تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     24-05-2021

پوٹھوہار : تاریخ کا آئینہ خانہ

پوٹھوہار قدیم تاریخ کے دامن میں ایک ایسا جھلملاتا خطہ ہے جس کی چمک دمک کو زمانے کا اُلٹ پھیر بھی کم نہ کر سکا۔ یہ مشرق میں دریائے جہلم اور مغرب میں دریائے سندھ کے درمیان کا علاقہ ہے جو جنوب کی طرف سالٹ رینج اور شمال میں مری کے پہاڑی سلسلے سے ملتا ہے۔ پوٹھوہار کا علاقہ جو اپنے اردگرد کے علاقوں سے بلندی پر واقع ہے جہلم‘ چکوال‘ اٹک‘ راولپنڈی اور اسلام آباد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ہر ایک ضلع اپنی جگہ یگانہ ہے۔ یہ اونچے نیچے ٹیلوں‘ سرسبز کھیتوں ‘شاداب درختوں اور آزاد ہوائوں کا دلرباعلاقہ ہے جو ستر میل پر پھیلا ہوا ہے اور جہاں کے ہر موڑ پر تاریخ کے نیلم ومرجان بکھرے ہوئے ہیں۔ میں پوٹھوہار کی انہی سحر انگیز ہوائوں میں پیدا ہوا‘ یہیں پلا بڑھا اور پھر ہمیشہ کیلئے اس کے حسن کا اسیر ہو گیا۔ جب بھی مجھے زندگی کی بے ہنگم مصروفیات سے وقت ملتا ہے پوٹھوہار کا حسنِ دل آویز مجھے چپکے سے آواز دیتا ہے اور میں بے اختیار اس کی پکار پر کھنچتا چلا جاتاہوں۔
پوٹھوہار کے تاریخی خزانوں سے میرا پہلا تعارف اُس وقت ہوا جب میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا۔ ہمارا گاؤں راولپنڈی شہر سے 30میل کے فاصلے پر تھا۔ روات ہمارے گاؤں اور راولپنڈی شہر کے وسط میں واقع تھا۔ گاؤں کی کھٹارا بس روات کے اڈے پر رُکتی تو ہم بچے نان پکوڑے کھاتے۔ یہیں میرا پہلا تعارف روات قلعے سے ہواجس کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ سولہویں صدی میں یہ قلعہ گکھڑسردار سارنگ خاں کے قبضے میں تھا جس نے شیر شاہ سوری کے مقابلے میں مغلوں کا ساتھ دیااور میدانِ جنگ میں شیر شاہ سوری کے بیٹے اسلام خان کے بڑے لشکر سے بے جگری سے لڑتا ہوا اپنے 16 بیٹوں کے ہمراہ اپنی مٹی پر قربان ہوگیا۔ پوٹھوہار کے اس جری سپہ سالار کی قبر آج بھی قلعہ روات کے صحن میں مرکزِ نگاہ ہے۔ روات کا یہ قلعہ اور اس سے جڑی کہانیاں میرے بچپن کی اہم یاد کے طور پر ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گی۔ پھر ایک دن مجھے پوٹھوہار کے ایک اور تاریخی قلعے روہتاس جانے کا اتفاق ہوا‘ جو جہلم کے قریب واقع دینہ شہر سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے اس وقت تعمیر کرایا جب وہ مغلوں سے نبرد آزما تھا۔ یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے 1541ء میں تعمیر کرنے کا حکم دیاتھا۔ قلعہ تعمیر کرنیوالوں نے جگہ کا انتخاب سوچ سمجھ کرکیا تھا۔ یہ ایک بلند مقام تھا جہاں سے پانی زیادہ دور نہ تھا اور قلعے کی فصیل سے کشمیر کے راستے پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔ روہتاس کے اس قلعے کو میں نے کئی بار دیکھا لیکن میری حیرت کم نہ ہوئی۔ وہ جو کہتے ہیں‘ ایک بار دیکھا ہے اور بار بار دیکھنے کی ہوس ہے۔ اب ایک بار پھر میں روہتاس جانے کا ارادہ باندھ رہا ہوں۔
پھر ایک دن مجھے پوٹھوہار کے ایک اور قلعے اٹک کو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو طرزِ تعمیر کا انوکھا شاہکار ہے‘ جسے اکبر بادشاہ نے سولہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا اور جس کی تعمیر کا بنیادی مقصد دریائے سندھ پر حملہ آوروں کی گزرگاہ پر نظر رکھنا تھا۔ میں نے قلعے کی فصیلوں پر بنے دیدبانوں سے دیکھا‘ جہاں سے دور دور کے منظر صاف نظر آتے تھے۔ دریائے سندھ کے کنارے یہ اہم قلعہ بعد میں بہت سے حکمرانوں کی آماجگاہ رہا۔ پھرایک دن مجھے پوٹھوہار کے ایک شہرِ پُراسرار کے کھنڈرات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ وہی شہر جسے دنیا ٹیکسلا کے نام سے جانتی ہے۔ ٹیکسلا کا شہر اور اس سے جڑی قدیم تاریخ کا تذکرہ اب عالمی سطح پر ہوتا ہے۔ میں نے جب پہلی بار ٹیکسلا کا عجائب گھر دیکھا تو اُن دنوں سکول میں پڑھتا تھا۔ پھر تو ٹیکسلا اور وہاں کی جولیاں یونیورسٹی نے مجھے ہمیشہ کے لیے اپنے سحر میں گرفتار کر لیا۔ ٹیکسلا کی تہذیب 700 قبل مسیح کی ہے۔ ٹیکسلا کی اسی سرزمین پر چندر گپت موریا نے ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی تھی‘ یہیں جولیاں کے مقام پر وہ قدیم ترین یونیورسٹی ہے جہاں دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ علم کی پیاس بجھانے آتے تھے۔ دنیا میں سنسکرت کا اولین گرامر نویس پانینی (Panini) بھی اسی درسگاہ میں پڑھاتا تھا۔ معروف دانشور چانکیہ کا تعلق بھی اسی یونیورسٹی سے تھا‘ وہی چانکیہ جس کی کتاب ''ارتھ شاستر‘‘ کو لوگ اب بھی مملکت کے اسرارووموز سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔ 326 قبل مسیح میں یہیں سے سکندرِ اعظم ہندوستان کی حدود میں داخل ہوا اور پھر ایک مقامی راجہ پورس‘ جس کی سلطنت میں پوٹھوہار کا علاقہ بھی شامل تھا‘ نے سکندر کی پیش قدمی کو روک لیا۔ یہ تاریخ میں پنجاب کی پہلی مزاحمت تھی۔ پھر ایک دن میرے دل نے سرگوشی کی اور میں نے پوٹھوہار کے ایک خوبصورت علاقے دھنی کے ایک گاؤں خانپور کا قصد کیا‘ جہاں معروف صوفی بزرگ شاہ مراد کا تکیہ ہے۔ جمیل جالبی صاحب کی تحقیق کے مطابق شاہ مراد کی ایک اور وجۂ شہر ت یہ بھی ہے کہ وہ شمالی ہندوستان کے اردو کے پہلے شاعر تھے۔ ان کے کلام کا انتخاب سب سے پہلے قاضی سراج صاحب نے کیا۔ اصغر مال کالج میں میرے رفیقِ کار اور اردو کے معروف شاعر ماجد صدیقی نے بھی شاہ مراد کے کلام کا انتخاب شائع کیا۔ دھنی کا یہ سارا علاقہ قدرتی حُسن سے مالامال ہے۔
صوفیا کا ذکر آیا ہے تو مجھے بابا فضل کلیامی یاد آ گئے۔ کلیام میں بابا فضل کلیامی کا مزار‘ جو راولپنڈی سے کچھ فاصلے پر ہے اور جہاں دورونزدیک سے لوگ آتے ہیں۔ بابا فضل کلیامی کا تصوف میں ایک خاص مرتبہ تھا اور گولڑہ کے پیر مہر علی شاہ ان کے معتقد تھے۔ میں ایک عام سے دن وہاں گیا تو دیکھا کہ علاقے میں ایک مستقل بازار کی رونق ہے جہاں سے گزر کر ہم مزار تک پہنچتے ہیں۔ راولپنڈی سے متصل گولڑہ میں پیر مہر علی شاہ کا مزار ہے۔ وہی پیر مہر علی شاہ جن کے علم و فضل سے ایک دنیا متاثر تھی اور علامہ اقبال بھی علمی رہنمائی کے لیے ان سے رجوع کرتے تھے۔ اسلام آباد میں بری امام کا مزار بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔ پوٹھوہار میں قدم قدم پر تاریخ کے خزانے ملتے ہیں۔ کئی تہذیبوں کے نشان ملتے ہیں۔ ایک طرف کٹاس راج کا قدیم ہندو مندر ہے‘ پھر نندنہ کی وہ پہاڑی جہاں بیٹھ کر البیرونی نے زمین کے قطر کی پیمائش کی تھی۔ دوسری طرف مانکیالہ میں بدھوں کا ایک بہت بڑا سٹوپا ہے جسے توپ مانکیالہ کہتے ہیں۔ چکوال میں سکھوں کا قدیم خالصہ سکول اب بھی ماضی کی یاد دلاتا ہے۔
پوٹھوہار میں تقریباً ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد فوج سے وابستہ ہے۔ پاکستان کا پہلا نشانِ حیدر پوٹھوہار کے گاؤں سنگھوری کے کیپٹن سرور شہید کو ملا۔ روات سے ذرا آگے جائیں تو ایک سڑک سنگھوری گاؤں کی طرف مڑتی ہے جہاں کیپٹن سرور شہید کا آبائی گھر ہے۔ پوٹھوہار کا اعزاز ہے کہ دو نشانِ حیدر کا اعزاز پانے والوں کا تعلق اس علاقے سے ہے: کیپٹن سرور شہید اور لانس نائیک محمد محفوظ شہید۔
پوٹھوہار کے دیہات میں جائیں تو ایک الگ طرح کی خوشبو آپ کا استقبال کرتی ہے جس میں سرسوں کے پھولوں‘ میٹھے رسیلے شہتوتوں اور بیریوں کی مہک شامل ہوتی ہے۔ پوٹھوہار میں دھریک‘ کیکر‘ بیری‘ پُھلاہی‘ ٹاہلی‘ شہتوت‘ پیپل اور بوہڑ کے درختوں کی کثرت ہے۔ یہاں موسم کی مناسبت سے کھیتوں میں گندم‘ مونگ پھلی‘ مکئی‘ جوار‘ اور سرسوں کے رنگ نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوٹھوہار ایک ایسا طلسم کدہ ہے جس میں تہہ در تہہ اسرار چھپے ہیں یا پھر ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں حُسن کے کتنے ہی پہلو بیک وقت اپنا روپ دکھاتے ہیں۔ پوٹھوہار قلعوں‘ تاریخی عمارتوں‘ صوفیوں‘ فنکاروں اور بہادروں کا خطہ ہے جسے جاننے کا مرحلہ کبھی طے نہیں ہو پاتا۔ بچپن سے لے کر اب تک میں پوٹھوہار کے دلربا دریچوں سے تاریخ کے کتنے ہی خوش نما منظر دیکھ رہا ہوں۔ دریچے ہیں کہ کھلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ دل نواز منظر ہیں کہ ختم ہونے کو نہیں آتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved