تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     25-05-2021

کیا ہم بھی اپنی قمیص اُتاریں؟

یہ تھا احتجاج کا وہ طریقہ جو بلوچستان اسمبلی کے ایک معزز رکن کو پچھلے دنوں ایوان کی کارروائی کے دوران استعمال کرنا پڑا۔ بھلا ہو سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا جس نے یہ منظر نہ صرف کالم نگار کو چھ ہزار میل کے فاصلے پر بلکہ دنیا بھر میں پاکستانی ناظرین کو دکھا دیا مگر آپ داد دیجئے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو کہ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ملازمین دن رات کو ئٹہ کی شاہراہوں پر بیٹھے رہے۔ دھرنے میں خواتین بھی شامل تھیں۔ ایک دو دن نہیں پورے دس دن۔ کم آمدنی والے سرکاری ملازمین کے سارے مطالبات سو فیصد جائزتھے۔ اگر وطنِ عزیز فلاحی مملکت ہوتا تو اس طرح کے مظاہروں کی نوبت ہی نہ آتی۔ ماضی قریب میں کم آمدنی والے سرکاری ملازمین کئی کئی دن لاہور اور اُس سے پہلے اسلام آباد میں سڑکوں پر شب و روز بیٹھ کر دھرنے دے چکے تھے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے کئی دن جاری رہنے والے دھرنے کو نہ بھولیں۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا ناقابلِ فراموش حصہ ہے اور یقینا تکلیف دہ بھی۔
سیدھی سی بات ہے کہ مملکت فلاحی نہ ہوگی تو مہنگائی اور افراطِ زر کی بدولت روایتی ''اللہ دتہ‘‘ کی روایتی بیوی ''سکینہ بی بی‘‘ کیلئے گھر چلانا روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ حکمران اندھے بہرے اور گونگے ہوں تو مہنگائی کی چکی میں پسنے والے لاکھوں افراد کریں تو کیا کریں؟ جلسہ جلوس کا زمانہ تو گزر چکا‘ اب دھرنوں کا دور ہے۔ ایک اور تبدیلی یہ آتی ہے کہ پہلے پولیس پرُ امن مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بناتی تھی اب لاٹھیوں اور پتھروں سے لیس مظاہرین پولیس کو اپنے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ 60 ، 70 کی دہائی میں ہر سرکار لاٹھی اور گولی کا بے دریغ استعمال کر کے وقت گزار لیتی تھی‘ پھر یہ نعرہ بلند ہوا کہ لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی۔ سرکار تو چلی گئی اور بار بار جاتی رہی مگر لاٹھی اور گولی کے استعمال میں اتنی ڈرامائی کمی آئی ہے کہ ایک تنظیم نے تین دن ٹریفک جام رکھی‘ کاروبارِ زندگی معطل کر دیا۔ وزیر داخلہ نے تنظیم کو خلافِ قانون قرار دے دیا‘ و ہی صاحب چند ماہ قبل اس تنظیم کے ساتھ مذاکرات کرنے والے اور صلح نامہ پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھے۔فیض آباد دھرنے کے بارے میں معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے لکھا اور پڑھ کر سنایا۔ اس فیصلے کے اقتباسات کے بجائے یہاں شیخ سعدیؒ کی ایک حکایت درج کرنی چاہیے جس میں شہر سے تیزی سے بھاگتی ہوئی ایک لومڑی کو یہ ر تھا کہ جب سرکار اونٹوں کو مفادِ عامہ کے خلاف قرار دے کر اُن کی پکڑ دھکڑ کر رہی ہے تو خطرہ ہے کہ اسے سرکاری کاغذوں میں اُونٹ کا بچہ دکھا کر نہ دھر لیا جائے۔ بے گناہ انسان ہو یا لومڑی‘ اگر وہ بے وسیلہ ہے تو اس کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ مثالیں تو بہت ہیں‘ میں صرف پانچ پر اکتفا کروں گا۔ (1): سانحہ ماڈل ٹائون۔ (2): سانحہ ساہیوال (3 اور 4): سانحہ اسلام آباد (ایک نہیں بلکہ دو) ایک سانحہ میں پولیس نے ڈاکو ہونے کے شبہے میں ٹیکسی چلانے والے ایک نوجوان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور دوسرے میں تلاشِ روزگار کی غرض سے گائوں سے شہر آنے والے چار نوجوانوں کی گاڑی کو ایک بڑے گھرانے کی بڑی گاڑی نے مجرمانہ غفلت سے ٹکر ماردی ۔ (5): ایک سابق سینئر پولیس آفیسر کے ہاتھوں مبینہ طور پر چار سو سے زائد افراد کا جعلی پولیس مقابلوں میں قتل۔ اب ہم واپس چلتے ہیں اُسی سوالیہ نشان کی طرف جو آج کے کالم کا عنوان بنا۔ ہم صرف قمیص اُتاریں یا گریبان چاک کریں (مرحوم منو بھائی کے کالم کا تو عنوان ہی گریبان تھا جس کے ساتھ پھٹے گریبان کی تصویر بھی چھپتی تھی تاکہ سند رہے) بال نوچیں یا کسی اور مؤثر طریقے سے ماتم کریں؟ میری دردمندانہ اور دوستانہ رائے یہ ہے کہ ہم مذکورہ بالا کاموں میں ایک بھی نہ کریں۔ پھر کریں تو کیا کریں؟اس کا جواب ہے کہ ہم وہ کریں جو کوئٹہ میں ڈاکٹر شاہ محمد مری اور اُن کے ساتھیوں نے کیا۔ ہم مظاہرین کا ساتھ دیں‘ ہم اُن کی حمایت کریں‘ ہم اُن کی آواز میں اپنی آواز ملائیں‘ ہم اُن کی فریاد کو زبانِ خلق بنا دیں جو نقارہ خدا ہوتی ہے۔ خوش خبری یہ ہے کہ بلوچستان کی تمام مزدور انجمنوں نے عملی طور پر سرکاری ملازمین کے مہنگائی کے مارے جھکے ہوئے کندھوں کے ساتھ اپنا کندھا ملا دیا۔ میں نہیں جانتا کہ کیا کوئٹہ کے وکیلوں کا کوئی وفد اس مظاہرے میں شریک ہوا یا نہیں؟ سکولوں‘کالجوں‘یونیورسٹیوں کے طلبا‘ طالبات اور اساتذہ؟؟؟ میں نے جان بوجھ کر تین سوالیہ نشان لگائے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کو ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد عارضی ریلیف ملا ہے مگر تلوار ہے کہ بدستور اُن کے سروں پر لٹک رہی ہے۔
دوسرا سوال پہلے سے بھی کٹھن ہے۔ اہالیانِ کشمیر ہوں یا فلسطینی یابرما (میانمار) کے بے حد دکھی مہاجرین (روہنگیا) ہوں یا کوئی اور‘ دنیا بھر میں جہاں کہیں اورجب بھی مسلمانوں پر کوہِ غم ٹوٹے تو ہمارایگانگت کا جذبہ جاگ اُٹھتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بلوچستان میں اتنے دنوں تک سرکاری ملازمین کا اتنا بڑا مظاہرہ ہوا مگر پاکستان کے دوسرے شہروں میں کسی کے کان پر محاورتاً بھی جوں تک نہ رینگی۔ نہ وکیل نہ اُستاد‘ نہ ڈاکٹر نہ مزدور‘ نہ کسان سب کے سب دَم سادھے پڑے رہے۔ کیا یہ وہی قوم ہے جس نے ہزار مشکلات کے باوجود ایک بااصول اور بہادر قائد کی دیانتدارانہ قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے74 سال پہلے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بنایا تھا؟ کیا یہ وہی قوم ہے جس نے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کو ایک زبردست عوامی تحریک کی بدولت بحال کرایا تھا؟ کیا ہمیں وہ دو بہت بڑی قابلِ فخر عوامی تحریکیں بھی یاد نہیں رہیں جنہوں نے 60 ء کی دہائی میں ایوب خان اور پھر 70ء کی دہائی میں قائدِ عوام‘ فخرِ ایشیا کہلانے والے اور مضبوط کرسی پر بیٹھے مگر انتخابات میں دھاندلی کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے اقتدار سے چمٹا رہنا ناممکن بنا دیا تھا۔ حکمران طبقہ اور نام نہاد اشرافیہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ مہنگائی‘ غربت‘ بے روزگاری اور نا انصافی کے ڈسے ہوئے لاکھوں افراد احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئے تو پھر کیا ہوگا؟
کیا اشرافیہ اُن کے احتجاج کو بھی خلافِ قانون قرار دینے کا حکم جاری کرکے اسے تتر بتر کر دے گی یا خود خزاں کے زرد پتوں کی طرح ہوا میں اُڑ جائے گی؟ اگر ہم نے اپنے ملک کو جلد از جلدفلاحی مملکت یعنی ویلفیئر سٹیٹ نہ بنایا تو آنے والے وقت میں تخت گرائے جائیں گے اور تاج اُچھالے جائیں گے اور خدا کی دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے اور لرزے گی۔ ازل سے تقدیر کے قاضی کا یہی فتویٰ ہے کہ استحصال‘ لوٹ مار‘ منافع خوری‘ چور بازاری‘ ذخیرہ اندوزی اور غریب عوام کا خون چوسنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی سزا مرگِ مفاجات ہے۔ یہ ہمیں پہلے اقبالؔ پھر فیضؔ‘ پھر حبیب جالبؔ اور آخر میں احمد فرازؔ نے بتایا اور بالکل سچ بتایا ۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ ضرورت اپنی قمیص اُتارنے کی نہیں بلکہ چار سُو چھائے ہوئے مافیا کے دامن کو حریفانہ کھینچنے کی ہے۔ اُس کا گریباں چاک کرنے کی ہے۔ اب اُس کے احتساب کا وقت آپہنچا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved