میرے کالم کے حوالے سے میاں محمد ابراہیم کا مراسلہ پیش خدمت ہے۔ ’’محترم ناجی صاحب!السلام علیکم! امید ہے مزاج بخیر ہوںگے۔ آپ نے’’صحافیانہ بے تابیاں‘‘ لکھ کر کس دور کی یادیں تازہ کر دی ہیں؟ سب سے پہلے ایک وضاحت!آپ نے’’ڈیلی بزنس‘‘ کے مالک و مدیر کا نام چوہدری شاہ دین لکھاہے۔ اگر میری یادداشت گھاس نہیں کھا گئی تو مرحوم کا صحیح نام چوہدری شاہ محمد عزیز تھا۔ اسی طرح’’غریب‘‘ کے مالک و مدیر چوہدری ریاست علی آزاد،’’سعادت‘‘ کے جناب ناسخ سیفی اور ’’عوام‘‘ کے، مرحوم خلیق قریشی ہوا کرتے ہیں۔ اس وقت یہ چار اخبار ہی مقامی طور پر نکلا کرتے تھے۔ لاہور کے اخبارات عموماً شام کے وقت پہنچا کرتے تھے اور اگلے دن تقسیم ہوتے تھے اور ان پرایک دن ایڈوانس کی تاریخ چھپی ہوتی تھی۔ آپ ہی کی طرح کے ایک دو واقعات میری یادداشت میں بھی محفوظ ہیں۔ جو میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ میں ان دنوں لائل پور میں’’زمیندار‘‘ کی نمائندگی کرتا تھا۔ ایک دفعہ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین مرحوم جنہیں عوام نے قائد ملت کا خطاب دے رکھا تھا۔ موجودہ جناح کالونی کی جگہ پر لگنے والی صنعتی نمائش کے افتتاح کیلئے آئے ہوئے تھے اور ان کا قیام سرکٹ ہائوس میں تھا، جو زراعتی کالج کے اندر واقع تھا۔ آپ کی طرح میں بھی نوجوان تھا اور کسی نہ کسی طرح خواجہ صاحب سے ملنا چاہتا تھا۔میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور میں نے سرکٹ ہائوس میں کام کرنے والے مالی سے دوستی گانٹھی اور صبح سویرے مالی کے اسسٹنٹ کے طور پر دھوتی کرتا پہنے، ہاتھ میں رنبہ اور کاندھے پر کسی(کدال) رکھے مالی کے ساتھ ہی سرکٹ ہائوس میں داخل ہو گیا۔ باہر گیٹ پر صرف ایک کانسٹیبل پہرہ دے رہا تھا جو مالی کو روزانہ سرکٹ ہائوس میں کام کرتے دیکھا کرتا تھا‘ لہٰذا اس نے مالی کے ہیلپر کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ مالی کے ساتھ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق ہم نے گلاب کے پھولوں کا ایک بڑا گلدستہ بنایا جسے کمرے میں سجانے کیلئے میں اندر چلا گیا۔ خواجہ ابھی تک جائے نماز بچھائے ذکر اذکار میں مصرو ف تھے۔ میں سلام کر کے کمرے سے باہر نکل آیا اور برآمدے میں لگے پھولوں کے گملوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گیا۔ تھوڑی دیر میں کانسٹیبل نے مقامی اخبارات کا پلندہ برآمدے میں لگی میز پر لاکر رکھ دیا۔ چند منٹ بعد خواجہ صاحب بھی اٹھ کر برآمدے میں آگئے اور اخبارات کا مطالعہ کرنے لگے۔میں خاموشی سے مالی کے پاس گیا۔ اپنی دھوتی اتار کر اس کے حوالے کی کیونکہ دھوتی کے نیچے میں نے پاجامہ پہن رکھا تھا، پیڈ اور پین ہاتھ میں پکڑے خواجہ صاحب کو جا سلام مارا اور جلدی سے اپنا تعارف’’زمیندار‘‘کے نمائندے کی حیثيت سے کروا کے اخبار کا تازہ پرچہ انکے سامنے رکھ دیا ۔جس میں خواجہ صاحب کی تصویر کے ساتھ لائل پور آمد کی خبر چھپی ہوئی تھی۔ اس دور میں’’زمیندار‘‘سے کون واقف نہیں تھا۔ خواجہ صاحب نے انتہائی مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ مجھے سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے پہلا سوال گندم کی مہنگائی اور عدم دستیابی کے بارے میں کیا۔ خواجہ صاحب فرمانے لگے۔’’بیٹا! ملک میں اناج کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پنجاب اور سندھ کے وڈیروں اور بڑے جاگیرداروں نے گندم چھپا لی ہے۔ حکومت نے ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گندم کا ریٹ ایک آنہ فی سیر مقرر کر کے ،ذخیرہ اندوزوں کے گوداموں پر چھاپے مار کر تمام گندم ضبط کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ چند دن میں بہت سی گندم منڈیوں میں آجائیگی‘‘۔ اسکے علاوہ بھی کئی سوالات کے، خواجہ صاحب نے خندہ پیشانی سے جوابات دئیے۔ اتنے میں سرکاری افسروں کی آمد شروع ہو گئی۔ میں اجازت لے کر مالی کے کوارٹر میں چلا گیا۔ وہیں بیٹھ کر خبر گھسیٹی اور بھاگم بھاگ جی ٹی ایس کے اڈے پر پہنچ کر لاہور جانے والی بس کے ڈرائیور کے حوالے کی کہ وہ لاہور پہنچتے ہی’’زمیندار‘‘ کے دفتر پہنچا دے۔ اسی طرح شاید آپ کو یاد ہو، گورنر جنرل ملک غلام محمد مرحوم اپنے ایک دیرینہ لنگوٹیے دوست، جو محکمہ تعلیم میں افسر تھے، سے ملنے خفیہ طور پر لائل پور آیا کرتے تھے۔ مجھے کہیں سے اس کی بھنک پڑ گئی۔ میں نے اس افسر صاحب کے گھر کام کرنے والی مائی سے راہ و رسم پیدا کی۔ ایک ٹیلی فون آپریٹر سے دوستی گانٹھی اور سی آئی ڈی کے ایک انسپکٹر سے یارانہ لگایا۔ اس طرح جب اگلی دفعہ ملک صاحب لائل پور آئے تو مجھے بھنک پڑ گئی۔ میں نے بے دھڑک محکمہ تعلیم کے افسر صاحب کی گھنٹی جا بجائی۔ انکی بیٹھک سے ملک صاحب کے قہقہوں کی گونج اور پنجابی مغلظات کی بوچھاڑ صاف سنائی دے رہی تھی۔ صاحب خانہ نے مجبوراً مجھے ملک صاحب سے تو ملا دیا لیکن ملک صاحب نے اپنی موٹی موٹی لال آنکھیں دکھاتے اور ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوئے فرمایا۔’’سن اوئے کاکا، مری وزٹ قطعی پرائیویٹ اے۔ اگر اسدی بھنک کسے ہور اخباری نمائندے نوں پے گئی یاں کتے خبر چھپ گئی ،تے میں تیری دھون (گردن) دا منکا توڑ دیا ںگا‘‘۔چنانچہ یہ خبر آج تک میرے سینے میں ہی دفن ہے‘‘۔ میاں صاحب کا خط پڑھ کر پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔یہ میرا سہو تھا کہ میں چوہدری شاہ محمد عزیز کا نام صحیح نہ لکھ سکا۔وقت کی گرد جھاڑ کے پرانے نقوش نکالے جائیں تو وہ کافی دھندلے ہوتے ہیں۔خط میں آپ اس دور کی صحافیانہ سرگرمیوں کی ایک اور جھلک دیکھیں گے۔رپورٹرزکیا کیا جتن کیا کرتے تھے؟اوربعض آج بھی کرتے ہیں۔یہ ہمارے پیشے کا حسن ہے۔شرط یہ ہے کہ پیشہ وارانہ جنون زندہ رہے۔خط میں خواجہ ناظم الدین کا ذکر پڑھ کے کچھ پرانی باتیں یاد آگئیں۔ قائد اعظم کے بعد خواجہ صاحب انکی جگہ گورنر جنرل بنائے گئے۔یہ بالکل درست فیصلہ تھا۔خواجہ صاحب کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور وہ تحریک پاکستان کے ان رہنمائوں میں تھے ،جنہوں نے قائداعظم کا بھر پور ساتھ دیا اورپاکستان کا حصہ بننے والے دیگر تمام صوبوں سے زیادہ ووٹ مشرقی پاکستان نے ڈالے۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ،جب وزارت عظمیٰ کا منصب خالی ہوا تو خواجہ صاحب گورنر جنرل کا منصب چھوڑ کے وزیراعظم بن گئے لیکن مغربی پاکستان میں سازشی جاگیرداروں، بیوروکریٹس ، سرداروں اور خوانین نے ،گٹھ جوڑ کر کے خواجہ صاحب کے خلاف سازش شروع کر دی کیونکہ انکا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ایوب خان جس طرح خواجہ ناظم الدین کا ذکر کرتے ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مشرقی پاکستانیوں کے بارے میں مغربی پاکستان کے لیڈر اور جنرل کتنا حقارت آمیز رویہ رکھتے تھے۔یہ بات آپ نے خواجہ صاحب کی زبانی پڑھ لی ہو گئی کہ انہیں غیر مقبول کرنے کیلئے گندم ذخیرہ کر کے قلت پیدا کر دی گئی تھی اور پھر اخبارات میں انکا نام قائد ملت کی بجائے ’’قائد قلت‘‘ مشہور کیا گیا۔انہیں مزید غیر مستحکم کرنے کیلئے ختم نبوت کے نام سے ایک تحریک چلائی گئی۔میں بھی نو عمری کی وجہ سے، اس میں شامل رہا ہوں۔پنجاب میں بد امنی پیدا کر کے خواجہ صاحب کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔یہ مشرقی پاکستان کے عوام کو پہلا جھٹکا تھا، جسے انہوں نے شدت سے محسوس کیا کیونکہ خواجہ صاحب انتہائی نیک دل، شریف اور انسان پرور شخصیت تھے۔انکی جگہ ایک لاہوری پھکڑ باز ،بیوروکریٹ، ملک غلام محمد نے لی اور پھر قائداعظم کے چھوڑے ہوئے گورنر جنرل ہائوس میں جو تماشے لگے انکی تفصیل قدرت اللہ شہاب نے لکھ دی ہے اور اس شخص نے پاکستان کے آئین، اسمبلیوں اور جمہوریت کا جو جھٹکا کیا، اس کے بعد پاکستان کا ایک رہنا مشکل ہو گیا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved