جہانگیر خان ترین گروپ اچانک سے سامنے آیا، الگ پارلیمانی گروپ اور لیڈروں کا اعلان کیا اور پھر وزیر اعلیٰ پنجاب سے چند ارکان نے ملاقاتیں کر کے معاملات حل ہونے کا اعلان بھی کر دیا۔ معاملات حل ہونے کا اعلان کرنے والوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے جہانگیر خان ترین کے لیے کوئی رعایت نہیں مانگی بلکہ اپنے انتخابی حلقوں کے مسائل پر بات کی۔ اس کے ساتھ ہی خبر آئی کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے تحت 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے پر وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے قومی اسمبلی میں سوالات کے جواب دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس منصوبے کو وزیر اعظم عمران خان براہ راست دیکھ رہے ہیں، اس لیے جواب بھی وہی دیں گے۔ تیسری اور اہم خبر یہ ہے کہ بجٹ سے پہلے ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کو ایک ایک وزارت دی جا رہی ہے۔
بظاہر ان خبروں کا باہم کوئی تعلق یا ربط نظر نہیں آتا‘ لیکن جناب وزیر اعظم کا تین نکاتی بنیادی منشور یا تین نعرے ذہن میں تازہ کریں اور پھر ان خبروں پر دوبارہ سے غور کریں۔ امید ہے‘ آپ کو صورت حال کافی واضح نظر آنے لگے گی۔ پہلا نعرہ 'چوروں، ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا‘ دوسرا نعرہ 'بہترین حکومت بناؤں گا‘ اور تیسرا لیکن سب سے اہم نعرہ 'لڑائی مول نہیں لوں گا مل کر چلیں گے‘۔
اگر میری بات اب بھی مبہم ہے یا قابل فہم نہیں تو اس کی وضاحت کیے دیتا ہوں تاکہ سمجھ آ سکے۔ چوروں ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا، میرے خیال میں اس سے کپتان صاحب کی مراد پاکستان پر حکومت کرنے والے دو خاندان تھے۔ تین سال ہو چلے، تمام سرکاری ادارے استعمال اور ان کی توانائیاں خرچ کر ڈالی گئیں‘ لیکن کسی ایک بھی سابق لیڈر پر کوئی جرم ثابت نہیں کر پائے‘ الٹا اپنی ہی کابینہ کے کئی ارکان کو کسی الزام کے تحت نکالتے اور پھر کابینہ میں شامل کرتے رہے۔ ایک مشیر کو نندی پور سکینڈل کی تحقیقات کے دوران فارغ کیا اور پھر دوبارہ مشیر لگا لیا۔ ایک وزیر کو عہدے کے نا جائز استعمال پر باہر کیا‘ لیکن پھر ریلوے کی وزارت دے دی۔ ایک وزیر کو گیس کے بلوں کے بارے میں لاپروائی پر تیل و گیس کی وزارت سے ہٹایا‘ بعد ازاں ہوا بازی کی وزارت دے دی اور پھر انہی وزیر صاحب نے پائلٹوں کے لائسنسوں سے متعلق ایسا بیان دیا کہ پاکستان کی ہوا بازی کی صنعت بحران سے دوچار ہو گئی‘ ہماری قومی ایئر لائن کی بیرونِ ملک پروازوں پر دنیا کے مختلف حصوں میں پابندی عائد کر دی گئی۔ پنجاب میں ایک وزیر کو نیب نے پکڑا تو اسے وزارت سے ہٹا دیا گیا‘ لیکن پھر دوبارہ وزیر بنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی ایسے ہیں جنہیں باقاعدہ کرپشن پر ہٹایا لیکن پارٹی عہدے دے کر انہیں با اختیار بھی رکھا۔
جن کو چور ڈاکو کہا گیا انہی کے ساتھ ہاتھ بھی ملایا‘ اور اب کابینہ میں توسیع دیکھ لیں کہ کن جماعتوں کو وزارتیں پیش کی جا رہی ہیں۔ جنہیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا‘ انہی کو اتحادی بنایا، اب ان کو مزید ایک وزارت کا تحفہ پیش کیا جا رہا ہے۔ جن کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے لندن تک کا سفر کیا انہیں ٹیم میں بٹھایا‘ اب ان کا حصہ بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ چینی سکینڈل کا شور اٹھا تو خود جہانگیر خان ترین کے خلاف انکوائری کرائی، لیکن چینی سکینڈل کے چند کردار اب بھی کپتان کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ عتاب کا شکار ہوئے تو جہانگیر ترین، باقی اقتدار انجوائے کر رہے ہیں۔ ترین صاحب نے جوابی وار کا اشارہ دیا تو ملاقاتیں اور وعدے وعید شروع کر دیئے گئے۔ یوں پہلا نعرہ چوروں، ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا، بری طرح پٹ گیا اور ایک طرح سے ڈبہ فلم ثابت ہوا۔
اب آتے ہیں دوسرے نعرے ''گڈ گورننس‘‘ کی طرف۔ ملکی معاشی صورت حال گڈ گورننس کا مزید پول کھول رہی ہے۔ کپتان صاحب جن حکومت میں آئے تھے تو ملکی معاشی ترقی کی شرح5 اعشاریہ 8 فی صد تھی اور مہنگائی کی شرح 4 فی صد سے کم تھی۔ آج جی ڈی پی کی شرح کا نیا حکومتی دعویٰ 3 اعشاریہ 94 کا آیا ہے جو عالمی مالیاتی اداروں کی پروجیکشن سے دوگنا ہے جبکہ مہنگائی ڈبل ڈیجٹ میں جا چکی ہے۔ حکومت کے پاس بجٹ کے لیے فنڈز نہیں اور ڈھائی ارب ڈالر کے تازہ قرض اور بیرون ملک پاکستانیوں کے زرِ مبادلہ میں اضافے کی وجہ سے سرکار کو سانس لینے کی گنجائش ملی ہے۔ مالیاتی سکینڈلز جس قدر اس حکومت میں سامنے آئے ہیں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ان سکینڈلز میں تازہ اضافہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے 50 لاکھ گھر ہیں۔ میں اسے سکینڈل اس لیے قرار دے رہا ہوں کہ انچارج وزیر اس منصوبے پر جواب دہی کے لیے تیار نہیں اور ذمہ داری کپتان پر ڈالی جا رہی ہے۔ میری نظر میں انچارج وزیر نہ صرف بہت سیانے ہیں اور اس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جسے کپتان نے ماضی میں ڈاکو کہا تھا، اب انچارج وزیر نے کچھ بھی نہیں کہا اور سب کہہ بھی گئے ہیں‘ ممکن ہے کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے ہوں۔
تیسرا نعرہ تھا 'مل کر چلنا‘ اچھی بات ہے مل کر چلنا چاہیے لیکن شہباز شریف کی سرگرمیوں پر تحریک انصاف کے خدشات کیا ظاہر کرتے ہیں؟ جبکہ ترین گروپ کی سرگرمی بھی بتاتی ہے کہ کپتان کو ہلکا سا جھٹکا دے کر راہ راست پر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب اگر پہلے جیسا طرزِ عمل اختیار کیا گیا تو ممکن ہے ایک اور جھٹکا بھی لگ جائے۔
ان سارے معاملات اور حالات و واقعات کا تھوڑا عمیق جائزہ لے کر تانے بانے ملائے جائیں تو محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی نئی بساط بچھانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ممکن ہے میرا یہ مشاہدہ یا تجزیہ غلط ہو‘ لیکن سیاسی منظر میں بہت سی تبدیلیاں محسوس ہونے لگی ہیں۔ ایک طرح سے اعصاب کی جنگ جاری ہے، ایک ایک لمحہ سب پر بھاری ہے، اقتدار کا کھیل بہت بے رحمانہ ہے۔ افہام و تفہیم سے ہی معاملات چلتے ہیں‘ سخت رویہ کسی کو بھی کسی کے بھی دل سے اتار سکتا ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ بس یہ بندوبست حتمی مرحلے میں داخل ہونے کو ہے، اسی لیے کوئی کسی کے لندن جانے میں رکاوٹ بن رہا ہے تو کوئی عددی اکثریت چھین کر ڈرا رہا ہے۔
اگر حالات کو ماضی قریب کے آئینے میں دیکھیں تو مکافاتِ عمل جیسی صورت حال لگتی ہے۔ لگ بھگ اتنی ہی مدتِ اقتدار کے بعد نواز شریف کے خلاف بھی حالات بنا دیئے گئے، اب ایک بار پھر ان ہاؤس تبدیلی ایک طرح سے نواز شریف سے شاہد خاقان عباسی کو اقتدار منتقلی جیسا منصوبہ دکھائی دیتا ہے‘ ممکن ہے اس کے لیے بس کسی بہانے کی تلاش ہو۔ ہو سکتا ہے اس بار پارٹی بغاوت فیصلہ کن ثابت ہو۔
ایک بات طے ہے کہ کپتان جن تین نعروں کی بنیاد پر عوام کو جذباتی بنائے ہوئے تھے ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ لگتا ہے اب بے رحمانہ احتساب کے بجائے بے رحمانہ انتقام کی طرف سفر جاری ہے جس کے لیے حریف لیڈروں کی وراثتی جائیدادیں بھی نیلام کی جا رہی ہیں۔ گڈ گورننس کو بھول کر ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اپنائی جا چکی ہے جس کے لیے کابینہ کا حجم بڑھایا جا رہا ہے۔ دوسروں کے ساتھ مل کر ملکی ترقی کے لیے کام کرنے کا نعرہ یا ایجنڈا سیاسی حقیقتوں سے آشنائی کے بعد دم توڑ چکا ہے لیکن شاید کوئی چیز اعتراف کے آڑے آ رہی ہے!!