تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     26-05-2021

مال ہو تو لگانے کا ڈھنگ بھی ہو

اکثر ذہن میں خیال اٹھتا ہے کہ اس ملک پہ کس کی منحوس نظر لگی کہ اپنے ہاتھوں اس کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا۔ ایام ِجوانی میں ہم بے وسیلہ ہوا کرتے تھے۔ ضروریا ت کے پیسے تو ہوتے لیکن اڑانے کے لیے زیادہ کچھ نہ ہوتا۔ لاہور کا وہ بازار جس کا نام حافظے سے اکثر پھسل جاتا ہے سے گزر توسکتے تھے لیکن خریدار بننے کی استطاعت نہ ہوتی۔سیگل صاحب کا وہ مشہور گانا '' بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں‘‘ ہماری اُس وقت کی حالت کی مناسب عکاسی کرتا ہے۔
استطاعت کے لحاظ سے زندگی میں زیادہ فرق نہیں پڑا لیکن اُس جوانی کی کسمپرسی کے مقابلے میں اب کچھ ٹَکے زیادہ ہیں لیکن ان ٹکوں کو لگائیں کہاں‘ زندگی کے اس حصے میں یہ ہمارا سب سے بڑا مخمصہ ہے۔ پاکستان کا چہرہ ہم نے ایسا مسخ کردیا ہے کہ سوال یہی اٹھتا ہے کہ شام کو بیٹھیں کہاں اور جیب ہلکی کرنی بھی ہو تو کس شے پہ کی جائے۔ انٹرنیٹ پہ بے ہودگی تلاش کرنے سے تو ہم رہے۔ یہ کوئی طریقہ ہے کہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ جائیں اور واہیات قسم کی گفتگو میں اپنی راتوں کی نیند حرام کریں؟ آسانی اورآسودگی کے طالب ہیں۔ گزرے زمانوں کا پاکستان برقرار رہتا‘ راولپنڈی صدر ایسا ہی رہتا جیسا کہ اُس زمانے میں ہوا کرتا تھا ‘ مال لاہور کی ہیت نہ بدلتی تو پھر رونا کس چیز کا تھا؟ گاؤں میں رہتے ہوئے بھی مزہ بدلنے کے لیے ایک شام اُن جگہوں پہ گزارنے کے لیے چلے جاتے۔ لیکن کچھ بچا ہی نہیں۔ پتا نہیں کن کن نعروں پہ ہم نے ملک کا حلیہ برباد کردیا۔ اس بات کی بھی خبر نہیں کہ یہ ڈپریشن طاری کرنے والی صورتحال کیسے تبدیل ہوسکتی ہے۔ ڈھنگ کا کوئی حکمران آئے تو آنکھ جھپکنے میں ایسے مخصوص حالات بدل سکتے ہیں لیکن ایسے اکابرین کہاں سے ملیں گے۔ کس سپر مارکیٹ میں جائیں کہ اُن کی خریداری ہوسکے ؟
حالت اب یہ ہے کہ وہ مخصوص دوا جو ہم شام کے سایوں کو ذرا کم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اُس کی موجودگی میں کمی آجائے تو پہلے خود لاہور کے لیے چل پڑتے تھے لیکن اب اس امر سے تھک چکے ہیں۔ اس ہفتے ارادہ بندھا ہے کہ ڈرائیور کو بھیج دیا جائے۔ حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگا اور وہاں سے دوا حاصل کرکے بذریعہ لاری چکوال یا بھگوال واپس آجائے گا۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ایسی کیفیت کسی اور ملک میں بھی طاری ہے ؟سعودی عرب اور ایران اپنے کام سے کام رکھیں۔ ہم اُن کی تقلید نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ہمارا مزاج مختلف ہے‘ ہماری تاریخ مختلف رہی ہے۔ ہم نہ عرب ہیں نہ ایرانی۔ ہم برصغیر کی ہوا اور موسم کی پیداوار ہیں۔ ہمارا مزاج اپنا ہے۔ ہم میں سے اکثر کا شیخ امیر خسرو ہے۔ بہت سی چیزوں میں ہمارے پیشوا مرزا اسداللہ خان غالبؔ ہیں۔ ہم نے اپنا کمبل اوڑھنا ہے کسی اور کانہیں۔ہماری تڑپ یہ نہیں کہ ہم کسی اور کی طرح بن جائیں بلکہ ہماری دعا یہ ہے کہ ہم اپنی اصلیت کو واپس لوٹیں۔وہ اصلیت جو کسی خواب کی مظہر نہیں۔ وہ اصلیت موجود ہوا کرتی تھی اور ہماری گناہ گار آنکھوں نے اُسے دیکھا ہے۔
پھر ہم نے بربادی کے عمل کو بھی دیکھا۔ ایسے لگتا تھا کہ اس دھرتی کی خوبصورتی اور حسن کو کسی باقاعدہ منصوبے کے تحت برباد کیا جا رہا ہے۔ وہ دروازے جو ہمیشہ کے لیے کھلے رہنے چاہئیں تھے وہ بند کر دیے گئے۔ وہ جگہیں خالی ہو گئیں۔ اُن کی جگہ کپڑے اور جوتوں کی دکانوں نے لے لی ہے۔ اُس بازار کی حالت تو اب دیکھیں ‘ یوں لگتا ہے کسی کی نظرِبد اُسے لگ گئی ہے۔ایک تو ہمارا پلاسٹک شاپروں سے عشق۔ پلاسٹک کے ڈھیر ہر کونے کھدرے میں پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ کہاں گئے وہ طبلے کہاں اُن کی آواز۔ استاد دامن یہیں رہا کرتے تھے۔ فیضؔ صاحب بھی اس طرف کا چکر کبھی کبھار لگا لیتے تھے۔ قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ فراق گورکھپوری لاہور آئے تو فیضؔ صاحب اسی بازار میں ان کولے آئے۔ حالات بدل چکے تھے۔ جنرل ضیاء سے منسوب سیاہ را ت مملکتِ خداداد پہ طاری ہوچکی تھی لیکن غالباً یہ شروع کے دن تھے اور اُس بازار کی روشنیاں مکمل طور پہ گُل نہیں ہوئی تھیں۔ یعنی اہلِ ذوق کا وہاں جانا مکمل طور پہ بند نہیں ہوا تھا۔ لیکن سیاہ رات کی تاریکی بڑھتی گئی تو تمام روشنیا ں بجھ گئیں اور نتیجہ اُس کا وہ ہے جو اُس بازار کی حالت اب ہے۔
لیکن اس سارے قضیے کا نتیجہ کیا نکلا ؟ ایک بازار ہوا کرتا تھا ‘ اُسے پاک و صاف کرنے کی کوشش میں لاہور میں بازار ہی بازار ہو گئے ہیں۔ اُن کی کیفیت بدل چکی ہے۔ زمانے کے انداز مختلف ہو گئے ہیں۔ تب جو ہوتا تھا کھلے عام ہوتا تھا۔ اب جو ہوتا ہے بڑے گیٹوں اور اونچی دیواروں کے پیچھے ہوتا ہے۔ تب ہر ایک کی جیب کے مطابق سامانِ تفریح میسر تھا۔ اب اس تفریح کے درجا ت بھاری جیبوں والوں کے لیے ہی مختص ہیں۔ اونچ نیچ تب بھی تھی۔لیکن اُس بازار کا خاص حسن یہ تھا کہ جہاںاُمراء سلامی دینے جاتے تھے وہاں فقرے بھی جا سکتے تھے۔اب اونچ نیچ کی خلیج بہت وسیع ہوچکی ہے ‘ اتنی وسیع کہ کمزور ہاتھ اُمراء کے ساحلوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ یعنی جہاں پہلے ہی ساری آسائشیں اونچے طبقے کے لوگوں کے لیے تھیں وہاں سامانِ تفریح بھی اب اُنہیں لوگوں کے لیے مخصوص ہوچکا ہے۔کمزور لوگوں کے لیے گڑگڑا کے دعا مانگنا ہی باقی رہ گیا ہے۔
بہرحال ہمارا رونا اپنے لئے ہے۔ ہم سے کون سی خطاسرزد ہوئی کہ ایسے حالات دیکھنے پہ ہم مجبور ہیں۔ پرانے وقتوں کی محفلیں اب بھی یاد ہیں۔ اُن میں کچھ ذوق کاعنصر ہوا کرتا تھا۔ لیکن اونچی دیواروں کے پیچھے آج کل تفریح کے نام پہ جن حرکات کا اہتمام ہوتا ہے وہ کم از کم ہمارے مزاج کے مطابق نہیں۔ بے جا شور شرابے کے ویسے ہی ہم قائل نہیں۔ دھیمی لائٹوں والی کوئی جگہ ہو۔ ویٹر حضرات تمیز دار اور سمجھ دار ہوں۔ میزبانی کے طور طریقوں سے واقف ہوں۔ موسیقی ہو تو ہلکی آواز میں۔ پرفارمنس کوئی ہونی ہے تو وہ بھی کسی اسلوب کے ساتھ۔ چپکے سے کسی کونے میں ہم بیٹھ جائیں۔ کچھ وقت وہاں گزاریں اور پھر دو اڑھائی گھنٹے بعد وہاں سے نکل آئیں۔بیشک اکیلے ہوں۔ بیشک کوئی ساتھی نصیب میں نہ آیا ہو۔ اس کا کوئی ارمان نہیں۔ بات تو وقت گزارنے کی ہے۔ گاؤں میں انتظام ہمارا اپنا ہوتا ہے۔ شہر جائیں تو طریقے کی کوئی جگہ تو ہو۔ ہمارے ساتھ جو بربادی ہوئی ہے اُس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پورے دیس میں ایک ایسا دروازہ نہیں جسے آپ کھولیں اور کسی کونے میں آپ بیٹھ سکیں۔
اس ماحول میں فیض یا جوش صاحب ہوتے اُن کی شاعری ختم ہو جاتی۔ ان حالات میں شاید وہ شاعری سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرلیتے۔ داد تو آج کل کے گانے والوں کو دینی چاہئے ان حالات میں بھی گا رہے ہیں۔ بڑے اچھے گانے بھی پروڈیوس ہو رہے ہیں۔ نہیں تو ہم نے جو قحط زدہ زمین بنا دی ہے اس میں نہ شاعری پنپنے نہ موسیقی کا کوئی وجود رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved