ لوگ یوں جی رہے ہیں کہ جی نہیں پارہے۔ کل تک معاملات بہت مختلف تھے۔ لوگ کسی نہ کسی طور جی لیتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے! اب اگر کوئی زندگی کو سنجیدگی سے نہیں لے گا اور ڈھنگ سے جینے پر متوجہ نہیں ہوگا تو قدم قدم پر ٹھوکر کھائے گا۔ اچھی زندگی بسر کرنے کے لیے جو کچھ درکار ہوتا ہے وہ کسی دور میں آسانی سے میسر ہو پاتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے! اب تو ''گلا کاٹ‘‘ مقابلہ ہے۔ کچھ بننا اور کرنا ہو تو بہت کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہر شعبے میں مسابقت اِتنی زیادہ ہے کہ نظر ذرا سی چُوکی اور انسان پیچھے رہ گیا۔ اور پھر دوڑ میں دوبارہ شریک ہونے کے قابل بننے میں ایک زمانہ لگتا ہے۔
آج سوشل میڈیا، ویب سائٹس اور انفرادی سائبر پیجز کی مدد سے انسان کسی بھی شعبے سے متعلق بہت سی معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ یہ معلومات چونکہ ملی جلی ہوتی ہیں اس لیے اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کون سی بات کس حد تک درست ہے اور اُسے تسلیم کرنے کی صورت میں فائدہ یا نقصان کتنا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول اب محض رجحان نہیں رہا بلکہ باضابطہ ذہنی یا نفسی مرض میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر معلومات حاصل اور قبول کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر ان کے تمام معاملات غیر متعلق باتوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے اس کا اندازہ آپ کو کمرۂ امتحان میں بخوبی ہوسکتا ہے۔ کسی بھی شعبے کا امتحان دیتے وقت آپ کو وہی کچھ لکھنا ہوتا ہے جو مطلوب ہو۔ اگر کسی نے انٹرنیٹ کی مدد سے بہت کچھ جان لیا ہے اور لوگ بھی اُس کی ''جانکار‘‘ حیثیت کو خوب قبول کرتے ہیں تب بھی یہ دیکھنا پڑے گا کہ کمرۂ امتحان میں اُس نے دل و دماغ کو کس طرح قابو میں رکھا ہے اور اپنی صلاحیت کو کہاں تک بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ اگر کوئی تاریخ کا امتحان دے رہا ہے اور اُس سے پوچھے جانے والے سوالات جس دور سے متعلق ہیں‘ ان کے جوابات بھی اسی دور سے متعلق ہی ہونے چاہئیں۔ اب اگر امتحان دینے والے نے بہت کچھ پڑھ رکھا ہے اور وہ واقعی بہت کچھ جانتا اور سمجھتا ہے تب بھی یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ امتحانی کاپی میں کیا لکھ رہا ہے۔ امتحانی کاپی میں جو کچھ بھی لکھا جاتا ہے وہ اگر سیاق و سباق سے ہٹ کر ہو تو بامعنی ہونے پر قابلِ قبول نہیں ٹھہرتا۔ کاپی جانچ کر مارکس دینے والا صرف یہ دیکھتا ہے کہ امتحان دینے والے نے اپنے مضمون یا موضوع کو بیان کرنے پر کتنی محنت کی ہے، کتنی توجہ دی ہے۔ مارکس ایران توران کی ہانکنے پر نہیں ملتے بلکہ اس بات پر دیے جاتے ہیں کہ امتحان دینے والے نے سیاق و سباق کا کتنا خیال رکھا ہے۔ نئی نسل کو یہ نکتہ اچھی طرح سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ سیاق و سباق کا خاص خیال رکھے، متعلقہ معاملات سے کام رکھے اور جن معاملات سے کوئی تعلق نہ بنتا ہو اُن سے کنارہ کش رہے۔ ایسا اس لیے ضروری ہے کہ اگر توجہ نہ دی جائے تو غیر متعلق معاملات ہماری زندگی کا حصہ بنتے جاتے ہیں اور یوں ہم الجھتے چلے جاتے ہیں۔ سیاق و سباق کا معاملہ زندگی بھر ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ قدم قدم پر ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ہمارے خیالات اور اعمال دونوں درست ترین تناظر میں ہوں۔ تعلیم ہو یا تربیت، پیشہ ورانہ معاملات ہوں یا تفریح، گھریلو امور ہوں یا حلقۂ احباب کے معاملات، گلی کی بات ہو یا پورے معاشرے کی ... ہر مقام پر اور ہر معاملے میں صرف یہ بات کام آتی ہے کہ ہم موزوں ترین فکر و عمل اپنائیں یعنی کوئی بھی بات بلا جواز طور پر سیاق و سباق سے ہٹ کر نہ ہو۔
فی زمانہ یہ سب کچھ اس لیے لازم ہوچلا ہے کہ اب ہر شعبے میں غیر معمولی مسابقت پائی جاتی ہے۔ دوسروں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور کچھ کر دکھانے کے لیے لازم ہوچکا ہے کہ انسان تمام معاملات پر گہری نظر رکھے اور اپنی کارکردگی کا گراف بلند کرنے پر متوجہ رہے۔ اگرچہ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد ہی سے معاملات خرابی کی طرف گئے ہیں اور بہت سی معلومات بن بلائے مہمان کی طرح ہماری زندگی میں در آئی ہیں کہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ بہت کچھ ہماری زندگی کا حصہ ہوتا جاتا ہے۔ اگر ہم مزاحمت نہ کریں تو معاملات ایسے بگڑتے ہیں کہ پھر سنوارے نہیں سنورتے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی ہے۔ دوسروں سے جُڑے رہنا اب ایک بڑے اور خطرناک ذہنی مرض کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ دنیا بھر میں اربوں افراد اب غیر متعلق باتوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ صورتِ حال روز بروز بگڑتی جارہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ماہرین نے خرابیوں کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا اس لیے انہوں نے تدارک بھی تجویز کرنا شروع کردیا تھا۔
پاکستان جیسے ممالک میں کروڑوں لوگ سیاق و سباق سے ہٹ کر شب و روز بسر کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں‘ وہ پیدا ہو رہی ہیں اور زندگی کو الجھنوں سے دوچار کرتی جارہی ہیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور تدارک کے بارے میں سوچنے والے اُتنے بھی نہیں جتنا آٹے میں نمک ہوا کرتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سرکاری اور نجی سطح پر لوگوں کی رہنمائی کی جائے، انہیں غیر ضروری باتوں میں الجھنے سے پیدا ہونے والی خرابیوں کے بارے میں زیادہ کھل کر بتایا جائے۔ نئی نسل کو اس سلسلے میں زیادہ راہ نمائی کی ضرورت ہے۔ وہ غیر متعلق معاملات میں الجھ کر تعلیم اور تربیت دونوں ہی معاملات میں کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ وقت کے ضیاع سے جو تاسّف پیدا ہوتا ہے وہ زندگی بھر پریشان کرتا ہے۔ سیاق و سباق کے دائرے میں رہنے سے وقت کا ضیاع بخوبی روکا جاسکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved