چارہ گروں کی بستی بھی چارہ گری سے قاصر ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ چارہ گروں کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک چارہ گری کے بجائے فلسطین سے نمائشی یکجہتی تک محدود اور مجبور نظر آتے ہیں۔ مسلم دنیا کے بھائی چارے کا اچھا خاصا چارہ تو بھارت کب کا چر چکا تھا اب بچا کھچا دانہ دُنکا اسرائیل چُگ گیا اور ہم بنے پھرتے ہیں عالمِ اسلام کے خیر خواہ‘ گویا 'سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کی طرف سے وحشیانہ بمباری اور انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ جنگی قوانین کی دھجیاں اُڑانے کے باوجود مسلم ممالک ناکام اجلاس کرتے اور مذمتی بیانات ہی داغتی رہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا بیان کسی اعلامیے سے کم نہیں کہ جب تک خطے کے ممالک اسرائیل کو تسلیم نہیں کر لیتے پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس بیانیے کے بعد بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ''سمجھنے والے سمجھ گئے... جو نہ سمجھے وہ اناڑی ہے‘‘۔ کیا ہم سب کچھ سمجھتے اور جانتے بوجھتے بھی نا سمجھ بننے کی اداکاری میں مصروف ہیں؟ خطے کی یہ صورت حال کوئی نئی بات ہرگز نہیں‘ اسرائیل روزِ اول سے جارحیت اور بربریت کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ فلسطین سے یکجہتی کرنے والوں کو ان کی حیثیت اور اہمیت برابر یاد دلاتا چلا آ رہا ہے‘ لیکن ہم تو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کرنے کے سلسلے میں بھی متحد نظر نہیں آتے۔
درجنوں مسلم ممالک میں گھرے اسرائیل کی جارحیت کی جرأت ہر بار پہلے سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ جوں جوں اس کی جرأت اور توسیع پسندانہ عزائم بڑھتے چلے جا رہا ہے‘ ہمارا ردِّ عمل نمائشی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں کہ وہ فلسطین پر اسرائیل کے غلبے کے خواہش مند ہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے حالات اور مجبوریاں انہیں زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اکتوبر 2018 ء کا ایک بیان ساری حقیقت واضح کئے دیتا ہے کہ یہ ہمارے بغیر ایک ہفتہ نہیں نکال سکتے‘ حالانکہ صدر ٹرمپ نے منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے اسی ملک کا دورہ کیا تھا‘ جس کے بارے میں انہوں نے یہ قابلِ مذمت الفاظ بولے تھے اور اس دورے کے دوران ان کی بھرپور خاطر داری کی گئی تھی۔ امریکہ سے اسلحہ خریدے جانے کی ایک بھاری بھرکم ڈیل اس کے علاوہ تھی۔
پرانے اخبارات کے ڈھیر میں اگست 2019ء کے ایک قومی اخبار میں شائع شدہ ایک نمایاں تصویر اسلامی بھائی چارے کا منہ چڑاتی نظر آئی۔ چینی کہاوت ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ تصویر میں باڈی لینگوئج سمیت تمام پہلو نہ صرف واضح اور اجاگر ہوتے ہیں بلکہ صورت حال اور ماحول کے ان پہلوئوں کی بھی بھرپور عکاسی کرتے نظر آتے ہیں جنہیں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہاں بھی یہی معاملہ تھا۔ ایک ہی باکس میں دو تصاویر دیکھ کر ٹھٹکا تو ضرور لیکن حیرت ہرگز نہ ہوئی۔ یہ بولتی تصویریں نہیں بلکہ چیختی اور چنگھاڑتی تصویریں تھیں‘ جن میں مشرق وسطیٰ کے دو اہم ممالک کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اعلیٰ ترین سرکاری اعزاز پیش کئے جا رہے تھے۔ بات مصافحہ اور ایوارڈ تک محدود نہیں رہی‘ بلکہ تصویر کے ساتھ جڑی ایک خبر کچھ یوں تھی کہ کشمیر پر بھارتی اقدامات اور موقف کی بھرپور حمایت اور تائید کرنے پر نریندر مودی (ان ممالک کے) حکمرانوں کے شکر گزار ہیں۔ گویا یہ حکمران پانچ اگست 2019ء کو کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے اور وادی میں قتل و غارت کرنے‘ خون کی ندیاں بہانے اور خواتین کی بے حرمتی کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سر پر جنگ مسلط کرنے کی گھنائونی سازش کو نہیں دیکھ رہے تھے۔ یاد رہے یہ تصویر کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کئے جانے کے چند روز بعد ہی اخبارات کی زینت بنی تھی۔
بعد ازاں آسام میں مودی گردی کا ایک اور بد ترین نمونہ سامنے آیا جہاں 19 لاکھ مسلمانوں کی شہریت منسوخ کر دی گئی‘ حتیٰ کہ رکن اسمبلی اننت کمار مالو اور صدارتی ایوارڈ یافتہ سابق فوجی افسر ثنااللہ بھی غیر ملکی قرار دے دیے گئے۔ بھارت کے اس اقدام کے بعد مودی کی مخصوص ہندو ذہنیت کے پس پردہ عزائم مزید کھل کر سامنے آ گئے کہ ہندوستان صرف ہندوئوں کا ہے جبکہ دوسری طرف مشرق وسطیٰ کے کچھ حکمران مودی کے رومانس میں دھنستے چلے گئے تھے۔ انہی دنوں مشرق وسطیٰ ہی کے ایک مسلم ملک میں مندر کے افتتاح کے موقع پر ہندوئوں کی مذہبی رسومات سے لے کر بھجن کی لے پر لہکنے اور ڈولنے کے نظارے سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے رہے جبکہ مذکورہ ممالک کے حکمرانوں نے بھارت کی معاشی منڈی کا حجم اور اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے احتیاط اور غیر جانب داری کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ان ممالک کی طرف سے سرد مہری اور بے رُخی کچھ عرصہ یونہی جاری رہی مگر اب افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا‘ اسرائیل اور خطے کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر یہ سرد مہری گرم جوشی میں بدلتی نظر آرہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں ہونے والے عہد و پیمان کے علاوہ مالی امداد اور قرضوں کا امکان بھی نہ صرف نظر آیا ہے بلکہ عرب دنیا میں پاکستان کی اہمیت میں ایک بار پھر اضافہ بھی ہو رہا ہے‘ اگرچہ وقت اور حالات کے ساتھ یہ اہمیت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے‘ جس طرح افغان جہاد سے لے کر نائن الیون کے بعد کے افغانستان تک امریکہ پاکستان کو حالات اور ضرورت کے مطابق اہمیت کے مختلف مدارج میں رکھتا رہا ہے‘ اسی طرح سرد مہری کی برف پگھلنے کے بعد آج کل پاکستان کو وہی اہمیت دج جا رہی ہے جو ماضی میں پاکستان کا اعزاز رہی ہے؛ چنانچہ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو انتہائی کامیاب اور تاریخ ساز قرار دیا جا رہا ہے؛ اگرچہ وزرائے اعظم کے ہر غیر ملکی دورے کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے‘ ہمارے ہاں کی یہی روایت ہے‘ چاہے دورہ سعودی عرب کا ہو یا امریکہ سمیت دیگر ممالک کا‘ تاہم حالیہ تجربات اور موجود تناظر میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ یہ سب کچھ بغیر کسی غرض کے نہیں ہے۔
مسلم اُمّہ کا علم اٹھائے پھرنے والے حکمرانوں کو کم از کم اب تو سمجھ آ جانی چاہیے کہ حالات کے تقاضے کیا ہیں۔ مسلم اُمّہ پچاس سے زائد ممالک پر مشتمل ہے مگر کسی نے کوئی بڑا سائنس دان پیدا کیا نہ ہی کسی کو کوئی بڑا ریسرچ سینٹر اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کوئی بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی قائم کرنے کی توفیق حاصل ہوئی ہے۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ غیروں کے آسروں اور وعدوں سے نکل کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے۔ ایسی مصلحت پسندی پر انحصار نہ کیا جائے جو بھارت سے مفادات کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہے تو کہیں اسرائیل کی کڑوی گولی مزے لے کر نگلے جا رہی ہے۔ ملک و قوم کے وقار اور استحکام سے مشروط خود مختار فیصلوں کی ہمت اور جرأت ضرور کر لینی چاہیے۔ جو بائیڈن نے پہلے ہی خطے کا امن اسرائیل کو تسلیم کرنے سے مشروط کر دیا ہے۔ ہمیں بھی یعنی سب مسلم ممالک کو بھی مل کر سوچنا چاہئے کہ کیسے فلسطین کو اسرائیلی پنجۂ استبداد سے بچایا جا سکتا ہے۔ جب سارے مل بیٹھ کر سوچیں گے تو اللہ تعالیٰ نصرت فرمائے گا اور آگے بڑھنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اختلافات ختم کرکے متحد ہوا جائے۔