تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     26-05-2021

خواتین ڈاکٹر کہاں ہیں؟

ویسے تو میں اس چیز کی قائل ہوں کہ بچیوں کو گھرداری لازمی آنی چاہیے لیکن جب میں چھوٹی تھی تو میرے والدین نے ہم بہنوں کو صرف رسمی اور دینوی تعلیم کی طرف مائل رکھا، اس کے ساتھ جس بچے میں جو پوشیدہ تخلیقی صلاحیتیں تھیں‘ ان پر کام کیا۔ میری ایک بہن بہت اچھی مصورہ ہے‘ دوسری باغبانی میں ماہر ہے۔ میرے والد ہر وقت یہ کہتے تھے کہ میری بیٹیاں کچن میں کام نہیں کریں گے‘ ماچس ہاتھ میں مت پکڑو‘ چولہے سے دور رہو۔ میری دادی مرحومہ ہنستے ہوئے کہتیں: ہر جگہ ملازم نہیں ہوتے‘ بیٹیوں کو تمام گھریلو کام آنے چاہئیں کیونکہ بیٹیوں کی قسمت شادی کے بعد ان کے شوہروں اور سسرال والوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ امی اور پھپھو کی وجہ سے مجھے تھوڑی بہت امورِ خانہ داری آ گئی ورنہ ابو کا بس چلتا تو وہ ہمیں کتاب‘ قلم اور کمپیوٹر کے علاوہ کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانے دیتے۔ وہ اب بھی کہتے ہیں کہ لڑکا‘ لڑکی برابر ہیں‘ لڑکیوں اور لڑکوں کو مل کر گھر کا کام کرنا چاہیے اور زندگی کی گاڑی بھی مل کر کھینچنی چاہیے۔ میری امی اور دادی کے الگ خیالات تھے کہ بس ڈگری لو اور گھر پر توجہ مرکوز رکھو، جاب وغیرہ ثانوی چیزیں ہیں۔ البتہ جس لڑکی نے بھی خاندان میں ڈگری مکمل کر کے جاب کرنے کی خواہش کی‘ اس کو اپنے خوابوں کی تکمیل کی اجازت دے دی گئی۔ مجھے بھی ٹین ایج میں جاب مل گئی تھی مگر میرے والدین نے کہا کہ ڈگری مکمل کرنا لازم ہے۔
ایک دفعہ دورانِ رپورٹنگ میرے پائوں پر چوٹ لگ گئی اور مجھے مرہم پٹی کی ضرورت پیش آئی۔ میں اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال گئی تو دیکھا کہ وہاں سرجری کے شعبے میں صرف مرد ڈاکٹر ہیں۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ کوئی فی میل سرجن کیوں نہیں ہے۔ خیر میں نے مرہم پٹی تو کرا لی مگر اس بات پر شدید غصہ تھا کہ کوئی خاتون سرجن کیوں نہیں ہے‘ وہاں نرسیں تھیں لیکن وہ سرجری کی مہارت تو نہیں رکھتی تھیں۔ اسی طرح میری والدہ کو ایک بار شوگر کی وجہ سے ایک مسئلہ درپیش آیا تو ہمیں کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں ملی۔ وہ بضد تھیں کہ میں فی میل ڈاکٹر سے علاج کروانا چاہتی ہوں، ان کی کمر کے پاس ایک سرجری ہونا تھی مگر کوئی خاتون سرجن موجود نہیں تھی۔ میں نے انہیں کہا کہ آج تک آپ کو شوگر جیسے مرض کیلئے‘ جو پاکستان میں اتنا عام ہے‘ کوئی ماہر خاتون ڈاکٹر تو ملی نہیں تو میں خاتون سرجن کہاں سے ڈھونڈ کر لائوں؟ بڑی سرجری میں تو آپریشن بے ہوشی کی حالت میں ہوتے ہیں‘ لہٰذا انسان اس چیز سے واقف نہیں ہو پاتا کہ اندر کتنا عملہ مردوں پر مشتمل تھا اور کتنا خواتین پر لیکن جب چھوٹی سرجری ہو رہی ہو تو اس وقت انسان ہوش میں ہوتا ہے‘ اس وقت زیادہ تر خواتین الجھن کا شکار نظر آتی ہیں۔ البتہ دیکھا گیا ہے کہ مرد ڈاکٹر حضرات پوری کوشش کرتے ہیں کہ مناسب فاصلہ رکھ کر ہی خواتین مریضوں کو دیکھا جائے۔ اسی طرح امراضِ چشم ہوں یاکینسر، ایڈز، تھائیرائیڈ، ہارمونز کا ایشو، ای این ٹی، کارڈیالوجی، لیور ٹرانسپلانٹ، کیمو تھراپی، نیورو لوجی، آرتھو پیڈک، پیتھالوجی، سیکائٹری، یوریالوجی اور دیگر شعبے‘ شاید ہی آپ کو کوئی خاتون ڈاکٹر نظر آتی ہو۔ ایمرجنسی میں بھی مرد ڈاکٹر زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو خواتین ڈاکٹر کہیں ملیں گی بھی تو وہ شعبہ گائنی کا ہو گا، ڈرماٹالوجی، ڈینٹسٹری کا یا بطور ماہر نفسیات آپ کو وہ نظر آئیں گی۔ کیا اس کے علاوہ عورتوں کو طبی مسائل نہیں ہوتے؟ بالکل ہوتے ہیں! پاکستان میں بڑی تعداد میں خواتین کینسر کا شکار ہوتی ہے‘ ان میں چھاتی کا سرطان اور بچہ دانی کا سرطان سرفہرست ہیں، اس کے علاوہ امراضِ قلب، ذیابیطس، ڈپریشن، حمل سے جڑے پیچیدہ امراض، نسوانی امراض، بے اولادی، مختلف نوعیت کی سرجریاں، فالج، اعصابی امراض، دماغی امراض، ہڈیوں کے امراض، ٹی بی، الزئمر سمیت دیگر بہت سی بیماریاں شامل ہیں کہ جب خواتین ان مسائل سے دوچار ہوتی ہیں تو پہلے پہل صبر کرتی رہتی ہیں اور اپنی بیماری کسی کو بتانے سے گریز کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں درد بڑھتا جاتا ہے اور وہ اس وقت ہسپتال پہنچتی ہیں جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ زیادہ تر خواتین بیماری کے معاملے میں اسی لئے جھجکتی ہیں کہ مرد ڈاکٹرز سے چیک اَپ کرانے میں وہ عار محسوس کرتی ہیں۔
میرے اپنے ساتھ یہ بیت چکی ہے، دل کا طبی معائنہ کراتے ہوئے ای سی جی نرس نے کی، مگر رپورٹ چیک کرنے والا ڈاکٹر مرد تھا۔ پھر جب کورونا کی وبا میں مجھے موسمی بخار ہوا تو میں نے سینے کا ایکسرے کرانا تھا، اگرچہ یہ ایکسرے لباس کے اوپر سے ہی ہونا تھا مگر ایکسرے کرنے والا لیب اٹینڈڈ مرد تھا۔ یہ رپورٹ بھی مرد ڈاکٹر کے پاس گئی جس نے دیکھ کر کہا کہ سب ٹھیک ہے۔ اس وقت میں سوچ میں پڑ گئی کہ اگر کوئی خاتون ڈاکٹر اور خاتون لیب اٹینڈڈ ہوتی تو شاید میں بہتر طور پر اپنا چیک اَپ کرا سکتی تھی یا کم از کم مجھے تسلی ہو جاتی لیکن خواتین ڈاکٹرز آپ کو گائنی وارڈ کے علاوہ شاید ہی کہیں نظر آئیں۔ پاکستان کی خواتین ڈاکٹرز ہیں کہاں؟ جب رزلٹ آتے ہیں تو لڑکیاں سب سے اوپر ہوتی ہیں، اینٹری ٹیسٹ میں بھی سب سے اوپر‘ میڈیکل کالجز کے امتحانات میں بھی سب سے اوپر نام خواتین کے ہوتے ہیں، زیادہ تر میڈل اور ٹرافیاں بھی وہی لے کر جاتی ہیں مگر ہسپتالوں میں یہ کہیں نظر نہیں آتیں۔
ہمارے ملک میں ضرورتِ رشتہ کے اشتہار دیکھیں تو ڈاکٹر بہو کی ڈیمانڈ ٹاپ پر ہو گی مگر اس کو بیاہ کر لے جانے کے بعد اس سے کچن میں گول روٹی ہی بنوائی جاتی ہے۔ ان پر ملک و قوم کا جو پیسہ خرچ ہوا ہوتا ہے‘ اور جو والدین نے بھاری فیسیں دی ہوتی ہیں‘ وہ سب ضائع ہو جاتی ہیں اور یہ خواتین ڈاکٹرز گھر بیٹھ جاتی ہیں حالانکہ اتنے سالوں کی پڑھائی کے بعد ان کو ہسپتالوں میں مریضوں کی جان بچانی چاہیے۔ فرسٹ ایئر میں عمومی طور پر لڑکیاں یہی کہتی ہیں کہ ہم دکھی انسانوں کی خدمت کریں گی اور مریضوں کا علاج کرکے انہیں تندرست کریں گی مگر فائنل ایئر میں ''مجھے ساجن کے گھر جانا ہے‘‘ شروع ہو جاتا ہے۔ اکثر اچھے رشتے کی وجہ سے نوکری چھوڑ دی جاتی ہے۔ یقینا خواتین ڈاکٹرز کو بھی باقی سب کی طرح‘ پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنا گھر بسائیں‘ شادی کریں‘ بچے پیدا کریں‘ ایک خوشحال زندگی بسر کریں لیکن اس تعلیم اور ان دعووں کا کیا کریں جو ان لڑکیوں نے پہلے کیے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لڑکیاں ڈگری لے کر شادی کرتی ہیں اور پھر غائب ہو جاتی ہیں۔
کیا حکومت اس ضمن میں تحقیق کرنا پسند کرے گی کہ گزشتہ بیس سالوں میں کتنے لڑکے اور لڑکیوں نے ایم بی بی ایس کیا اور کتنے ڈاکٹرز اس وقت پریکٹس کر رہے ہیں؟ کیا میڈیکل کالجوں میں خواتین کا کوٹہ اس لیے رکھا جاتا ہے کہ ڈاکٹر بننے کے بعد لڑکیاں گھروں پر بیٹھ جائیں اور پردہ دار مریض خواتین کو دقت اٹھانا پڑے۔ لیب میں خواتین ناپید، ویکسین سنٹرز میں خواتین کا عملہ آٹے میں نمک کے برابر، اور تو اور ایمرجنسی میں بھی لیڈی ڈاکٹرز کی تعداد نہایت کم ہے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ میڈیکل کالجز میں لڑکیوں کی تعداد نہایت محدود کر دی جائے، کم از کم لڑکے ڈگری لے کر کام تو کرتے ہیں۔اس کے ساتھ میڈیکل کالجز میں مختلف شعبوں کی شرح کو بھی ٹھیک کیا جائے کہ لڑکیوں نے صرف گائنی ، سکن یا نفسیات کے شعبوں میں ہی نہیں جانا کہ خواتین کو اس کے علاوہ بھی بیماریاں ہوتی ہیں۔
اس وقت پوری دنیا کورونا کی وبا کی زد میں ہے‘ ان تمام لوگوں‘ خاص طور پر خواتین کو‘ جنہوں نے گزشتہ بیس سالوں میں ڈگریاں حاصل کی ہیں‘ ہنگامی طور پر کام پر بلایا جائے تاکہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا بوجھ کچھ کم ہو۔ اس کے علاوہ لیڈی ڈاکٹرز سے یہ حلف بھی لیا جائے کہ ڈگری مکمل ہونے پر وہ شادی کر کے گھر پر نہیں بیٹھ جائیں گی بلکہ ایک مقررہ مدت تک پریکٹس کریں گی اور اگر ایسا نہ کیا تو ان کی ڈگری کینسل کر دی جائے گی۔ ہاں کوئی حقیقی وجہ ہو تو اور بات ہے لیکن شادی کے بعد یہ کہنا کہ ''ان کو میرا جاب کرنا پسند نہیں‘‘ پورے شعبۂ طب، انسانیت اور ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ میری رائے میں حکومت خواتین ڈاکٹرز کو کم از کم پندرہ سال تک کام کرنے کا پابند کرے۔ شادی اور بچوں کی ولادت کی صورت میں ان کو چھٹی دی جائے؛ تاہم جاب چھوڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہسپتالوں کے قریب نرسری وغیرہ بنائی جا سکتی ہے تاکہ فی میل سٹاف اپنے بچوں کو بھی ساتھ لا سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved