تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     25-05-2021

عمر رواں

کتابوں سے میرا میل جول پرانا ہے۔ زندگی کے مختلف مراحل کے ساتھ ساتھ کتابوں کے موضوعات بھی بدلتے رہے۔ بچپن میں شکاریات کے بارے میں پڑھنا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ پھر شعروادب‘ فلسفہ و تاریخ‘ سیاسیات و معاشیات‘ سماجیات اور نہ جانے کیا کیا؛ تاہم لڑکپن سے لے کر اب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے میری محبوب و مرغوب کتابوں میں آپ بیتیاں سرفہرست رہی ہیں۔ یوں تو مجھے انگریزی اور اردو کی بہت سی خودنوشت داستانیں پڑھنے کا موقع ملا ہے؛ تاہم میں یہاں نمونے کے طور پر چند کتابوں کا ہی ذکر کرپائوں گا۔
انگریزی زبان کی آٹوبائیوگرافیوں میں مجھے ابراہام لنکن کی خودنوشت بہت پسند ہے۔ لنکن کو تجارت‘ وکالت اور سیاست میں پے بہ پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ شکستہ دل نہ ہوا۔ لنکن کی آپ بیتی سے مجھ پر آشکارا ہوا کہ ناکامیاں تو آپ کو اونچا اڑانے کیلئے ہوتی ہیں۔ ان سب ناکامیوں کے بعد بالآخر ابراہام لنکن امریکہ کا سولہواں صدر منتخب ہوا۔ انگریزی زبان کی دوسری خودنوشت نیلسن منڈیلا کی ''لانگ واک ٹو فریڈم‘‘ ہے۔ اس کتاب کو میں نے بہت ڈوب کر پڑھا اور یہ سیکھا کہ اپنے مقصد پر یقین کامل ہو تو 27 سالہ قیدوبند کی صعوبتیں بھی آپ کو جادئہ حق سے نہیں ہٹا سکتیں۔ انگریزی کی تیسری خودنوشت ٹینس سٹار ماریہ شراپووا کی ہے۔ اس کتاب سے نوجوانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ کامیابی کا زینہ انہی لوگوں کا منتظر ہوتا ہے جو محنت و ریاضت کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔
اردو کی آپ بیتیوں میں ''جہانِ دانش‘‘ مشہور شاعر احسان دانش کی زندگی کی کہانی ہے۔ یہ کہانی آپ کو جہدِ مسلسل کے معجزوں سے آشنا کرتی ہے۔ دوسری کتاب شعلہ بیان مقرر‘ قادرالکلام شاعر‘ صحافی اور مصنف حضرت شورش کاشمیری کی ہے۔ اُن کی خودنوشت کا نام مرزا غالب کے ایک شعر سے ماخوذ ہے جو ''بوئے گل‘ نالۂ دل‘ دودِ چراغِ محفل‘‘ ہے۔ اردو کی تیسری آپ بیتی مشہور بیوروکریٹ‘ شاعر اور ادیب الطاف گوہر کی ''گوہرگزشت‘‘ ہے۔ اس کتاب میں وہ آپ کی ملاقات پاکستان کے سیاست دانوں‘ جرنیلوں اور منصفوں سے براہِ راست کراتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی کے محبوب و ہردلعزیز طالبعلم راہنما‘ پنجاب یونیورسٹی یونین کے صدر‘ سابق ایم پی اے‘ ایم این اے اور موجودہ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی حال ہی میں چھپنے والی خودنوشت ''عمرِرواں‘‘ گزشتہ دوتین روز سے میرے زیر مطالعہ تھی۔ میں نے ورق گردانی کیلئے کتاب کھولی مگر یہ دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہاں ایک جہانِ دیگر میرا منتظر تھا۔ یقین کیجئے میں دو روز تک دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہوگیا اور اس دلچسپ کتاب کے مطالعے میں مگن رہا۔ نقاد حضرات ایک کامیاب آپ بیتی کیلئے حقیقت نگاری‘ شگفتگی اور دلچسپ پیرایۂ اظہار کو لازمی عناصر کی حیثیت دیتے ہیں۔ یہ تینوں عناصر پراچہ صاحب کی آٹوبائیوگرافی میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
ڈاکٹر فریدپراچہ ایک سیاست دان‘ مصنف اور ٹی وی شوز کے مقبول مہمان کی حیثیت سے ہر جگہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں اس لیے وہ محتاجِ تعارف نہیں۔ اُن کی شوخیٔ تحریر صفحہ اوّل سے لے کر صفحہ آخر تک مہکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جو قاری کا دل موہ لیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی خودنوشت میں بچپن سے لے کر بڑھاپے کی دہلیز تک کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ڈاکٹر فرید پراچہ 1950ء کی دہائی کے اواخر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ ایک بچے کی حیثیت سے اپنی پہلی ملاقات کا حال یوں بیان کرتے ہیں:مجھے میانوالی کا ریلوے سٹیشن یاد ہے جہاں ماڑی انڈس آکر رکی تو فضا ''فاتح تختہ دار مودودی‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ پلیٹ فارم پر استقبالیوں کی دورویہ قطاریں تھیں۔ سفید براق لباس میں ملبوس سید مودودی نپے تلے قدموں سے چل رہے تھے۔ قطار میں کھڑے معززین شہر سے انہیں ملایا جا رہا تھا۔ استقبالیہ صف میں میں بھی کھڑا تھا۔ ایک چھوٹا سا بچہ جس سے سید مودودی نے ہاتھ ملایا۔ اُن کے گرم جوش مصافحے کا لمس اب تک ذہن میں محفوظ ہے۔ ''مولانا گلزار احمد مظاہری کے بیٹے فرید ہیں‘‘ کسی نے تعارف کروایا۔ اس پر مولانا مودودی نے مسکراتے ہوئے کہا ''تو یوں کہیے نا کہ یہ گلِ گلزار ہیں‘‘۔
ڈاکٹر فرید پراچہ نے اپنے بچپن و لڑکپن سے لے کر طلبہ سیاست‘ یونیورسٹی یونین کی صدارت‘ پاکستانی سیاست‘ ملکی و عالمی شخصیات سے اپنی ملاقاتوں اور صوبائی و قومی اسمبلی کے ایوان تک‘ اسلامی جمعیت طلبہ سے اپنی رفاقتوں اور جماعت اسلامی اور دیگر کئی دینی اداروں سے اپنی لازوال وابستگیوں اور ملکی و غیرملکی سیاحتوں تک بے شمار واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔ اس ذکر جمیل کا دلچسپ پیرایۂ اظہار قاری کو یوں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جیسے مقناطیس سکے کو۔ ڈاکٹر فرید پراچہ یونیورسٹی کے واقعات کو نہایت پرکشش انداز میں بیان کرتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ فرید پراچہ نے کتاب میں فخریہ لکھا ہے کہ عام تاثر یہ تھا کہ فرید پراچہ کو طالبات کے بہت کم ووٹ ملیں گے مگر ہوا اس کے برعکس اور ماڈرن لڑکیوں نے نہ صرف فرید پراچہ کو کثرت سے ووٹ دیے بلکہ اُن کی انتخابی مہم بھی چلائی۔ فرید پراچہ نے یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہفتۂ کتب منایا اور مختلف اداروں سے یونیورسٹی لائبریریوں کے لیے 18 لاکھ کی کتابیں اور عطیات اکٹھے کیے۔ یونیورسٹی یونین کی اس کتاب دوست مہم کو ریڈیو‘ ٹیلی وژن اور اخبارات نے بہت سراہا تھا۔
فرید پراچہ نے یونیورسٹی کے زمانے کے اپنے دوستوں کا نہایت محبت سے تذکرہ کیا ہے۔ ان دوستوں میں اکثر گوہر تابدار ثابت ہوئے۔ مثلاً جاوید ہاشمی‘ اکرم شیخ‘ سید احسان اللہ وقاص اورعبدالشکور۔ یونیورسٹی احباب میں سے فرید پراچہ نے نامی گرامی شاعر سلیم طاہر کا ذکر بھی کیا ہے جن کی یہ غزل اس وقت یونیورسٹی کے طلبا و طالبات میں بہت مقبول تھی۔ کالم کی تنگ دامانی کے پیش نظر صرف دو اشعار ہی پیش کیے جا سکتے ہیں۔
ہم کو معلوم ہے کیا دستِ حنائی دے گا
قرب بوئیں گے تو وہ فصلِ جدائی دے گا
لاکھ بندش پہ بھی کھلتی ہیں زبانیں طاہرؔ
چپ رہا میں تو ہر اک زخم دہائی دے گا
ڈاکٹر فرید پراچہ 2002ء سے لے کر 2008ء تک کی قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ اس عرصے میں اسمبلی ریکارڈ کے مطابق حاضری اور قومی و معاشی اور عالمی معاملات کو زیر بحث لانے میں فرید پراچہ کا پہلا یا دوسرا نمبر تھا۔ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی فروری 1999ء میں لاہور آمد کو ملکی سیاست میں تاریخی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے مگر اس موقع پر جماعت اسلامی نے بھارتی وزیراعظم کے صلح جویانہ دورے پر شدید احتجاج کیا بلکہ کچھ پرتشدد واقعات بھی رونما ہوئے۔ اگلے روز اُس دور کی نواز حکومت نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے لوگوں پر تشدد کر کے انہیں گرفتار کیا۔ فرید پراچہ نے اس واقعے کا ذکر تو کیا ہے مگر کئی تلخ حقائق سے شاید مصلحتاً دامن بھی بچایا ہے۔ ''ڈاکٹر فرید پراچہ وزیراعظم پاکستان بن گئے‘‘یہ چونکانے والی خبر کیا ہے؟ کس موقع پر اُس وقت کے صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف نے فرید پراچہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: مسٹر پرائم منسٹر! جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اُن کے دلچسپ سوالات و جوابات کی تفصیلات جاننے کیلئے آپ کو ان کی خود نوشت کا براہِ مطالعہ کرنا پڑے گا۔
میں نے کالم کے آغاز میں انگریزی اور اردو کی بعض آپ بیتیوں کا مختصر تذکرہ اس لیے کیا تھا تاکہ قارئین اندازہ لگا سکیں کہ فرید پراچہ کی خودنوشت اردو ادب میں ہی نہیں آٹوبائیوگرافی کے عالمی لٹریچر میں بھی ایک گرانقدر اضافہ ہے۔ قارئین اس کتاب کے مطالعے سے تاریخی واقعات سے آگہی حاصل کرتے ہیں اور اس سے کامیاب زندگی کا ہنر بھی سیکھ سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved