تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     26-05-2021

نیساپور کا طَور گُل

کہتے ہیں محبت سے دلوں کو تسخیر کیا جا سکتا ہے۔ مجھے اس پر یقین تب آیا جب میں طَور گُل سے ملا جو افغانستان کے علاقے ننگر ہار کا رہنے والا تھا۔طور گُل سے میں کیسے ملا اس کا ذکر ذرا آگے چل کر آئے گا۔وہ عید کا تیسرا دن تھا ‘میں نے یارِ عزیز رؤف کلاسرا کو فون کرنے کا سوچا جسے ملے ہوئے ایک عرصہ ہو چکا تھا۔فون پر ہی پروگرام بنا کہ اسلام آباد سے باہر نکلا جائے۔اسلام آباد سے تقریباًایک گھنٹے کے فاصلے پر دریائے سندھ کے کنارے ایک فارم ہاؤس ہے جسے میجر(ر) عامر کے دستِ ہنر مندنے آباد کیا ہے۔فون پر ان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا: یہ تو بڑی اچھی تجویز ہے ‘لنچ فارم ہاؤس پر کرتے ہیں‘ جس میں جمیل مرغز ‘ قیصر بٹ اور ناصر علی سید بھی ہوں گے۔قیصر بٹ کہنہ مشق صحافی ‘جمیل مرغز اپنے دور کے انقلابی اور ناصر علی سید شاعر اور کالم نگار ہیں۔
پشاور جانے والی موٹر وے پر صوابی انٹر چینج سے نکل کر ہم بائیں ہاتھ واپس مڑتی ہوئی ایک نیم پختہ ذیلی سڑک پر سفر شروع کر دیتے ہیں۔سڑک پر جوں جوں آگے بڑھتے جائیں منظر خوش نما ہوتے چلے جاتے ہیں۔اسی سڑک پر سفر کرتے ہم اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔جہاں دریائے سندھ کے پانیوں کی ایک خوب صورت جھیل ہے جس کے کنارے پھل دار درختوں سے آراستہ وہ جگہ ہے جہاں سفید کرسیوں پر میجر عامر کے ہمراہ قیصر بٹ ‘ جمیل مرغز اور ناصر علی سید بیٹھے ہیں۔ہم نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سب کو سلام کیاکیونکہ مصافحہ اور معانقہ وباکے دنوں میں ممنوع ہے۔ہم ایک طویل عرصے کے بعد ایک دوسرے کو مل رہے تھے۔ سب ایک دوسرے کو اپنی کہانی سنا رہے تھے۔ پھل دار درختوں کی گھنی چھاؤں کے نیچے اس محفل کا مزا ہی کچھ اور تھا۔ اسی دوران کھانے کا علان ہوا۔کھاناکھانے کے بعد میجر عامر نے مجھے اور رؤف کلاسرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: چلیں آپ کو ایک نئی جگہ دکھاتے ہیں۔ہم گاڑی پر بیٹھ کر دشوار گزار راستے سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔میں نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے پوچھا: اس علاقے کا نام کیا ہے؟ میجر عامر نے مسکراتے ہوئے کہا: یہ نیسا پور ہے۔ دراصل نیسا پور کا نام میرے بچوں کے ناموں کے حروف سے مل کر بنایا گیا ہے۔ ہمارے ارد گرد سر سبز کھیت تھے۔ پھر اچانک منظر بدل گیا۔اب ہمارے سامنے دریائے سندھ کا پانی تھااور اس کے کنارے اِکا دُکا لوگ ٹولیوں میں بیٹھے پکنک منا رہے تھے اور پانی کے کنارے بیٹھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔پانی کے کنارے حدِ نظر تک خوب صورت مختلف رنگوں کے پتھر تھے جنہیں دریائے سندھ کے پانیوں نے ملائم کرکے ان کے رنگوں کو اُجال دیا تھا۔ان پتھروں میں خوب صورت دھاریاں بنی ہوئی تھیں‘ میں نے سوچادریااورسمندر بھی وقت اور زمانے کی طرح ہوتے ہیں۔جس طرح ان کا پانی پتھروں کے کونوں کو رگڑ کر ملائم کر دیتا ہے اسی طرح وقت اور زمانہ بھی ہماری شخصیت کو غیر محسوس طریقے سے تبدیل کر دیتا ہے۔میں نے دور دور تک پھیلے شفاف پانیوں پر نگاہ ڈالی جس پر دھوپ کی کرنیں رقص کر رہی تھیں۔ کیا خواب ناک منظر ہے۔دنیا کی ہاؤ ہو سے دور۔ کہتے ہیں تنہائی اور تخلیق کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ پانیوں پر رقص کرتی کرنوں کو دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آگیاجب میں دوستوں کے ہمراہ برطانیہ کے خوبصورت شہر ہل (Hull) کے ساحلی علاقے Sea Hornگیا تھا۔ کیا خوب صورت منظر تھا‘دور دور تک نیلے پانی کی چادر پھیلی ہوئی تھی اور دھوپ میں ایک فرحت بخش خنکی تھی۔ پھر ہم Humberکے طویل پُل پر چلتے رہے تھے۔ میں سوچتا ہوں اب وہ سب لوگ کہاں ہوں گے۔ اچانک آسمان پر شور مچاتا ہیلی کاپٹرمجھے لمحۂ موجود میں لے آتا ہے۔ ہم پانیوں کے درمیان بڑے بڑے پتھروں پر بیٹھے ہیں اور ٹھنڈا پانی ہمارے پاؤں سے مَس کرتا ہوابہہ رہا ہے۔ میں سوچنے لگا کیا یہ ممکن ہے کہ ان پانیوں کے ہمسا یے میں ہمارے بائیں ہاتھ اس ٹیلے پر درختوں کے جھنڈ میں ایک کیبن ہو جس میں شیشے کی کھڑکیاں ہوں جن سے طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کا منظر دیکھا جا سکے۔ جی تو نہیں چاہتا تھا کہ یہاں سے اُٹھا جائے لیکن اب ہمیں واپس جانا تھا اوراسلام آباد جانے سے پہلے ہم نے ایک اور جگہ دیکھنی تھی جہاں میری ملاقات طَور گل سے ہونا تھی۔یہ مرغیوں کا فارم تھا جہاں سینکڑوں کے حساب سے مرغیاں تھیں۔ان مرغیوں کے ہجوم میں ایک لمبا تڑنگا شخص کھڑا تھا جس کی جوانی ڈھل چکی تھی اور وہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے اوراس کی آنکھوں میں محبت کی مہربان روشنی تھی۔ یہ طور گُل تھا۔ وہی طور گُل جو افغانستان کے علاقے ننگر ہار میں پیدا ہوا تھا اور جو روسی حملے کے خلاف وطن کے دفاع کیلئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر جہاد کا حصہ بن گیا تھا۔ اسی دوران اس کی ملاقات میجر عامر سے ہوئی تھی جو افغان جہاد کا ایک دیو مالائی کردار تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے جب جذبوں سے سرشار مجاہد دنیا کی بڑی قوت سے ٹکرا گئے تھے۔ آخر کار پہاڑوں پربسنے والوں نے روس کو افغانستان سے دھکیل دیا۔ جنگ کے اختتام پر اس جنگ میں ایک ساتھ لڑنے والے اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ میجر عامر بھی فوج سے ریٹائرڈ ہو گئے اورفارم ہاؤس کے گوشۂ خلوت میں آبیٹھے۔ دریائے سندھ کے کنارے بیٹھے اکثر جہادِ افغانستان کے ان کرداروں کو یاد کرتے جن کے ساتھ مل کر انہوں نے یہ جنگ لڑی تھی۔ پھر ایک روز عجیب واقعہ ہوا۔ وہ گرمیوں کی ایک شام تھی میجر عامر پھلدار درختوں کے نیچے ایک چارپائی پر بیٹھے تھے جب ایک شخص اچانک ان کے سامنے آن کھڑا ہوا اور بولا: آپ نے پہچانا؟ میں طور گُل ہوں۔ میجر عامر کو ننگر ہار کا طورگُل یاد آگیا۔ دونوں گرم جوشی سے ملے طور گُل نے بتایا وہ مستقل پشاور میں شفٹ ہو گیا ہے۔ دو بیٹے مزدوری کیلئے ملک سے باہر ہوتے ہیں بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ میجر عامر نے کہا: طورگُل تم میرے پاس نہیں آجاتے؟ طورگُل بولا: میں تو کوئی کام نہیں جانتا صرف مرغیاں پالنے کا تجربہ ہے۔ میجر عامر نے کہا: ٹھیک ہے تمھارے شوق کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ پھر نیسا پور میں طور گل کے لیے مرغیوں کا فارم کھولا گیا۔ اب یہاں سینکڑوں مرغیاں ہیں۔ طورگُل ان سے بچوں کی طرح محبت کرتا ہے۔ ان کے کھانے کے اوقات کا خیال رکھتا ہے۔ وہ ان کا دوست بھی ہے اور چارہ گر بھی۔ یہ ایک باہمی محبت کا رشتہ ہے۔میں نے دیکھا وہ جدھر جاتا ہے مرغیوں کا ہجوم اس کے پیچھے پیچھے ہوتا ہے۔ وہ جہاں ٹھہرتا ہے مرغیاں اس کے اردگرد جمع ہو جاتی ہیں۔ یہ منظر میرے لیے انوکھا تھا۔ میں نے طور گل سے پوچھا: تمہیں نیسا پور میں رہ کر کیسا محسوس ہوتا ہے۔ وہ بولا اب تو یہی میرا گھر ہے۔صبح شام مرغیوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہوں۔کبھی کبھار مجھے افغانستان کی جنگ کے وہ دن یاد آجاتے ہیں جب گولیوں اور بموں کا شور راتوں کو سونے نہیں دیتا تھا۔اب میں سوچتا ہوں لوگ دوسروں کو مطیع بنانے کیلئے طاقت کا استعمال کیوں کرتے ہیں۔ یہاں مرغیوں کے درمیان رہ کرمجھے احساس ہوا کہ کیسے محبت سے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ وہ بات کر رہا تھا اور مرغیاں اس کے ارد گرد اسے گھیرے ہوئے تھیں۔ اب شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ ہم نے طورگُل سے اجازت لی۔ وہ ہمیں خداحافظ کہہ کر واپس مڑا اور زمین پر بیٹھ گیا۔ سب مرغیاں محبت کے سحر میں گرفتار اس کے اردگرد بیٹھ گئیں۔میں سوچنے لگا واقعی محبت سے دلوں کو تسخیر کیا جا سکتا ہے‘ بغیر زور زبردستی کے صرف محبت پیار اور مہربانی کے ذریعے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved