اسرائیل کی حالیہ انسانیت سوز بربریت اور چنگیزیت کو عیاں کرنے کے ''جرمِ عظیم‘‘ میں ہزاروں صارفین کے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا اکائونٹس بلاک کئے جا چکے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے ہر کان اور ہر زبان پر یہودیوں کی گرفت کس قدر مضبوط ہے۔ بی بی سی کی ایک خاتون رپورٹر کی فلسطینیوں کے حق میں زبان کیا پھسلی‘ اگلے ہی لمحے اسے گھر بھیج دیا گیا۔ وائس آف امریکا کے ایک صحافی کا فلسطین کے حق میں کیا گیا ٹویٹ اس کی برطرفی کا سبب بن گیا۔ برطانیہ، فرانس، امریکا اور برلن سمیت یورپ کے کئی شہروں میں عوام کے جم غفیر نے اسرائیل کے خلاف تاریخی مارچ کئے لیکن غیر ملکی میڈیا کی زبانیں گنگ کر دی گئیں۔ یہی وہ ادارے ہیں جو پاکستان جیسے ممالک کے حوالے سے آزادیٔ اظہار رائے اور صحافیوں کو درپیش مشکلات کا رونا روتے نہیں تھکتے مگر ان کی دو عملی حالیہ دنوں میں خوب کھل کر سامنے آئی۔
ایک یہودی کا مشہور مقولہ ہے کہ ''تم بھی جانتے ہو اور یہ احمق امریکی بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وائٹ ہائوس میں چاہے جو بھی بیٹھا ہو‘ امریکا کے اصل حکمران ہم یہودی ہی ہیں۔ تم دیکھ چکے ہوکہ کوئی بھی امریکی صدر ہمیں چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا‘ چاہے ہم کچھ بھی کریں اور یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ کانگریس اور سینیٹ کو ہم ہی کنٹرول کرتے ہیں۔ ہر قابل ذکر میڈیا ہمارے کنٹرول میں ہے۔ اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ امریکی خالقِ کائنات پر تو تنقید کر سکتے ہیں لیکن کسی امریکی میں یہ ہمت ہی نہیں کہ وہ اسرائیل پر تنقید کرنے کی ہمت اور جرأت کر سکے‘‘۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں صرف وہی سنا جا سکتا‘ وہی سنایا جا سکتا‘ اور کہا جا سکتا اور وہی دکھایا جا سکتا ہے جو یہودی چاہتے ہیں۔ یہاں پر یہ واضح رہے کہ یہاں یہودی سے مراد اسرائیلی اور صہیونی ہیں وگرنہ دنیا میں یقینا اچھے اور انصاف پسند یہودی بھی شامل ہیں۔ حالیہ دنوں میں یہودیوں کی ایک تنظیم کا خط خاصا مقبول ہو رہا ہے جس میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہمارے اجداد کو نازی جرمنی میں منظم نسل کشی کے ذریعے سے قتل کیا گیا اور ہم ہر جگہ پر نسل کشی کی مذمت کرتے ہیں خواہ وہ کرنے والے اسرائیلی ہی کیوں نہ ہوں۔
گزشتہ شام ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جب یہ کہا کہ اس وقت فلسطین کی صورتِ حال اور اسرائیلی مظالم سوشل میڈیا پر تو دیکھے جا رہے ہیں لیکن انٹرنیشنل میڈیا وہی کچھ دکھا رہا ہے جو اسرائیل چاہتا ہے تو سی این این کی خاتون میزبان یک دم الرٹ ہو کر حملہ آور ہوئی کہ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ جس پر قریشی صاحب نے ڈپلومیٹک جواب دیتے ہوئے کہا کہ عمومی تاثر (Perception) تو ہر طرف یہی ہے۔ وزیر خارجہ نے میڈیا میں اسرائیل کی ''ڈیپ پاکٹس‘‘، اثر و رسوخ، تعلقات اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کی بات کی تو میزبان اینکر نے فوری طور پر پینترا بدلتے ہوئے اس بیان کو اسرائیل سے ہٹا کر یہود پر چسپاں کر دیا اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے صہیونیوں کو نہیں‘ کسی خاص مذہب کے پیروکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال نے لگ بھگ ایک صدی قبل بتا دیا تھا کہ
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
آج یہ معاملہ پوری طرح کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے غیر ملکی میڈیا گروپس کا کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے‘ کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ لوگ میڈیا گروپس‘ فلم میکنگ اداروں اور دیگر ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کے باعث دنیا بھر میں جسے چاہتے ہیں زمین سے آسمان اور آسمان سے زمین پر گرا دیتے ہیں۔ اپنے کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے‘ حالات کا رخ جس طرف چاہیں‘ مو ڑ دیتے ہیں۔ گوئبلز نے کہا تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سب سچ سمجھنے لگیں۔ یہ گروہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اسی طریقہ کار کو اختیار کرکے عام آدمی کا ذہن مائوف کر دیتا ہے۔ کل تک ہپناٹزم کے ذریعے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے دماغ کو اپنے قبضے میں لیا جاتا تھا لیکن آج بڑے بڑے غیر ملکی میڈیا اداروں کے ذریعے انسانوں کے دماغ کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور انسانی دماغ کو کنٹرول کرنے والا ریموٹ اس وقت اسرائیل اور اس کے حامیوں کے قبضے میں ہے۔ دنیا بھر میں بیشتر غیر ملکی میڈیا ادارے وہی کچھ بتا رہے ہیں جو اسرائیلی چاہتے ہیں۔ مغربی میڈیا سے مرعوب کچھ لوگ آج یہاں بھی غیر ملکی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں شائع و نشر شدہ مضامین، خبروں اور تجزیوں کے حوالے دے دے کراپنے سامعین اور ناظرین کے ذہنوں میں یہ فلسفہ بٹھا دیتے ہیں کہ جو کچھ آپ سن اور دیکھ رہے ہیں‘ صرف یہی سچ ہے۔
دنیا بھر کے زیادہ تر اخبارات، رسائل اور جرائد ہوں یا پھر غیر ملکی ٹی وی چینلز‘ سب ادارے یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ دنیا کے معروف جریدے واشنگٹن پوسٹ‘ نیوز ویک‘ وال سٹریٹ جرنل‘ جس گروپ کے زیر انتظام امریکا بھر سے 24 دوسرے اخبارات اور میگزین بھی شائع ہوتے ہیں‘ یہ سب بھی انہی کے کنٹرول میں ہیں؟ امریکا میں اس وقت جن اخبارات اور میگزین کی خبروں کا حوالہ دیا جاتا ہے‘ جو رائے عامہ کے ذریعے پالیسی سازوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ان میں نیوز ویک، دی ٹائمز، یو ایس نیوز، ورلڈ رپورٹ، وال سٹریٹ جرنل، واشنگٹن پوسٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہ سب چند افراد کی ملکیت ہیں جو اس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں جس کا تناسب امریکا میں محض 2.2فیصد ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اے بی سی، ای پی این ایس، ٹائم وارنر اور ایچ بی او جیسے ٹی وی نیٹ ورک بھی ان کے زیر تصرف ہیں۔ ڈزنی پکچرز جو آج دنیا کا سب سے بڑا میڈیا ادارہ ہے‘ کس کی ملکیت ہے؟ ان کے علاوہ بھی امریکا بھر میں 225 ٹی وی سٹیشن کے مالک یہی لوگ ہیں جبکہ یورپ بھرمیں پھیلے ہوئے ٹی وی چینلز کے بڑے حصہ دار بھی یہی ہیں۔ اس ضمن میں نیوز ہائوس جیسے ادارے کی مثال ہی کافی ہے جس کے تحت 26 اخبارات اور رسائل شائع ہوتے ہیں جن میں کلیولینڈ، دی نیویارک سٹار، نیو اورلینز ٹائمز وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
حالیہ دنوں میں مذکورہ اداروں اور ان سے مرعوب اداروں نے دنیا بھر میں جو کردار ادا کیا‘ وہ تو دنیا کے سامنے ہے‘ البتہ اگر تاریخ اٹھا کر دیکھا جائے تو ہر اہم موقع پر مخصوص میڈیا اداروں نے پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک کے خلاف محاذ کھولے رکھا۔ وزیرستان آپریشن میں 4 مئی 2005ء کو جب امریکا کو مطلوب القاعدہ کے اہم لیڈر ابوالفراج اللبی کو پاک فوج نے گرفتار کیا تو نیوز ویک اور واشنگٹن پوسٹ نے متنازع کارٹونز کا شوشہ چھوڑ کر پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا دی۔ جذباتی افراد نے اپنے ہی ملک اور اداروں کے خلاف آواز اٹھانے سے قبل یہ تک نہ سوچا کہ یہ خبریں کون دے رہا ہے‘ یہ کوئی منظم سازش تو نہیں؟ جب تک بات سمجھ آئی‘ کافی دیر ہو چکی تھی۔ اسی طرح جب وانا‘ وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کامیابی کی جانب گامزن تھا تو وال سٹریٹ جرنل نے اتحادی افواج کے کما نڈر انچیف جنرل ڈیوڈ بارنو کے نام سے یہ جھوٹی خبریں شائع کر دیں کہ وانا میں جاری آپریشن امریکی اور پاکستانی افواج مشترکہ طور پر کر رہی ہیں‘ نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک بالخصوص کے پی اور فاٹا میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ امریکی میڈیا کی منظم سازشوں سے پاکستان میں فتنہ و فساد کی آگ تو بھڑک اٹھی مگر سوال یہ ہے کہ اس سے بھارت اور اسرائیل کے سوا فائدہ کسے ہوا؟