فرض کریں ایک ایسا کارخانہ جو2018 ء میں دو سو پنکھے روزانہ بنارہا تھا‘ 2019ء میں ایک سو پچاس‘ دوہزار بیس میں ایک سواور دوہزار اکیس میں ایک سو تیس پنکھے بنانے لگتا ہے تو پیداوار میں اس کمی اور اضافے کی تعبیر کیا ہوگی؟ اگر آپ اس کارخانے کی تین سال پہلے کی پیداوار کو آج کے مقابلے میں رکھیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تین سالوں میں اس کارخانے کی پیداوار میں پینتیس فیصد کمی ہوچکی ہے۔ اگر آپ پچھلے سال کی پیداوار کا مقابلہ آج کی پیداوار سے کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ صرف ایک سال میں یہ کارخانہ تیس فیصد ترقی کرگیا ہے۔ آپ دلائل کے طور پر اعدادوشمار بتائیں گے جو دراصل دونوں مقدمے ثابت کررہے ہیں۔ اس مثال کو ذہن میں رکھ کر ہم پاکستان میں رواں مالی سال کی ترقی کی تین اعشاریہ نو چار فیصد شرح ترقی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ہاں‘ یہ جان لیجیے کہ چار فیصد کے قریب شرح ترقی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں اوسط آمدن بھی بڑھی ہے جو جی ڈی پی بڑھنے کا ایک ضمنی نتیجہ ہے۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیدوار کا مطلب ہے وہ پیداوار جو یکم جولائی سے اگلے سال کے تیس جون تک پاکستان میں رہنے والے سب لوگ مل کر بازار میں لاتے ہیں۔ قومی آمدن کو آسانی کے لیے سمجھ لیجیے کہ وہ آمدنی جو پاکستان کے لوگ اندرون ملک کماتے ہیں یا بیرون ملک سے کما کربھیجتے ہیں۔ جب اس آمدنی کوملک میں رہنے والے بچوں بڑوں کی تعداد پر تقسیم کردیا جائے تو وہ اوسط آمدن بن جاتی ہے۔ جی ڈی پی کا گھٹنا بڑھنا ایک اہم پیمانہ ہے جسے دیکھ کر کسی ملک کی معاشی صحت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی پیمانے ہیں لیکن آپ اسے اہم ترین پیمانوں میں سے ایک سمجھ سکتے ہیں۔ اس پیمانے پر دیکھیں تو پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں پاکستان کا جی ڈی پی کم ہوا‘ یعنی ملک میں پیداوار کم ہوئی۔ اس کم پیداوار کا اثر ظاہر ہے بے روزگاری کی صورت میں ظاہر ہوااور ہر ایک نے خود کو غریب ہوتا ہوا محسوس کیا۔ اس معاشی تباہی میں اس جماعت کی نالائقی‘ معاشی اندھے پن اور احتساب کے شوق فضول کا تو جو کردار تھا سو تھا لیکن یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اسے کورونا وائرس جیسی آفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
چلیے پہلے دیکھتے ہیں کہ نالائقی نے ہماری معیشت پر کیا ظلم ڈھایا۔ سب سے پہلا ستم تو یہ تھا کہ جناب اسد عمر حال وزیر برائے منصوبہ بندی و سابق وزیر خزانہ کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ2018 ء میں انہیں آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں۔ انہوں نے فیصلے میں اتنی تاخیر کردی کہ آئی ایم ایف کے پاس جب گئے تو ہمیں مشکل ترین شرائط پر قرض ملا۔ یہ مرحلہ سر ہوا تو سٹیٹ بینک نے روپے کی قدر گرادی اور ساتھ ہی شرح سود اتنی بڑھا دی کہ 2018 ء میں ایک سو روپیہ جو آپ کی جیب میں تھا صرف ایک سال میں پینسٹھ روپے کے برابر ہوگیا۔ روپے کی قدر گرانے کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس سے درآمدات کم ہوں گی اور برآمدات بڑھیں گی۔ ان بے چاروں کو اتنا بھی علم نہیں تھا کہ درآمدات گھٹانے کیلئے روپیہ کی قدر میں کمی ہی واحد حل نہیں بلکہ ریاستی نظام کے اندر پہلے سے موجود انتظامی طریقوں سے بھی یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا تھا۔
ان حرکتوں کے ساتھ ہی احتساب نے اپنا جادو چلایا۔ کاروبار کو مافیا قرار دیا گیا۔ ہر وہ کام جس کیلئے صرف پالیسی میں تبدیلی کافی تھی‘ اس کیلئے سرکاری اہلکاروں کو سرمایہ کاروں پر چھوڑ دیا گیا۔ چینی پر سبسڈی کابینہ سے ملی احتساب شوگرمل مالکان کا شروع ہوگیا‘ آٹے کی قیمت گندم کی کم پیداوار کی وجہ سے بڑھی تماشا فلورملوں کا بنا دیا گیا‘ پٹرول کا بحران محض نااہلی کی وجہ سے پیدا ہوا ٹکٹکی پر پٹرول کمپنیوں کو کس لیا۔ اور تواور راولپنڈی رنگ روڈ جیسا بہترین منصوبہ بھی گمنام پیغامات کی بنیاد پربرباد کردیا۔ ڈالرکی قدر‘ پٹرول اور بجلی میں خود اضافہ کیا اور دکانداروں پر ڈنڈا کہ مہنگائی کیوں ہے۔ ظاہر ہے اس کے بعد کوئی احمق ہی ہوگا جو اس طرح کی حکومت کے ہوتے ہوئے کوئی سرمایہ کاری کرے گا۔ لہٰذا تبدیلی کے پہلے سال ہی معاشی تباہی کے آثار دکھنے لگے تھے اورجس کے پاس تھوڑا بہت پیسہ تھا وہ اپنی عزت بچانے کیلئے اوّل تو ملک چھوڑ گیا‘ اگر ایسا نہ کرسکا تو گھربیٹھ گیا۔ صنعتوں کا پہیہ رکنے لگا‘ ٹیکس گھٹنے لگے‘ لوگ بے روزگار ہونے لگے ‘ملک غریب تر ہونے لگا اور حکومت لنگر خانے بنانے میں جت گئی۔
معاشی تباہی کے ساتھ ہی کورونا کی آفت آگئی۔ حیرت انگیز طور پر اس معاملے میں حکومت نے درست راستہ اختیارکرلیا اور وہ تھا مکمل لاک ڈاؤن سے گریز۔ اس بیماری سے بچاؤ کیلئے دنیا معیشت کو داؤ پر لگا کر لاک ڈاؤن کا راستہ لے رہی تھی اورہمارے وزیراعظم نے بیماری کا پھیلاؤ روکنے کیلئے کاروبار کی جزوی بندش تک ہی اکتفا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہوٹل‘ تعلیمی ادارے‘ ریستوران تو بند رہے مگر دیگر کاروبار تقریبا ًمعمول کے مطابق ہی چلتا رہا۔ وقت نے یہ حکمت عملی درست ثابت کر دی‘ ہم بیماری سے بھی بڑی حد تک بچ گئے اور اپنا کام دھندا بھی چلاتے رہے۔ اسی پالیسی کی وجہ سے ہماری ٹیکسٹائل صنعت کو سہارا ملا۔ جب دنیا بند ہو رہی تھی تو ہماری کام کرتی صنعت کو عالمی منڈی سے آرڈر ملنا شروع ہو گئے۔ ہماری صنعتیں جو حکومتی نالائقی کی وجہ تباہی کے دہانے پر پہنچ رہی تھی انہیں کورونا راس آ گیا۔ اب ذرا دوبارہ آجائیے چار فیصد کی شرح ترقی پر۔ اس حکومت کے پہلے سال معیشت میں ترقی کی رفتار پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد سے کم ہوکر ایک اعشاریہ پانچ فیصد پر آگئی۔ دوسرے سال میں کورونا آگیا‘ کاروبار بند ہوگئے اور قومی پیداوارآدھا فیصد کم ہو گئی۔ تیسرے سال میں جو ترقی نظرآرہی ہے وہ دراصل دوسرے سال میں بند شدہ کاروبار کا دوبارہ چلنا ہے۔ حاشا وکلا اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ جس حکومت کی مبلغ معاشی پالیسی لنگر خانہ ہو اوروہ اس پالیسی کو فلاحی ریاست کی پالیسی کا نام دیتی ہو تو اس سے کوئی بھی سنجیدہ معاشی توقع رکھنا فضول ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ پاکستان کی آبادی ہر سال دو فیصد سے کچھ زیادہ شرح سے بڑھ جاتی ہے۔ یعنی حکومت بس اپنے کام سے کام رکھے تو ہماری قومی پیداوار میں دوسے تین فیصد کی ترقی تو ہو ہی جاتی ہے۔ اگر معقول حکومت ہواور وہ چند بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کردے تو یہ شرح پانچ فیصد سے اوپر چلی جاتی ہے۔ پاکستان کو کبھی ایسی حکومت نصیب ہوگئی جو اگلے بیس پچیس برس کا سوچ سکے تو ہماری ترقی کی شرح بہ آسانی چھ سے آٹھ فیصد ہوسکتی ہے۔ اور واضح رہے کہ یہ کام اسحق ڈار یا حفیظ شیخ جیسوں کے بس کا ہرگز نہیں۔ شوکت ترین یہ کرسکتے ہیں مگر خدشہ ہے کہ انہیں کرنے نہیں دیا جائے گا۔
خیر تو بات ہورہی ہے چار فیصد شرح ترقی کی۔ اس معاملے میں یاد رکھنے کا نکتہ یہ ہے کہ چار فیصد ترقی پچھلے سال کی معاشی تباہی کے مقابلے میں ہوئی ہے۔اس ترقی کے باوجود جو کاروبار بند ہیں وہ پہلے سے ہی بند ہیں‘ جو بے روزگار ہیں وہ بدستور بے روزگار ہیں‘ مہنگائی میں کوئی کمی نہیں اور عام آدمی کیلئے کوئی خوشخبری نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ترقی میں نئی سرمایہ کاری شامل ہے نہ حکومت کی طرف سے کوئی بڑا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ بس موسم کی وجہ سے گندم کی پیداوار اچھی ہوگئی اور کورونا کی وجہ سے مزید کاروبار بند نہیں ہوئے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بائیس کروڑ لوگوں کے ملک میں معیشت کا ایک کم ازکم حجم ہوتا ہے یعنی اسے قدرت کے سوا کوئی چاہے بھی تو برباد نہیں کرسکتا۔ کورونا کے جھٹکے سے نکلتی ہوئی اس فطری معیشت کو اگریہ حکومت اپنا کارنامہ سمجھ رہی ہے تو یہ دعویٰ محض اس کی بے خبری کا ثبوت ہے۔