تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     25-05-2021

رسولِ رحمتﷺ کے اُمنا (امانت دار صحابہ)

نبی اکرمﷺ نے اپنے بعض صحابہ کرامؓ کوخصوصی القابات و اعزازات سے نوازا۔ یوں تو آپﷺ کے تمام صحابہؓ و صحابیاتؓ اعلیٰ درجے کے امانت دار اور دیانت دار تھے‘ اس کے باوجود آپﷺ نے تین صحابہ کرام کو خصوصی طور پر ''امین‘‘ کے لقب سے نوازا۔ امام ابن کثیرؒ نے اپنی مشہور کتاب البدایۃ والنہایۃ میں ایک فصل الگ سے قائم کی ہے‘ جس میں ''تین اُمنا‘‘ (امانت دار صحابہ) کا ذکر ہے۔ جماعت صحابہ کے درمیان ان تینوں صحابہ کرامؓ کے اس منفرد اعزاز کی وجہ سے ان کو خاص مقام اور اہمیت حاصل تھی۔
1۔حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح: ان اُمنا میں سب سے نمایاں نام تو سیدنا ابوعبیدہؓ بن الجراح کا ہے۔ ان کے بارے میں حضرت انسؓ کی روایت صحیح بخاری میں ملتی ہے، جس کے الفاظ ہیں: لکل امۃ امین وامین ھذہ الامۃ ابوعبیدۃ بن الجراح۔ ہر امت کے اندر ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہؓ بن جراح ہے۔
نبی اکرمﷺ کے پاس جب نجران کا وفد آیا اور انہوں نے درخواست کی کہ ان کے ساتھ کسی شخص کو بھیجا جائے جو ان کے معاملات کی نگرانی بھی کرے اور آپ کی نمائندگی کا حق بھی ادا کرے تو آپﷺ نے فرمایا: لابعثن معکم امینا حق امین۔ میں تمہارے ساتھ اس شخص کو بھیجوں گا جو حقیقی معنوں میں امین ہے۔پھر آپﷺ نے ابوعبیدہؓ کو حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ رسول اللہ کے نمائندے کے طور پر جائیں۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج1، ص1120)
یہ بڑا اعزاز تھا جس پر صحابہ کرامؓ حضرت ابوعبیدہؓ کے مقام ومرتبے پر رشک کرتے تھے۔ اور تو اور حضرت فاروق اعظمؓ اس واقعہ کو بیان فرمایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے کبھی کسی ذمہ داری یا منصب کی تمنا نہ کی تھی مگر آنحضورﷺ کے یہ الفاظ سن کر اس روز میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش مجھے یہ ذمہ داری دی جائے۔ میں نے آنحضورﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف کئی بار دیکھا، مگر آپ نے ابوعبیدہؓ کو یہ اعزاز عطا فرمایا۔ واقعی سیدنا ابوعبیدہؓ کی پوری زندگی از اوّل تا آخر اس فرمانِ نبویﷺ پر پوری اترتی ہے۔ آپؓ دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے لیے ہر لمحہ فکرمند رہا کرتے تھے۔
عشرہ مبشرہ وہ دس خوش نصیب صحابہ کرامؓ ہیں جن کا نام لے کر آنحضورﷺ نے ان کو ایک ہی مجلس میں جنت کی بشارت دی۔ گویا یہ افراد صحابہ کرام کے درمیان ممتاز شخصیات اور روشن ہیرے تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح بھی عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ آپؓ نے آنحضورﷺ کے دور میں ہر جہاد میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے۔ آپؓ نے بدر کے معرکے میں اپنے مشرک باپ کو قتل کیا تھا۔ آپﷺ کے دور میں آپؓ نے سرایا کی قیادت بھی فرمائی اور پہلے دونوں خلفائے راشدینؓ کے دور میں بھی بڑے بڑے معرکوں میں سپہ سالاری کا حق ادا کیا۔ روم کے مقابلے میں لڑی گئی جنگوں میں فوجوں کی کمان کرتے ہوئے ''طاعون عمواس‘‘ کی وبا میں آپؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت عمرؓ جب فتح بیت المقدس کے موقع پر شام کی طرف گئے تو تمام فوجی سالاروں کے ذاتی حالات بھی ملاحظہ فرمائے۔ اس موقع پر آپؓ نے فرمایا: سب لوگ بدل چکے ہیں، مگر ابوعبیدہؓ آج بھی مکمل طور پر اسی کیفیت میں ہیں، جس میں آنحضورﷺکے دورِ سعید میں ہوا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓنے اپنی شہادت کے وقت کہا تھا کہ اگر ابوعبیدہؓ آج زندہ ہوتے تو میں انہیں اپنا جانشین نامزد کردیتا۔
2۔حضرت عبدالرحمنؓ ابن عوف: آپؓ قریش کے قبیلے بنو زہرہ میں سے تھے۔ ابتدائی زمانے میں مسلمان ہوئے۔ آپؓ کا نام بھی عشرہ مبشرہ میں شامل ہے۔ میدانِ کارزار میں آپ کے کارنامے بھی بہت زیادہ اور نہایت ایمان افروز ہیں۔ جہاد بالنفس کے علاوہ جہاد بالمال کے میدان میں بھی آپؓ صفِ اول میں تھے۔ جب بھی آنحضورﷺنے مال کی اپیل کی، آپؓنے بغیرگنے اور تولے درہم ودینار اور سونا چاندی پیش کردیا۔ آنحضورﷺ آپؓ کو بہت دعائیں دیتے تھے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے خطیر رقم سونے، چاندی اور درہم ودینار کی صورت میں پیش کی تو آنحضورﷺ نے فرمایا: بَارَکَ اللّٰہ فِیْمَا اَمْسَکْتَ وَفِیْمَا اَعْطَیْتَ (اللہ تمہارے اس مال میں بھی برکت دے جو تم نے اپنے پاس رکھا اور اس میں بھی جو تم نے اللہ کے راستے میں دے دیا)۔ (تفسیرابن کثیر، جلد3، ص430، تفسیر سورۃ التوبہ، آیت:79)
حضرت عمرؓکی شہادت کے وقت بنائی جانے والی چھ رکنی کمیٹی کے ارکان نے ان کی امانت ودیانت اور ذہانت وقابلیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہی کو یہ مشکل کام سونپا تھا کہ وہ لوگوں سے رائے لے کر کمیٹی کو بتائیں کہ امت مسلمہ کی سوچ کیا ہے؟ چنانچہ انہی کی کاوش سے لوگوں کی آرا معلوم کی گئیں اور حضرت عثمانؓ بن عفان کی بیعت کا فیصلہ ہوا۔ ان کو بھی آنحضورﷺنے امین قرار دیا تھا اور یہ خود بھی اپنی دولت کے بارے میں جو بے انتہا تھی‘ کہا کرتے تھے کہ مالک تو اللہ ہے میں تو محض امین ہوں۔ امہات المومنینؓ کو آپﷺ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا تھا کہ میری امت کا مردِ صالح تمہاری ہر طرح کی کفالت کرے گا۔ آپﷺ کا اشارہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی طرف تھا۔ آپؓ نے اس ارشادِ نبوی پر بہترین انداز میں عمل کیا۔ (اُسدالغابۃ ، اردو ترجمہ، ج2، ص401)
حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف ان صحابہ کرامؓ کو یاد کرتے جو عسرت کے زمانے میں جامِ شہادت نوش کرگئے تو آپ آبدیدہ ہوجاتے۔ ایک مرتبہ دسترخوان پر بیٹھے ہوئے زاروقطار رونے لگے۔ بیٹے ابراہیم بن عبدالرحمنؓ نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا'' مجھے بے ساختہ مصعبؓ بن عمیر یاد آگیا ہے۔ مکہ میں وہ شہزادوں کی زندگی گزارتا تھا، مگر اس نے دنیا کو چھوڑ کر آخرت کا سودا کرلیا۔ وہ بدر کے میدان میں شہید ہوا تو اس کے جسم پر اتنی چھوٹی چادریں تھیں کہ سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے، پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہوجاتا۔ رسولِ رحمتﷺ نے فرمایا: تم شہید کے پاؤں پر گھاس ڈال دو، وہ تو جنت کی جاں فزا نعمتوں سے سرفراز ہوچکا ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے اعمال کا بدلہ پورے کا پورا مجھے دنیا ہی میں تو نہیں لوٹادیا گیا‘‘۔ یہ آپؓ کے احساسِ ذمہ داری اور خوفِ آخرت کی بہترین مثال ہے۔
3۔حضرت معیقیبؓ بن ابی فاطمہ دوسی: علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ حضرت معیقیبؓ اصل میں قبیلہ دوس سے تعلق رکھتے تھے اور بنوعبد شمس کی غلامی میں بھی رہے تھے۔ پھر یہ آزاد ہوگئے اور اپنے ایمان میں بڑے مضبوط ثابت ہوئے۔ حضرت ابوہریرہؓ بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت معیقیبؓ کو بھی نبی اکرمﷺ نے امین ہونے کا اعزاز بخشا تھا۔ انہیں پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کا اعزاز حاصل ہوا اور پھر وہاں سے پلٹ کر مدینہ کی طرف بھی ہجرت کی۔ یہ بدری صحابہ میں سے ہیں۔
آپؓ کا یہ اعزاز ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی انگوٹھی جو چاندی کی تھی‘ ان کے سپرد کررکھی تھی۔ یہ اس کی حفاظت کرتے اور آپﷺ کی طلب پر آپﷺ کے حوالے کردیتے تھے۔ مورخین ومحدثین بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے شروع میں سونے کی انگوٹھی بھی پہنی لیکن جب مردوں کے لیے سونا پہننے کی ممانعت آئی تو آپﷺ نے وہ انگوٹھی پھینک دی اور فرمایا: فواللہ لا البس (خدا کی قسم! اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا)۔ صحیحین میں اس موضوع پر احادیث موجود ہیں۔
آنحضورﷺ کی یہ انگوٹھی آپﷺ کی مہر بھی تھی۔ اس کے اوپر ''محمد رسول اللہ‘‘تین سطروں میں نقش تھا۔ آپ کے بعد یکے بعد دیگرے یہ انگوٹھی خلفائے راشدینؓ کے پاس رہی تاآنکہ حضرت عثمانؓ کے دور میں‘ ان کی خلافت کے چھٹے سال‘ اریس کے کنویں میں یہ گرپڑی۔ اسے ڈھونڈ نکالنے کی بڑی کوشش کی گئی مگر کنویں سے انگوٹھی برآمد نہ ہوسکی۔ امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ ابوداؤدؒ نے اپنی مشہور کتاب سنن ابی داؤد میں اس انگوٹھی کے بارے میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے، جس میں کئی احادیث جمع کی گئی ہیں۔
حضرت معیقیبؓ ہر جہادمیں شریک رہے۔ خلیفۂ ثانی حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنے دور میں ان کو بیت المال کا خزانچی مقرر کیا۔ ان کو جذام کا مرض لاحق ہوا تو حضرت عمرؓ نے حنظل (تُمہ، خربوزے کی طرح کا ایک چھوٹا سا پھل جو سخت کڑوا ہوتا ہے) سے ان کا علاج کیا، جس سے ان کی بیماری بڑھنے سے رک گئی۔ نبی اکرمﷺ نے جذام (کوڑھ)کی بیماری کو بہت خطرناک قرار دیا مگر ایک صحابی کو آپﷺ کی زندگی میں یہ بیماری لاحق ہوئی تو آپﷺ نے ایک پیالے میں پانی بھر کر اس سے کہا: اس پیالے میں ہاتھ ڈال دو۔ امام ابوداؤد کے الفاظ میں آپ نے فرمایا: کل ثقۃ باللہ، وتوکلاعلیہ ( ہر مشکل کا علاج اللہ پر بھروسہ اور توکل کرنے سے ممکن ہے)۔
نبی اکرمﷺ بیماریوں سے شفا کے لیے بھی دعا کرتے تھے اور بیماریوں سے بچاؤ اور تحفظ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے مناجات کیا کرتے تھے۔ آپﷺ کی ایک جامع دعا ہے: اللہم انی اعوذبک من البرص، والجنون، والجذام وسیِّئِ الْاسقام۔ اے اللہ! میں تجھ سے برص(پھلبہری)، جنون (پاگل پن)، جذام (کوڑھ) اور ہر قسم کی بری بیماریوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (سنن ابی داؤد، ح1556، مسنداحمد3/192)۔
حضرت معیقیبؓ کی وفات کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے‘ بعض کے نزدیک ان کی وفات خلیفۂ ثالث حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں ہوئی اور بعض کی رائے میں 40ھ میں انہوں نے وفات پائی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج1، ص 1120-1121)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved