جنگِ موتہ کے اگلے سال جب قیصرِ روم نے اہلِ ایمان کے خلاف جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں تو نبی کریمﷺ نے بلا تامل قیصرِ روم سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ اسی وقت مدینہ کے منافقین مسجد ضرار تعمیر کر کے اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے۔ ایک طرف قحط سالی، گرمی کا موسم، فصلیں تیار، سواریوں کی کمی اور بے سروسامانی کے علاوہ سرمایے کا فقدان۔ ان مسائل کے باوجود اللہ کے نبیﷺ نے جنگ کا اعلانِ عام فرما دیا۔ قیصرِ روم نے جب دیکھا کہ مسلمان حضورﷺ کی قیادت میں مقابلے پر پہنچ گئے ہیں تو اس نے خوفزدہ ہوکر سرحد سے فوجیں ہٹا لیں۔ روم جیسی سپر پاور پر آخری اور فیصلہ کن جنگ میں اخلاقی فتح درج کروا کر نبی کریمﷺ لوٹ آئے۔ بطور مسلمان ہمیں بھی غزوۂ تبوک پیش نظررکھنا چاہیے۔ وہاں ایک لاکھ کے مقابلے میں تیس ہزار مجاہدین اللہ رب العزت کے اس حکم پر نکل کھڑے ہوئے تھے کہ 'نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔ اگر دیکھا جائے تو آج ہمیں بھی ایسے ہی حالات درپیش ہیں۔ ایک طرف کورونا کا ڈر ہے‘دوسری طرف وسائل اور مال و دولت کی کمی۔ اسرائیل نے بھی غزہ کی سرحد پر فوج تو جمع کرلی مگر اس کو اندر بھیجنے کی ہمت نہیں کرسکا مگر اس سارے منظر نامے میں مسلم ممالک کی بے عملی اور بے حسی کے مظاہرے اور جی سی سی کے اجلاس میں بلند بانگ دعووں کے سوا کچھ نہ ہو سکا۔مسلم امہ بے بسی کی تصویر بنی رہی۔ ایک ارب 47 کروڑمسلمان انگشت بدنداں کھڑے سوچتے رہ گئے۔ حقوق انسانی کی علمبردار تنظیمیں اور بین الاقوامی برادری بھی داد رسی کیلئے تیار نہ تھی۔
تیل کی طاقت،افواج کی طاقت، ایٹمی طاقت، کیوں فلسطین کے حق میں یہ ساری طاقتیں استعمال نہیں ہوتیں ؟القدس میں 11 روز تک جاری اسرائیلی جارحیت اور انسانیت سوز مظالم کا خونیں منظردیکھ دیکھ کر دل لہو لہو ہو گیا،آنکھیں اشکبار رہیں اوردستِ دعا اُس قادر مطلق کی بارگاہ میں بلند رہے جس کی مشیت اور قضا و قدر سے کائنات کا نظام قائم ودائم ہے۔ رمضان المبارک میں جمعۃ الوداع کوروزے کی حالت اورنمازکے دوران اسرائیل کی جانب سے مسجداقصیٰ کی بے حرمتی کی گئی اور چہارجانب سے نمازیوں پر آنسو گیس، گولیاں اور بارود فائر کر کے انہیں چھلنی کیاگیا۔ا ن حملوں میں بچے،جوان،بوڑھے اورخواتین‘ سب زخمی ہوئے۔ کچھ زخموں کی تاب نہ لاکر ''تحفظِ بیت المقدس‘‘کی خاطر شہیدہوگئے۔کروڑوں سلام ہوں ان نونہالوں کے جذبوں اورحوصلوں کوجنہوں نے اپناسینہ ان ظالموں کے سامنے پیش کردیا اوریہ ثابت کیاکہ ہم آخری سانس تک بیت المقدس کی تحفظ کی خاطر سینہ سپررہیں گے، یہ ہماراقبلہ اول ہی نہیں ہمار ے ا یمان کاحصہ بھی ہے۔ اسرائیلی بزدلانہ کارروائی میں لگ بھگ 300 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 65بچے، 17بزرگ اور 39خواتین بھی شامل ہیں۔ 1700 زخمی ہوئے، کم و بیش90 ہزار افراد بے گھر ہوئے،450 سے زائد بلند عمارتیں زمین بوس ہو گئیں، 58 سکول منہدم ہوئے اور غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا۔ اسرائیل نے جان بوجھ کر ہسپتالوں اور پانی، بجلی اور صحت کے نظام کو نشانہ بنایا۔ فی الحال حماس کے 4000راکٹ حملوں پر اسرائیلی معروف اخبار ہاریٹز نے حالیہ جنگ میں حماس کے مقابل تل ابیب کی شکست کا اعتراف کیا ہے اورموجودہ جنگ کو اسرائیل کی تاریخ میں بدترین شکست قرار دیا ہے۔بظاہر عالمی دبائو میں آ کر اسرائیل نے جنگ بندی کا اعلان کردیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان بے گناہ مظلوم فلسطینیوں کی کوئی اہمیت نہیں جن کو شہید کر دیا گیا؟ اس بھاری جانی و مالی نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ کیاجنگ بندی مسئلے کا پائیدار حل ہے ؟
عالمی برادری کو ان حقائق کو بھی سامنے لانا چاہئے کہ اسرائیل کی طرف سے جارحیت کا ارتکاب کیوں کیا گیا۔ ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا نے قرارداد ہی منظور نہ ہونے دی‘ جس پر جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا پڑا جس میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر مقبوضہ علاقے خالی کرانے کا پُرزور مطالبہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل کو جنگی عزائم سے باز رہنے کی تنبیہ کی۔ یہ موقع تنبیہ، تشویش اور مذمت کا نہیں، اسرائیلی جارحیت پر اس کی گرفت کرنے کا ہے۔ پاکستان کی طرف سے فوری طورپر غزہ میں عالمی امن فوج تعینات کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ اس پر فوری طورپر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اقوام متحدہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کرے گا‘ اسرائیلی جارحیت‘ توسیع پسندی اور قبضہ گیری کا سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا۔
حالیہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر سے فلسطینی عوام کے حق میں زور دار آواز اٹھائی گئی۔ اس جنگ نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کی ''سنچری ڈیل‘‘ کے بھی پرخچے اڑا دیے ہیں جس کے تحت القدس اور مقبوضہ علاقوں کی زمین، مہاجرین کی واپسی کے حق اور مزاحمتی تحریک کے تمام حقوق کو سلب کرنے کی مذموم کوشش کی گئی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ فلسطینی مجاہدین کی شجاعت و دلیری نے غاصب اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ شدید بمباری کے باوجود آخری 48گھنٹوں میں 600 سے زائد راکٹ فائر کر کے فلسطینی مجاہدین نے دشمن کے دانت کھٹے کردیے اوراسے ناک رگڑ کر جنگ بندی پرآمادہ ہونا پڑا۔درحقیقت فلسطینی عوام کو جس مستقل اور پائیدار امن کی ضرورت ہے وہ فلسطین کی آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔
اقوام متحدہ کی 1948ء کی قرارداد سے لے کر 1993ء کے اوسلو معاہدے تک اور بعد کے برسوں میں کی جانے والی متعدد سفارتی کوششوں‘ جن میں 2000ء کی کیمپ ڈیوڈ سربراہی ملاقا ت اور 2013-14ء کا فلسطین اسرائیل امن عمل بھی شامل ہے‘ میں دو ریاستی حل کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا‘ یہ تمام کوششیں ہر بار اسرائیل کی جانب سے سبوتاژ کی گئیں۔ حالیہ سکیورٹی کونسل کا اجلاس امریکا نے رکوا دیا اور اسی دوران اسرائیل کے ساتھ 735 ملین ڈالرکا اسلحہ معاہدہ کر لیا۔ سلامتی کونسل میں کویت نے فلسطینیوں کے حق میں ایک ڈرافت قرارداد پیش کی،جسے امریکا نے ویٹو کر دیا۔ 57 اسلامی ریاستوں کی اس سے بڑی سفارتی شکست اور کیا ہوگی؟ ایسی سکیورٹی کونسل کا مسلمانوں کو کیا فائدہ ؟ افسوس ایک بھی مسلمان ملک سلامتی کونسل کی مستقل نشست حاصل نہیں کر سکا، انہیں اپنے مسائل کے حل کیلئے امریکہ و یورپ کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔
القدس یعنی یروشلم پر غاصب اسرائیل کا نہیں بلکہ فلسطینی قوم کا حق ہے۔ فلسطینیوں کے وطن واپسی کے حق کو دنیا کی کوئی طاقت نظرانداز نہیں کرسکتی۔ سرزمین فلسطین عرصہ درازتک انبیاء و رسل کا مرکزومرجع اورمسکن ومدفن رہی ہے۔اسی بابرکت خطہ ارض میں وہ مقدس شہر بھی واقع ہے جسے ایلیا ، ‘‘القدس'' اور بیت المقدس کہا جاتا ہے۔ ایک روایت ہے کہ اس شہر کو ''سام بن نوح‘‘ نے آباد کیا تھا۔ 1013 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کو فتح کیا۔ یہ سرزمین انبیائے کرام کی زمین ہے۔ بیت المقدس تمام عالم اسلام کا قبلۂ اول رہاہے، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ ہے۔ اسی مسجداقصیٰ کی طرف رخ فرماکر سولہ ماہ نماز اداکی گئیں یہی وہ مقام ہے جہاں سے نبی اکرمﷺ کے سفرِ معراج کا آغاز ہوا۔ یہیں پر آپﷺ نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی تھی۔ یہ امر مسلمانوں کے لیے باعث عارہے کہ ان کا قبلہ اول اوروہ زمین جو برکتوں کا خزانہ تھی‘ آج ان کے ہاتھوں سے چھن چکی ہے۔جب 1947ء میں مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا تو اس وقت عالم یہ تھا کہ فلسطین کی زمین کا صرف6 اعشاریہ 5 فیصد رقبہ یہودیوں کے قبضے میں تھا،14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی جس کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے؛ تاہم مشرقی یروشلم(بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔پھر جون 1967ء میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا،یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے اور کسی صلاح الدین ایوبی کا انتظار کررہاہے۔