تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-05-2021

سرخیاں ان کی، متن ہمارے

معاشی تباہی پھیلانے والے کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ''معاشی تباہی پھیلانے والے کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں‘‘ اگرچہ سیاسی مستقبل تو ہمارا بھی کہیں نظر نہیں آتا لیکن کم از کم ہمارا معاشی مستقبل تو محفوظ ہے کیونکہ کافی کچھ واپس کرنے کے باوجود ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا اور حکومت کی زبان پر یہی شکایت ہے کہ ؎
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
لیکن حکومت کو اچھی طرح سے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سمندر ہم نے اس کے لیے اکٹھا نہیں کیا۔ آپ اگلے روز کراچی سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔
شہباز شریف معاشی ترقی دیکھ کر گھبرا گئے: حماد اظہر
وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف معاشی ترقی دیکھ کر گھبرا گئے‘‘ بلکہ ان سے زیادہ ہم خود گھبرائے ہوئے ہیں کہ یہ کہیں نظر ہی نہیں آ رہی کیونکہ مہنگائی بھی اسی طرح ہے اور بیروزگاری بھی بلکہ ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ہم نے عینک بلکہ دُوربین لگا کر بھی دیکھا ہے لیکن یہ ترقی ہمیں پھر بھی کہیں نظر نہیں آئی اور ایسا لگتا ہے کہ اس نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دے رہی، اور یہ بھی اپوزیشن کی کوئی سازش ہے اور یہ ٹوپی اسے اُسی نے مہیا کی ہے؛ اگرچہ یہ الہ دین کے چراغ کی طرح ناپید ہے لیکن اپوزیشن مایوسی کے عالم میں کچھ بھی کر سکتی ہے حتیٰ کہ ہماری جادوئی چھڑی بھی اسی نے چھپا رکھی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت بجٹ میں مزید مہنگائی بم گرائے گی: پرویز اشرف
سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے چیف آرگنائزر راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''حکومت بجٹ میں مزید مہنگائی بم گرائے گی‘‘ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بم یا تو راستے ہی میں پھٹ جاتے ہیں یا زمین پر گر کر ٹھس ہو جاتے ہیں کیونکہ عوام پر ان کا کوئی اثر ہی نہیں ہے اور ہم لاکھ جتن کر بیٹھے ہیں لیکن وہ سڑکوں پر نکلتے ہی نہیں اور ہم اکیلے ہی ہلکان ہو ہو کر رہ جاتے ہیں، اوپر سے پی ڈی ایم کے سانحۂ ارتحال نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور ہم نے اسی لیے پی ڈی ایم سے ہاتھ کھینچ لیا ہے جسے شر پسند لوگ حکومت کے ساتھ ڈیل کا نام دے رہے ہیں، غرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں‘ ہم کس کس کو جواب دیتے پھریں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
شہزاد اکبر کے لگائے گئے الزامات میں
سے ایک روپیہ واپس نہیں آیا: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''شہزاد اکبر کے لگائے گئے الزامات میں سے ایک روپیہ واپس نہیں آیا‘‘ کیونکہ سب نے تہیہ کر رکھا تھا کہ ایک پیسہ بھی واپس نہیں کریں گے، جان جاتی ہے تو چلی جائے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اسی طرح ثابت قدم رہیں گے کیونکہ وہ بنیادی طور پر تجارت پیشہ لوگ ہیں اور دکانداری کا اصول تو یہ ہے کہ چمڑی جائے مگر دمڑی نہ جائے، اس لیے احتسابی اداروں اور حکومت کو ان سے دمڑی کی بھی امید نہیں رکھنی چاہیے جبکہ سندھ والوں نے پیسے واپس کر کے ایک نہایت غلط مثال قائم کی ہے جس سے شرفا کیلئے مسائل ضرور پیدا ہوئے ہیں، لیکن یہ بھی دھن کے پکے ہیں اور کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
جہانگیر ترین کہیں نہیں جا رہے: پرویز الٰہی
سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ''جہانگیر ترین کہیں نہیں جا رہے‘‘ اور یہیں حکومت کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے، کیونکہ لاکھ تسلیوں کے باوجود حکومت نے انہیں وہ انصاف نہیں دینا‘ جو وہ چاہتے ہیں تو ان کے لیے اور کوئی راستہ نہیں رہے گا، جبکہ مونگ کی دال دوسری دالوں کی نسبت پہلے ہی کافی مہنگی ہے کیونکہ اسے دلنے والی چکیاں بند پڑی ہیں کہ ہڑتال پر ہیں اور صرف ثابت مونگ ہی مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور جہاں تک مسور کی دال کا تعلق ہے تو کسی کا منہ ہی ایسا نہیں ہے کہ یہ دال کھا سکے بلکہ ساری دالیں ہی اس قدر سخت ہو چکی ہیں کہ حکومت کی کوئی دال گلتی ہی نہیں ہے اور وہ دال پکاتی ہے تو وہ دلیہ ہو جاتی ہے۔ آپ اگلے روز چک سادو روڈ گجرات میں نئی سڑک کا افتتاح کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حرف کے روبرو
یہ حمیدہ شاہین کے نثری مضامین کا مجموعہ ہے جبکہ وہ اپنی شاعری کا جادو پہلے ہی جگا چکی ہیں۔ انتساب ازکیٰ کے نام ہے جو بیٹی بھی ہے اور سہیلی بھی۔ پسِ سرورق شاعرہ (مصنفہ) کی تصویر اور محمد حمید شاہد کا توصیفی نوٹ درج ہے‘ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ حمیدہ شاہین نئی نظم پر لکھیں یا شاعروں اور افسانہ نگاروں کی تخلیقات کا انفرادی مطالعہ کریں، وہ تخلیق کار کے تخلیقی مزاج اور تخلیقی عمل کے بھید بھنور سے دور نہیں جاتیں۔ اور لطف یہ ہے کہ ایسے میں ادبی تنقید کے وہ اصول بھی نشان زد ہوتے چلے جاتے ہیں جو اس تنقیدی عمل میں ان کے پیش نظر ہیں۔ اندرونِ سرورق ڈاکٹر نجیبہ عارف کی توصیفی رائے درج ہے، حمیدہ شاہین کی نثر نگاری کے عنوان سے دیباچہ ڈاکٹر معین نظامی نے تحریر کیا ہے، حصۂ اول میں عمومی مضامین ہیں جبکہ حصۂ دوم میں مختلف شعراء و ادباء کے فن سے بحث کی گئی ہے۔ اندازِ بیان میں تنقیدی روایتی ثقالت نہیں بلکہ یہ رواں اور دلچسپ ہے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
آپ نے اپنے تئیں جو ہمیں چھوڑا ہوا ہے
یہ بیان آپ کا بھی توڑا مروڑا ہوا ہے
اصل تو یہ ہے کہ خود سے بھی تعلق ہم نے
کہیں چھوڑا ہوا ہے‘ تو کہیں توڑا ہوا ہے
وہ محبت جو زمانے سے چھپائی ہوئی تھی
اس کا بھانڈا بھی کہیں چوک میں پھوڑا ہوا ہے
کہیں یہ چادرِ بیگانگی رکھی ہے الگ
آپ نے اس کو بچھایا ہے نہ اوڑھا ہوا ہے
جو فتور آپ کا ٹھہرا ہوا ہے سر میں کہیں
ایک مدت سے زیادہ ہے نہ تھوڑا ہوا ہے
اسی سوکھے ہوئے پودے کی جڑوں میں ہم نے
خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑا ہوا ہے
ہم سے وہ آنکھ ملاتا نہیں پھر بھی‘ ورنہ
اس کا منہ اپنی طرف کھینچ کے موڑا ہوا ہے
یہ رکاوٹ جو ہٹانی تھی ابھی سامنے سے
آخر کار مری راہ کا روڑا ہوا ہے
کام آئے کہ نہ آئے مگر اتنا ہے‘ ظفرؔ
ہم نے اس ٹوٹے ہوئے تار کو جوڑا ہوا ہے
آج کا مطلع
میں چلتے چلتے اپنے گھر کا رستا بھول جاتا ہوں
جب اس کو یاد کرتا ہوں تو کتنا بھول جاتا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved