تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     23-05-2021

سفارتی مشن کے اہداف

ناممکن مہم ...مشن امپاسبل ...پاکستان کے فارن مشنز کا رویہ بہتر ہورہا ہے؟ نہیں‘ اس کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی ۔ تاحال یہ ایک خواب ہے کہ سفارت خانے سمندر پار پاکستانیوں کی خدمت کریں ۔ پاکستان کے فارن مشنز کی کارکردگی پر ہونے والی بحث میں ایسے تبصرے سنائی دیتے ہیں ۔ ماضی میں سمندر پار ملازمت کرنے والے‘ خاص طور پر مزدور پیشہ افراد کے ساتھ خوفناک حد تک توہین آمیز سلوک کی کہانیاں عام تھیں ۔ تاخیری حربے ‘ بدعنوانی ‘ سردمہری‘تاہم حالیہ دنوں یہ تاثر تبدیل ہونے لگا ہے ۔ امریکا اور برطانیہ کے اہم سفارت خانوں کے اعلیٰ افسران کو تبدیل کیا گیا ‘ ایسے سفارت کاروں کو متعین کیا گیا جن کی سروس کا معیار بہتر تھا اور جن تک دیار ِغیر میں رہنے والے پاکستانی بہتر رسائی رکھ سکتے تھے ۔ کورونا وائرس نے تمام فارن مشنز پر دبائو ڈالا ‘ بہت سے مشنز نے غیر متوقع طور پر بہت اچھی کارکردگی دکھائی ‘ چین میں وہان سفارت خانے نے خطرناک حالات میں بھی چوبیس گھنٹے سروس فراہم کرکے داد و تحسین وصول کی ۔
ناممکن مہم کا تاثر ممکنات کے بارے میں سرگوشی سے شروع ہوا۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے پاکستان کے سفیر وں سے خطاب کیا ۔ اس نے مشنز کو ششدر کردیا ‘ سرکاری افسران حیران رہ گئے ‘ بیرونی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کے لیے اس میں خوش گوار حیرت کا سامان تھا ۔ مشن اس لیے ششد ر رہ گئے کیو نکہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وزیر اعظم کا تمام سفیروں سے خطاب بھی ایک غیر معمولی بلکہ نایاب واقعہ تھا ۔ وزیر اعظم کا عوام کی براہ ِراست شکایات سننا اور جواب دینا غیر معمولی پیش رفت ہے ‘تاہم وزیر اعظم کا ایک اہم ملک میں تعینات سفارت کار سے باز پرس کرنا ایک منفرد واقعہ ہے ۔ وہ سفارت کار بے ضابطگیوں کو کنٹرول نہیں کرپارہا تھا ۔ اس پر مستزاد‘ وزیر اعظم نے ٹیلی ویژن نشریات کے دوران مشنز کا احتساب کیاجسے پوری دنیا نے دیکھا ۔ یقینا یہ ایک ناقابل ِیقین بات تھی ۔ اس پر ردعمل بھی آیا ۔ سابق سفارت کار مضطرب ہوئے ۔ موجودہ سفارت کار شرمندہ بھی ہوئے اور ناراض بھی ۔ کئی محاذوں سے تنقید بھی ہوئی ۔ کچھ نے محسوس کیا کہ ایک سیب خراب ہوتو پوری ٹوکری نہیں الٹ دی جاتی۔ کچھ کا کہنا تھا کہ ہاں‘ یہاں خرابی ہے لیکن سرعام سرزنش کی بجائے نجی ملاقات میں باز پرس کر لی جاتی ۔ کچھ نے محسوس کیا کہ جن افعال پر وزیر اعظم نے اپنی رائے قائم کی وہ درحقیقت دفترِ خارجہ کے دائرہ کار میں آتے ہی نہیں ۔ اس تمام ردعمل میں کچھ حقیقت بھی ہوگی۔ دراصل اس پر تمام سٹیک ہولڈرز کی طرف سے آنے والے ردعمل سے پتہ چلتا ہے کہ بہتری لانا ناگزیر ہے ۔ اصلاح کا یہ عمل مجموعی طور پر بہت سے شعبوں میں درکار ہے اس لیے کسی ایک ہدف کو نشانہ بنانے سے کام نہیں چلے گا۔ سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے سے قصورواروں کو نکال دینے سے ممکن ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے صورت ِحال میں بہتری آجائے لیکن پائیدار تبدیلی کے لیے مشن اور اس کے افسران کے کردار ‘ دائرہ کار اور کارکردگی کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ لیکن آئیے پہلے فارن مشنز کو درپیش اہم چیلنجز کا جائزہ لیتے ہیں :
1۔ روایت پسندی: دنیا بھر میں فارن مشنز میکانکی اور جوہری تبدیلیوں سے گزرے ہیں ۔ ملازمت کے قواعد میں کسی سفارت کار کے روایتی کام کا احاطہ نہیں کیا جاتا ۔ اسے پالیسی سازوں سے ملاقات کرنی اور عوامی رابطوں کے ذریعے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانی ہوتی ہے ۔ جدید سفارت کار برانڈ اور سیلز منیجر ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے ملک کے برانڈ کی تشہیر کرتے ہیں ‘ تجارت کو فروغ دیتے ہیں‘ مقامی آبادی کو خوش کرتے ہیں ‘ دلکش تصاویر سے میڈیا کی توجہ حاصل کرتے ہیں ۔اسلام آباد میں جرمنی کے سابق سفارت کارمارٹن کوبلر یا برطانیہ کے موجودہ ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچن ٹرنر کو دیکھیں ۔ اعلیٰ سطحی اجلاس سے لے کر کاروباری افراد سے ملاقاتوں اور پہاڑوں سے کوڑاکرکٹ صاف کرتے ہوئے وہ ہمارے اپنے سفارت کاروں سے بھی زیادہ مقامی دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ دن گئے جب سفارت کار اپنے آراستہ دفاتر میں بیٹھتے یا پرتکلف دعوتوں میں شرکت کرتے تھے ۔ پاکستان کے لیے سرمایہ کار‘ سیاحت اور ساکھ حاصل کرنے کے لیے ہر سطح پر میل ملاپ رکھنے کی ضرورت ہے ‘ اس کے لیے سوچ اور طرزِعمل میں مکمل تبدیلی کی ضرور ت ہے ۔ کچھ سفارت کاروں نے اس ضمن میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن بہت سے دیگر ابھی تک ماضی کی روایات میں گڑے ہوئے ہیں ۔
2۔ سیاسی وابستگی: صرف سفارت کاروں یا سرکاری افسروں کومورد ِ الزام ٹھہرانا درست نہ ہوگا‘ سیاست دان ہی اصل قصور وار ہیں ۔ قانون وزرا اور سیاست دانوں کو فارن عہدوں پر بیس فیصد غیر پیشہ ور افراد کو تعینات کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ سیاست دان اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ سیاسی تعیناتیوں میں میرٹ کی دھجیاں اُڑادی جاتی ہیں ۔سیاسی وابستگیاں رکھنے والے افراد اناڑی ہوتے ہیں لیکن بوجوہ اُن کا احتساب نہیں کیا جاسکتا ۔ اُن کا بھرپور خرچہ اٹھایا جاتاہے ‘ چھٹیوں کی تنخواہ بھی دی جاتی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سے اہم سفارتی مشنز میں ایسے لوگوں کو تعینات کردیا جاتا ہے جن کی مہارت‘ طرزِعمل اور رویہ سفارتی آداب سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کی پست کارکردگی اور غفلت کا بوجھ ملک کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ایسی تعیناتیاں دراصل فارن سروس کے محرکات اور مورال کو نقصان پہنچاتی ہیں ۔ اس سے باصلاحیت اور اچھی کارکردگی دکھانے والے افراد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔ وہ صرف سرپرستی اور روابط نہ ہونے کی وجہ سے یہ عہدے حاصل نہیں کرسکتے ۔
3۔ ساختی کشمکش: ایک اور بڑے مسئلے کا تعلق مشن کی ساخت سے ہے ۔ اگرچہ سفارت کار ہی مشن کا سربراہ ہوتا ہے ‘ سفارت خانے میں اہم جگہوں پر بیٹھے ہوئے بہت سے افراد اسے جواب دہ نہیں ہوتے ‘ مثال کے طور پر کمرشل قونصلر وں کا کام پاکستان میں کاروبار لانا ہے ‘ وہ کامرس کی وزارت کو جواب دہ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جو لوگ پاسپورٹ اور تصدیق جیسا معمول کا کام کرتے ہیں وہ وزارتِ داخلہ کو رپورٹ کرتے ہیں ۔ فارن سروس کے افسران ایک چھت تلے کام کررہے ہوتے ہیں لیکن سفارت کار ان دو امور کے ذمہ دار افسران کا احتساب نہیں کرسکتا۔ فارن مشن کو اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے لیے نئی ذہنیت‘ مہارت اور صلاحیت درکار ہے :
1۔ پہلی چیز یہ ہے کہ فارن مشن کو اپنے اہداف کا تعین کرنا ہوگا۔یہ ہدف مشن کے قیام کا جواز ہو‘ جیسا کہ سمندر پار پاکستانیوں کی خدمت کرنا‘ پاکستان برانڈ کی ترویج کرنا اورملک میں تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانا ۔ تعینات ہر افسر کو حلف اٹھانا چاہیے کہ وہ اس ہدف کے حصول کے لیے ہرممکن کوشش کرے گا ۔ اس میزان پر اُس کا احتساب بھی کیا جائے ۔ صرف تب ہی مشترک اور ہم آہنگ کارکردگی ممکن ہوگی۔
2۔ فارن سروس کی ٹریننگ کی اصلاح: فارن سروس اکیڈمی نے سفارت کاروں کی ٹریننگ میں اہم کردار ادا کیا ہے تاہم نئی مہارتیں سکھانے کے لیے جدید برانڈ کے لوازمات کو جاننا ہوگا۔ سوشل میڈیا مارکیٹنگ‘ فروخت کا بزنس ‘ لیڈرشپ اور ٹیم سازی کی مہارت کو کئی سطحوں پرہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی اور تبدیل ہونے والی دنیا کے چیلنجز کا سامنا کیا جاسکے ۔
3۔ ساختی تبدیلی: یہ ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ فارن سروس افسران کے علاوہ سفارت خانوں میں کام کرنے والے دیگر افراد کے لیے یہ احتساب سے بچنے کی راہ نکالتی ہے ۔ فارن سروس کے لوگ اسے قربانی کا بکر ا بنا کر نکل جاتے ہیں ۔ تعلقات میں تبدیلی کی رپورٹ وزارتوں کے درمیان رسہ کشی شروع کردیتی ہے ۔ بہتر ہو گااگر سروس کی سطح پر مشترکہ کارکردگی جانچنے کا پیمانہ وضع کرلیا جائے ۔ اس پر ہر سال ہر ممبر دستخط کرکے اس کی توثیق کرے ۔ یہ معاہدہ سفارت کار اورمتعلقہ وزارت کی مشترکہ ذمہ داری ہو۔
کارکردگی کا جائزہ لینے کا عمل وزارت میں شروع ہوچکا ۔ کچھ غیر معمولی نتائج بھی سامنے آئے ہیں ۔ ضروری ہے کہ ہدف‘ مہارت اور احتساب کو آئینی طور پر ادارے کے لیے لازم و ملزوم ٹھہرایا جائے ۔ حقیقی چیلنج اس ہدف کو مشن کے افراد کے دل میں اتارنا ہے تاکہ وہ اس جذبے کو اپنا سکیں کہ ملک کی نمائندگی کرنے سے بڑی کوئی عزت نہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved